جرائم کی جڑ اور حلقہ 122 کا فیصلہ
اسے ماہرین نفسیات کو چیک کرواتے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ وہ جرم شوقیہ کررہا ہے
وزیر داخلہ پنجاب ریٹائرڈ کرنل شجاع خانزادہ کی ایک خودکش حملے میں شہادت اور ایم کیو ایم رہنما رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ ایسے واقعات ہیں جن پر آپریشن ضرب عضب کے آخری اور کامیاب مرحلے میں داخلے کے بجائے اسے مسلسل جاری رکھنے پر اصرار کیا جانا چاہیے۔
ویسے بھی دنیا بھر میں بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں جہاں جرم وجرائم کی بیخ کنی کا جدید اور موثر نظام موجود ہے۔ وہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کارروائی کے بعد ہتھیار یہ کہہ کر رکھ نہیں دیتے کہ ان کا کام مکمل ہوگیا۔ مجرم ختم ہوگئے یا دوسرے ملکوں میں فرار ہوگئے۔ بلکہ وہاں آپریشن 24 گھنٹے اور سال کے 365 دن جاری رہتا ہے اور وہ جرم کے خلاف آپریشن کے علاوہ اس پر باقاعدہ تحقیق کرتے ہیں۔ مجرم کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اسے ماہرین نفسیات کو چیک کرواتے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ وہ جرم شوقیہ کررہا ہے، ضرورت کے تحت یا کسی نفسیاتی مرض کے زیر اثر۔ ان کا مقصد مجرم کی بروقت گرفت کے علاوہ جرم کی جڑ سے بیخ کنی بھی ہے۔ یہ جاننا بھی ہے کہ جرم کیوں ہوا۔ پس منظر میں وہ ضرورت کیا رہی جس نے ایک شخص کو، اگر وہ صحیح الدماغ ہے جرم کرنے پر مجبور کیا۔ لہٰذا وہاں Criminology پر باقاعدہ Research کی جاتی ہے۔
کتابیں تحریر ہوتی ہیں۔ وہ معاشرے یوں ہی ترقی یافتہ اور مہذب نہیں کہلاتے بلکہ اگر ایماندارانہ رائے کا اظہار کیا جائے تو ان کی انتھک محنت، کوشش ہر معاملے ہر شعبہ زندگی میں ان کا غور وفکر انھیں اس کا استحقاق دلاتا اور باقی معاشروں سے انھیں منفرد کرتا ہے۔ہمیں بھی اپنے مسائل کے مستقل و دائمی حل کے لیے ان کے طریقے کار سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ چناچہ ہمیں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی جڑ تک پہنچنا ہوگا۔
اگر وہ مدارس میں ہے،تو وہاں کارروائی کی جائے یا علاقہ غیر، ٹرائبل ایریاز میں تو آپریشن ''ضرب عضب'' جاری ہے لیکن ساتھ ہی ایک ایسا نصاب وقت کا تقاضا ہے جو دین کی بنیاد کی وضاحت کرے۔ ملک میں بہت سے عقیدوں اور فرقوں کا موجود رہنا مناسب نہیں۔ بلکہ ان کے علما کو یکجا کرکے انھیں ایسا مشترکہ مسلک یا کہہ لیں کہ ایسے نقطہ نظر پر بات کرنے کے لیے کہا جائے جو دین کی اساس ہے۔ اور یہ طے کروایا جائے کہ ان کے معتقدین ایک طے شدہ تعلیم کے علاوہ کسی مزید نقطے پر بات نہ کریں۔
ممکن ہے میری اس رائے کو کوئی صاحب عقل دیوانے پن سے تعبیر کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے تئیں دین کی بلکہ قرآن کریم کی تعلیمات کو معانی پہنا دیتے ہیں اور اسے صحیح قرار دے کر خود ہی جہاد کا حکم صادر فرما دیتے ہیں۔ اور یہ نت نئے فرقے اب ہفتہ وار یا مہینہ وار ایجاد ہونے لگے ہیں۔ اسی حساب سے جہادیوں کی پیداوار بھی ہے اور ہم میں سے کسی فرقے یا عقیدے کا فرد یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کسی مسکین کو ایک وقت کا کھانا کھلا دینا کسی مظلوم کے آنسو پونچھ دینا، کسی کے دکھ میں شریک ہوجانا، پڑوسی کے، والدین کے، دوستوں، مقربین کے، مسافر اور قیدیوں کے حقوق پورے کرنا اللہ پاک کے احکامات کی بنیاد ہے۔ اسلام کا درس اول ہے۔
اعلیٰ اخلاق اسلام کا دروازہ ہے۔لیکن کھڑے ہیں ڈنڈا لے کر۔ کلاشنکوف، بم لے کر اور ہیں عازم جہاد۔ منتظر ہیں کہ ادھر آنکھ بند ہو، ادھر جنت میں کھل جائے۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے۔ جس نے برصغیر پاک و ہند بمع بنگلہ دیش لیکن بالخصوص پاکستان میں مسلمین کو بری طرح سے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اس کا باقاعدہ علاج ہونا چاہیے ورنہ ملکی اور قومی ترقی میں دراصل یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ایک بڑا فیصلہ حلقہ 122 کا سامنے آیا ہے جو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے خلاف ہے اور جس میں الیکشن ٹریبونل نے مذکورہ حلقے میں الیکشن میں بے ضابطگیوں کو بنیاد بناکر انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں اس وقت T.V دیکھ رہا تھا۔ غالباً ٹریبونل کا فیصلہ 7 بجے آیا۔ اس سے پہلے عمران خان لاہور میں چیئرمین آفس کے افتتاح کے موقع پر کارکنان سے خطاب فرما رہے تھے جو کم و بیش ان کے سابقہ خطابات سے مختلف نہیں تھا۔
وہی جوشیلہ پن، جنون، پہلے جیسے دعوے، نئے پاکستان کا عزم اور الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کا بے چینی سے انتظار۔ کہیں کچھ مختلف نہیں تھا۔ اگرچہ الیکشن 2013 کے بعد ملک میں بہت کچھ تبدیل ہوا مثلاً جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ۔ جو حکومت کے حق میں آیا۔ اور کمیشن نے عمران خان کے ان الزامات کو یکسر مسترد کردیا جس میں انھوں نے گزشتہ الیکشن کو فراڈ اور دھاندلی زدہ قرار دیا۔
اس کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات ''آپریشن ضرب عضب'' جیسے فیصلہ کن آپریشن شروع کیے گئے۔ کراچی آپریشن، بلوچستان آپریشن سمیت جرائم کی شرح میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ملکی معیشت کو خاطرخواہ سہارا نہ مل سکا لیکن بہتری سے کوئی انکار بھی نہیں۔ مہنگائی میں البتہ اضافہ ہوا۔ بہرحال حلقہ 122 کا نتیجہ آتے ہی ایسا لگ رہا ہے کہ سب ٹھیک ہوگیا۔عمران خان ایک مرتبہ پھر بہت خوش دکھائی دیے۔
اور بہت ترنگ میں انھوں نے اعلان کیا کہ PTIاب ایک ادارہ بننے جا رہی ہے۔مجھے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے پر کوئی تبصرہ کرنے سے زیادہ ضروری یہ کہنا لگتا ہے کہ خان صاحب ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ جیسے ایماندار اور بااصول لوگوں کو جماعت چھوڑنے سے روکیں۔ کیونکہ اب PTIمیں معدودے چند افراد ہی ایسے رہ گئے ہیں جو اسے دیگر جماعتوں سے ذرا منفرد ظاہر کرتے ہیں۔ اگر وہ بھی چلے گئے تو باقی خوب ترین، بہترین، نازنین ہی رہ جائیں گے۔