براہمداغ بگٹی۔ لازم ہے احتیاط
ایران میں اتنے ہی بلوچ ہیں جتنے پاکستان میں لیکن وہ تو وہاں انتہائی غربت و افلاس میں ہیں
نواب اکبر بگٹی کے بڑے بھائی عبدالرحمن بگٹی باپ سے ناراض ہو گئے۔ اپنے والد نواب محراب خان بگٹی کے خلاف ایک کتاب ''محراب گردی'' تحریر کی جس میں انھیں انگریزوں کا وفادار اور بلوچ عوام کا مخالف ثابت کیا۔ وڈیرہ خان محمد کلپر اس وقت جوان تھا۔ اس نے عبدالرحمن بگٹی کا ساتھ دیا۔ ایک قبائلی جنگ شروع ہوئی۔ عبدالرحمن بگٹی کو حالات اپنے لیے مناسب معلوم نہ ہوئے تو وہ افغانستان بھاگ گئے۔ اب محراب خان بگٹی کو فکر لاحق ہوئی، اس لیے کہ اپنے علاقے اور اپنے قبیلے کے درمیان انسان کا پتہ چلتا رہتا ہے کہ وہ کس قدر مضبوط ہے، کہاں سے وار کر سکتا ہے لیکن ایک دوسرے ملک میں بیٹھ کر تو وہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
محراب خان بگٹی نے فوراً ڈپٹی کمشنر سبی کو درخواست کی کہ ان کے بیٹے کو افغانستان سے کسی نہ کسی طور پر واپس بلایا جائے چونکہ قبائلی علاقوں میں ریاستی رٹ قبائل کے ذریعے ہی قائم کی جاتی تھی اس لیے ان کا یکجا، پرامن اور ایک نظام کے تحت متحد ہونا ضروری تھا۔ اس لیے فوراً ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو تحریر کیا گیا کہ ناراض عبدالرحمن بگٹی کو واپس لایا جائے کیونکہ وہ ایک دن صرف بگٹی قبیلہ ہی نہیں بلکہ انگریز سرکار کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے اپنی تحصیل گلستان میں افغان سرحد کے قریب آباد محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی سے رابطہ کیا اور وہ عبدالرحمن بگٹی کو منا کر افغانستان سے واپس لائے۔ اب یہاں اس قبائلی جھگڑے کی کوکھ سے ایک انقلابی بننے والے عبدالرحمن کو مستقل طور پر پر امن بنانے کا مرحلہ تھا۔ انگریز سرکار نے انھیں فوری طور پر تحصیلدار کی نوکری کا پروانہ تھمایا اور نوشکی میں تعیناتی بھی کر دی۔ چونکہ نواب خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس لیے گھریلو سامان وغیرہ خریدنے کے لیے پانچ سو روپے بھی دیے جو اس زمانے میں لاکھوں کے برابر تھے۔
اس وقت سے لے کر آج تک عبدالرحمن بگٹی اور ان کا خاندان ایک پر امن اور قانون پسند شہری کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ البتہ خان محمد کلپر ایک طویل صلح کے وقفے کے بعد دوبارہ نواب اکبر بگٹی سے لڑائی پر آمادہ ہو گیا۔ اس لڑائی کو کسی نے سلجھانے کی کوشش نہ کی بلکہ الٹا اس آگ کو ہوا دینے میں ریاستی اداروں اور پس پردہ طاقتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ ایک جانب نواب اکبر بگٹی تھا جس نے ریاستی طاقتوں کا اس وقت ساتھ دیا جب پورا بلوچستان ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ عطا اللہ مینگل کی حکومت اس وقت ختم کی گئی جب وہ میزان چوک کوئٹہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے اور کسی کو یقین تک نہ تھا کہ نواب اکبر بگٹی کو گورنر لگا دیا جائے گا۔ آج تبصرہ نگار ہزاروں افسانے تراشتے ہیں کہ اس وقت ایران کا دباؤ تھا، امریکی نہیں چاہتے تھے کہ روس کی جانب اچھے رویے رکھنے والے بلوچ برسراقتدار رہیں۔ یہ افسانے صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی آمرانہ سوچ کو چھپانے کے لیے تراشے گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نواب بگٹی نے اپنی قبائلی عصبیت کی بنیاد پر بھٹو کی آمرانہ سوچ کا ساتھ دیا۔ اس دوران ریاستی رٹ قائم کرنے والے نواب اکبر بگٹی اور خان محمد کلپر میں جب جھگڑا شروع ہوا تو حکومتی اہلکاروں اور پس پردہ کام کرنے والوں کو سو طرح کے خیال سوجھنے لگے۔
نواب اکبر بگٹی اگر کمزور ہوتا ہے تو وہ ہماری بات آسانی سے مانے گا۔ خان محمد کلپر کو اگر ہم سپورٹ کرتے ہیں تو کل کو وہ ہمارے لیے ایک سرمایہ ثابت ہو گا۔ اس دوغلی پالیسی نے بگٹی قبیلے کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔ کسی نے عبدالرحمن بگٹی والے معاملے کی طرح اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی۔ شاید امن اس وقت کی انتظامیہ کی خواہش نہ تھی۔ قتل و غارت کا سلسلہ جو خان محمد کلپر کے بیٹے کے قتل سے شروع ہوا، نواب اکبر بگٹی کے بیٹے سلال بگٹی کے قتل پر اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ حکومتی افراد نواب اکبر بگٹی سے مسلسل رابطے میں رہتے، ان سے اپنے تعلقات مستحکم رکھتے اور ساتھ ساتھ خان محمد کلپر اور اس کے قبیلے کی مدد بھی مستقل جاری رکھتے۔ سلال بگٹی کے بعد یوں لگتا تھا، نواب اکبر بگٹی کی کمر ٹوٹ گئی ہو۔ وہ سلال بگٹی کو قبیلے کا مستقبل سمجھتے تھے اور وہ ان کی ذاتی تربیت میں تھا۔ سلال کی موت کے بعد براہمداغ کو نواب بگٹی نے اپنی تربیت میں لے لیا۔
میری نواب اکبر بگٹی سے آخری گفتگو اس وقت ہوئی جب وہ اپنے بگٹی قبیلے کی سرزمین چھوڑ کر مری قبیلے کے علاقے میں موجود ایک غار میں پناہ لینے جا رہے تھے۔ یہ غار اور گوریلا جنگ پر لکھی ہوئی فرانسیسی ادیب کی کتاب ''WAR OF THE FLFA'' ''مکھی کی جنگ'' جنگ نواب بگٹی کے دلچسپ موضوعات تھے۔ میرے سوالات بہت تھے لیکن ان کا جواب ایک ہی تھا کہ میرے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔ نواب اکبر بگٹی اپنے تمام معاملات پر گفتگو اور ان کے حل کے لیے پرویز مشرف سے ملاقات پر راضی ہو گئے تھے۔ وہ اپنے قبیلے سے مشورے کے بعد ڈیرہ بگٹی سے سوئی روانہ ہوئے جہاں ایک بہت بڑا قافلہ انھیں چھوڑنے آیا۔ سوئی ایئرپورٹ پر کئی گھنٹے انتظار کے بعد بھی طیارہ نہ آیا اور کئی بہانے تراشے گئے۔ یہ راز اب بلوچستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ وہ لوگ کون تھے جو یہ صلح اور امن نہیں چاہتے تھے۔ ایک مایوس، ناکام نواب اکبر بگٹی کے لیے قبیلے میں اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ ایک دوسرے قبیلے کی جانب کوچ کرے اور ان کے علاقے میں موجود غار میں پناہ لے لے۔ اس کے بعد کی کہانی انتہائی خونچکاں ہے۔
پرویز مشرف کے پر غرور فقرے کہ ''اب وہ زمانہ نہیں رہا، اب انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ہم نے کدھر سے ان کو ''ہِٹ'' کیا'' نے جس طرح جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر نواب بگٹی کی موت کے سانحے نے جس طرح بلوچستان کو ایک الاؤ کی شکل دے دی۔ اسے اس قوم نے دس سال بھگتا۔ جو الاؤ ہم نے خود روشن کیا تھا اور جس کی آگ کی تپش سے بھی ہم جلتے تھے۔ اس پر تیل تو پھر Raw نے بھی ڈالنا تھا۔ خاد نے بھی اور سی آئی اے نے بھی۔ وہ جنھیں اپنے خطے میں امن کی فکر ہوتی تھی ایک عبدالرحمن بگٹی کے افغانستان جانے پر ایک دم پریشان ہو جاتے تھے۔ ہم عجیب تھے 1948ء میں پرنس عبدالکریم اپنے بھائی خان آف قلات سے ناراض ہو کر افغانستان چلا گیا اور ایک انقلابی کی صورت جلوہ گر ہوا، ہمیں کوئی فکر لاحق نہ ہوئی۔ 1974ء میں کتنے پشتون اور بلوچ قبائل افغانستان گئے، وہاں روس اور افغانستان سے مدد لیتے رہے، ہم نے آرمی ایکشن سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، مسئلہ الجھتا گیا، کیا کوئی تاریخ کا یہ سبق نکال کر بغیر کسی تعصب سے پڑھ سکتا ہے کہ بلوچستان میں 1977ء سے 2005ء تک 28 سال کس وجہ سے امن قائم ہوا اور قائم رہا۔
یہ وہ دور تھا جب ہم افغان جنگ لڑرہے تھے لیکن بلوچستان پر امن تھا۔ اس لیے کہ ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتقمانہ روش چھوڑ کر سب سے پہلے حیدر آباد غداری کیس ختم کیا اور پھر پورے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر دیا۔ افغانستان میں بیٹھے کسی بلوچ یا پشتون کو واپس آنے کے لیے کوئی ''را''، کوئی ''خاد'' یا کوئی '' کے جی بی'' نہ روک سکی۔ سب واپس اپنے گھروں میں لوٹ آئے۔ میں اس وقت بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا، وہاں اکثریت ایسے طلبہ کی تھی جو افغانستان سے لوٹے تھے اور وہ آج بلوچستان کی انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ آپ اپنے لوگوں کو سینے سے لگائیں تو کوئی ان کو آپ سے دور نہیں کر سکتا۔ بلوچستان کا بلوچ اور اس کی لیڈر شپ اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کے سوا ان کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ ایران میں اتنے ہی بلوچ ہیں جتنے پاکستان میں لیکن وہ تو وہاں انتہائی غربت و افلاس میں ہیں، سیاست میں ان کا حصہ صفر ہے اور انتظامیہ میں نہ ہونے کے برابر یہاں تک کہ وہ اپنے مسلک کے مطابق نماز بھی ادا نہیں کر سکتے۔ افغانستان کے پشتون ان پر چڑھ دوڑیں گے، عرب ریاستیں انھیں اپنا باجگزار بنا لیں گی۔ انھیں علم ہے کہ پاکستان ہی ان کی پناہ گاہ اور ان کا مستقبل ہے۔ لیکن اگر پناہ گاہ کے لوگ ہی ان پر بندوق تان لیں تو وہ کہاں جائیں۔
مدتوں کے بعد موجودہ عسکری و سیاسی قیادت نے ضیاء الحق ہی کی اس پالیسی کو دوبارہ زندہ کیا۔ عام معافی کا اعلان کیا گیا اور آج اس کے ثمرات پورے بلوچستان میں نظر آ رہے ہیں۔ میں چند ہفتے قبل کوئٹہ گیا تو مجھے کوئٹہ ویسا تو نہیں لیکن بہت بہتر نظر آیا۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ براہمداغ بگٹی واپس آنا چاہتا ہے۔ یہاں احتیاط لازم ہے۔ جو لوگ بلوچ نفسیات سے واقف ہیں وہ اسے کبھی بھی اپنی فتح نہیں کہیں گے بلکہ ناراض بھائی کی واپسی کہیں گے اور دوسری احتیاط یہ ہے کہ اب اسے واپس لے آئیں کہ یہی امن کا راستہ ہو گا۔ بہت سے مشورہ دینے والے موجود ہیں، ایسے دانشور جن کا بلوچستان سے رابطہ ہے پریس کلب کے صحافیوں اور اعلیٰ پولیس افسروں سے زیادہ نہیں رہا۔ وہ طرح طرح کے مشورے دے رہے ہیں، قبائلی مخالف اپنی فتح چاہتے ہیں لیکن براہمداغ کی واپسی امن کی ضمانت ہو گی۔ قبائلی زندگی میں قبیلہ ایک اکائی ہوتا ہے کوئی ٹکری وڈیرے کی، وڈیرہ سردار کی اور سردار نواب کی جگہ نہیں لے سکتا اور نہ خاندان بدلے جا سکتے ہیں۔ انگریز نے مری اور مینگل قبیلے میں ایسا کرنا چاہا، منہ کی کھائی۔ احتیاط لازم ہے۔ ایسا نہ ہو کہ براہمداغ بھی نواب اکبر بگٹی کی طرح ایئرپورٹ پر طیارے کا انتظار کرتا رہے اور پھر بلوچستان ایک بار پھر امن کو ترس جائے۔