’’اسرائیل ایک شیطانی ریاست ہے‘‘

وہ ایک عالمی شہرت یافتہ اسکالر ہے۔ اس کی تحریریں اور تقریریں ٹھوس دلائل اور مُستند حوالوں سے آراستہ ہوتی ہیں


احفاظ الرحمان August 23, 2015
وہ اپنے قلم سے اسرائیل کے مظالم اور صہیونی فریب کاریاں بے نقاب کر رہا ہے ۔ فوٹو : فائل

QUETTA: حق گوئی پر کسی کا اجارہ نہیں۔ یہ صفت نسل، مذہب اور جنس کی حد بندیوں میں قید نہیں رہتی۔ بہادری اور بزدلی، دردمندی اور سفاکی جیسی صفات کو کسی مخصوص زمان و مکان سے نسبت نہیں ہے، برے لوگ ہر جگہ ہیں اور ان کے مقابل اچھے لوگوں کے کردار کی خوشبو بھی ہر جگہ مہکتی ہے۔

جو اس بات پر یقین نہیں رکھتا، وہ تعصب اور خودغرضی کے جوہڑکا دل دادہ ہوتا ہے، بنی نوع انسان کے تہذیبی سفر کی توہین کرتا ہے۔ انسان بدترین اور انتہائی مخاصمانہ اور پُرخطر ماحول میں بھی سچائی کے ساتھ جینے کی تمنا سے جدا نہیں ہوتا۔ اس کی اس تمنا کو قسم قسم کے عذابوں کی بھٹیوں میں ڈالا جاتا ہے، لیکن وہ ہر بار کندن کی طرح دمکتی ہوئی باہر نکلتی ہے۔ یہ غیرمعمولی سخت جانی شاید انسان کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔



نارمن گیری فِنکل اسٹین بھی ایک غیرمعمولی آدمی ہے۔ وہ ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا، لیکن اسرائیل میں اس کے داخلے پر پابندی عاید ہے، کیوں کہ وہ اسرائیل کی مجنونانہ اور ظالمانہ سیاست کی کھل کر مذمت کرتا ہے۔ یوں تو صہیونیت کی مذمت کرنے والے یہودیوں کی تعداد کم نہیں ہے، لیکن اسرائیل میں نارمن فِنکل اسٹین کا شمار ان سخت جان دشمنوں میں کیا جاتا ہے، جو کسی طرح اس سے مرعوب نہیں ہوتے، دلیری سے وار سہتے ہیں اور دلیری سے وار کرتے ہیں۔ فنکل اسٹین کو وہ کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔

وہ ایک عالمی شہرت یافتہ اسکالر ہے۔ اس کی تحریریں اور تقریریں ٹھوس دلائل اور مُستند حوالوں سے آراستہ ہوتی ہیں، جنھیں جُھٹلانا آسان نہیں ہوتا۔ ایک لحاظ سے وہ مشہور ماہرلسانیات اور پولیٹیکل ایکٹوسٹ نوم چومسکی کے قریبی ارادت مندوں میں شامل ہے، جو یہودی ہیں، مگر صہیونی ریاست انھیں اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتی ہے۔ یہ دونوں غیرمعمولی آدمی امریکا کے شہری ہیں، جس کی حکومت اسرائیل کی سرپرست اور محافظ ہے۔

اس کے باوجود وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ صہیونیت اور وائٹ ہاؤس پر حملے کرتے ہیں، اور کھل کر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ اسرائیل ان کے نزدیک ایک دہشت گرد ریاست ہے، جس کی جارحیت عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

فِنکل اسٹین اس اعتبار سے اور زیادہ ممتاز نظر آتا ہے کہ اس کے ماں باپ ''ہولوکاسٹ'' کے عذاب سے گزرے تھے، لیکن فِنکل اسٹین نے خود کو انتہاپسندی اور متؑعصبانہ ردعمل سے محفوظ رکھا، اور وہ انتہاپسند یہودیوں کے مجنونانہ رویوں کو بار بار بے نقاب کرتا رہا۔ نارمن گیری فِنکل اسٹین نہ صرف ایک بلند پایہ پروفیسر اور مصنف ہے بلکہ ایک غیرمعمولی ذہانت رکھنے والے پولیٹیکل سائنسٹسٹ کی حیثیت سے مغربی سیاست کے ایوانوں میں بھی اس کے افکار اور نظریات کا چرچا ہوتا ہے۔

فِنکل اسٹین کی ریسرچ کا موضوع ''اسرائیل۔ فلسطین تنازع'' اور ''ہولوکاسٹ کی سیاست'' ہے۔ اس نے پرنسٹن یونی ورسٹی سے پولیٹیکل سائنس کے مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور اس کے تھیسس نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ امریکا کی درس گاہوں کے علمی حلقوں میں اسرائیل نواز اسکالرز نے چاروں طرف سے اس کا گھیراؤ کیا، یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس کے دلائل اور اعتراضات کا تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ وہ امریکا کے ممتاز تعلیمی اداروں، بروکلین کالج، رونگرز یونی ورسٹی، ہنٹر کالج، نیو یارک یونی ورسٹی اور ڈی پال یونی ورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے چکا ہے۔

2007 میں ایک علمی حریف ایلن درشووٹز سے فکری تنازع کے شاخسانے میں ڈی پال یونی ورسٹی کی انتظامیہ نے اس کی میعاد ملازمت میں توسیع کرنے سے انکار کردیا، حالاں کہ وہ 2001 سے وہاں کام کررہا تھا، اور ایک ٹیچر کی حیثیت اس کا ریکارڈ بہت شان دار تھا۔

اس ناانصافی پر ستمبر2007 میں اس نے استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ یونی ورسٹی کی انتظامیہ نے بیان جاری کیا کہ فِنکل اسٹین کی میعاد ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہے، لیکن یہ ایک کھلا راز تھا کہ علمی حلقوں میں صہیونی لابی ہر طرف سے دباؤ ڈال رہی تھی کہ اسے ملازمت سے نکال دیا جائے۔ پھر چند ماہ بعد اسرائیل میں فِنکل اسٹین کے داخلے پر دس سال کے لیے پابندی عاید کردی گئی۔ اور اس کے بعد امریکا میں ملازمت حاصل کرنا اس کے لیے مشکل ہو گیا۔ چناں چہ اب وہ ترکی کی ساکریا یونی ورسٹی کے ''سینٹر فار مڈل ایسٹرن اسٹڈیز'' میں پڑھا رہا ہے۔

فِنکل اسٹین کی ماں، ماریا ہوسٹ فِنکل اسٹین وارسا، پولینڈ میں پلی بڑھی۔ وارسا کے گھیٹو، ماجدانک ارتکازی کیمپ اور دو ''بے گار'' کیمپوں میں بند رہی، لیکن وہ ان چند خوش قسمت افراد میں شامل تھی، جو ہلاکت سے بچ گئے۔

جنگ عظیم دوم میں اس کا پہلا شوہر مارا گیا۔ زکریاز فِنکل اسٹین ، نارمن کا باپ، بھی وار سا کے گھیٹو اور آسوٹز ارتکازی کیمپ میں بند تھا، اور وہاں سے بچ نکلا تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو دونوں کی ملاقات ''بے گھر افراد'' کے ایک کیمپ میں آسٹریا میں ہوئی۔ شادی کے بعد دونوں امریکا منتقل ہوگئے۔ باپ نے فیکٹری مزدور اور ماں نے ''ہوم میکر'' کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ دونوں 1955 میں انتقال کرگئے۔ دونوں سوویت یونین کے بہت مداح تھے، کیوں کہ ان کی رائے میں نازیوں کی شکست سوویت یونین کی وجہ سے ممکن ہوئی۔

نارمن فِنکل اسٹین نیو یارک سٹی میں پلا بڑھا۔ اس کی ماں، جو نازیوں کے مظالم سے بھی گزرچکی تھی، ویت نام میں امریکی مظالم پر سختی سے وائٹ ہاؤس کی مذمت کرتی تھی۔ نارمن کے ابتدائی نظریات کی تشکیل میں اس کی ماں کے اس رجحان نے اہم کردار ادا کیا۔ پھر اس نے نوم چومسکی کی تحریروں کا مطالعہ شروع کیا تو اس کے نظریات اور زیادہ نکھر آئے۔ اس زمانے میں وہ ماؤزے تنگ کابہت مداح تھا، لیکن جب چار نفری ٹولے کا مقدمہ شروع ہوا تو وہ مارکسزم۔ لینن ازم سے دور ہوگیا۔

فِنکل اسٹین نے پی ایچ ڈی کی ڈگری پرنسٹن یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے تھیسس کا موضوع صہیونیت اور ''ہولو کاسٹ انڈسٹری'' تھا۔ یہ عمل بھڑکے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف تھا، چناں چہ اس کی شخصیت متنازع بنتی چلی گئی۔ تاہم اسے مختلف درس گاہوں میں پڑھانے کا تجربہ ہوا، اور اس دوران وہ ایک پولیٹیکل ایکٹوسٹ کے طور پر بھی نمایاں ہونے لگا۔ چناں چہ 1988 کے بعد وہ موسم گرما ''مغربی کنارے'' پر گزارنے لگا، جہاں وہ ہیبرون اور بیت سحور میں فلسطینی گھرانوں کا مہمان ہوتا تھا۔

چوں کہ راست بازی اس کے خمیر میں تھی، اس لیے اس نے جو کچھ لکھا، مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر لکھا، حالاں کہ نوم چومسکی نے اسے ٹوکا بھی کہ یہ لوگ تمہارا جینا دُوبھر کردیں گے، لیکن وہ باز نہیں آیا۔ متعدد ممتاز مصنفین اور اسکالرز کی تحریروں کو اس نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کی غارت گری کو چھپانے کے لیے حقائق مسخ کرتے ہیں۔ اس نے ''ہولوکاسٹ انڈسٹری'' کے وجود کا انکشاف کیا، جو اس کے خیالات میں صہیونیت نواز اسکالرز نے اسرائیل کے لیے ہم دردی کے جذبات ابھارنے کی خاطر ''تعمیر'' کی ہے۔



اس انڈسٹری کے ذریعے ہولوکاسٹ کی یادیں بار بار دہرائی جاتی ہیں، اور تکرار کے اس عمل سے اسرائیل کے مالی اور معاشی مفادات مستحکم ہوتے رہتے ہیں۔ فِنکل اسٹین نے جس گہرائی کے ساتھ صورتِ حال کا تجزیہ پیش کیا ہے اس پر راؤل ہل برگ، ایوی شلیم اور نوم چومسکی جیسے بلند مرتبہ اسکالرز نے اسے خراج تحسین پیش کیا ہے، اگرچہ اس پر حملہ کرنے والے اسرائیل نواز اور امریکا نواز مصنفین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

فلسطین کے جغرافیے اور تاریخ کے بارے میں فنکل اسٹین نے بڑے عالمانہ انداز میں اسرائیل نواز امریکی مصنفین کے نقطۂ نظر کو رد کیا ہے، خاص طور پر عثمانی سلطنت کے زیر تسلط فلسطین کے میں یہودیوں اور عربوں کے تناسب آبادی کے بارے میں اور جنگ عظیم کے بعد انتقال آبادی کے بارے میں، کہ کس طرح عربی بولنے والے فلسطینیوں کو اقلیت کا درجہ دینے کی سازش تیار ہوئی، اور کس طرح فلسطینیوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔

فِنکل اسٹین کے دو معرکے بہت مشہور ہوئے۔ جون پیٹرز کا شمار اہم ترین امریکی مصنفین میں ہوتا ہے۔ اس کی کتاب "From Time Immemorial" بیسٹ سیلر رہی ہے۔ اس نے بڑی مہارت کے ساتھ فلسطین کے جغرافیائی اور تاریخی حقائق کو ایک خاص زاویے سے پیش کیا ہے، جو صہیونیت کے حق میں جاتے ہیں۔ اس پر امریکا کے مین اسٹریم میڈیا میں بہت سی نام وَر شخصیات نے اسے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ادیب، ساؤل بیلو شاید سب پر بازی لے گیا ہے۔ اس نے لکھا:

''دنیا کے لاکھوں، کروڑوں لوگ، جنھیں بے بنیاد تاریخی واقعات کے ذریعے گم راہ کیا گیا، فلسطینیوں کی Origins کے بارے میں پیش کردہ اس صاف اور واضح بیانیے پر (مصنف کے) شکر گزار ہوں گے۔''

دوسری طرف، فِنکل اسٹین نے لکھا کہ یہ پوری کتاب لغو اور بے ہُودہ پروپیگنڈے کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ امریکا میں بہت بڑے پیمانے پر اس کتاب کا خیر مقدم کیا گیا لیکن اس میں جو ملمع سازی کی گئی ہے، جو فراڈ ہے، اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

فِنکل اسٹین اور دو تین دوسرے مصنفین نے اس کتاب کے مُندرجات کو رد کرنے کے لیے جو مضامین تحریر کیے انھیں امریکا کے مین اسٹریم میڈیا میں جگہ دینے سے انکار کردیا گیا، قومی سطح کا ایک بھی اخبار اس پروپیگنڈے کے خلاف تنقید چھاپنے پر رضامند نہیں ہوا کہ مشرق وسطیٰ کے اس اہم تنازعے کے بارے میں اس بیسٹ سیلر کتاب میں جھوٹے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔



نوم چومسکی نے کہا، ''میں نے اسے (فِنکل اسٹین کو) متنبہ کیا تھا کہ اگر تم پیش قدمی کروگے تو مشکل میں پھنس جاؤگے۔ تم امریکا کی دانش وَر برادری کو دھوکے بازوں کے ٹولے کی حیثیت سے بے نقاب کرنے جارہے ہو۔ یہ بات انھیں پسند نہیں آئے گی، اور وہ تمہیں تباہ کردیں گے۔''

فِنکل اسٹین ماننے والا نہیں تھا۔ اس پر شدید حملے کیے گئے، لیکن اس نے ان کے سامنے سر نہیں جھکایا، اس کی مستقل مزاجی رنگ لائی اور بہت لوگ اس کی تنقید پر توجہ دینے لگے۔ 1986 میں ''نیو یارک ریویو آف بُکس'' میں ای ہوشوایوراتھ کا تبصرہ شایع ہوا، جس میں اس نے ان مفروضات اور شہادتوں کو رد کیا، جن کی بنیاد پر پیٹرز نے اپنا مذکورہ مقالہ تحریر کیا تھا۔

ای ہوشوا کا شمار دنیا کے ان اسکالروں میں ہوتا ہے جو فلسطین کے جغرافیائی اور تاریخی حقائق پر گہری نظر رکھتے ہیں، اسی طرح امریکن کونسل آف فارن ریلیشنز، وزارت خارجہ، کے ہاؤس جرنل میں ورجینیا یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے مشہور پروفیسر ولیم بی کوان کا مضمون شایع ہوا جس میں انہوں نے پیٹرز کی کتاب "From Time Immemorial" پر فِنکل اسٹین کے تنقیدی مضمون کو ایک ''امتیازی اور منفرد مضمون'' قرار دیا ، اور یہ بھی کہا کہ پیٹرز نے جس نقلی عالمیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس پر فِنکل اسٹین کی تحریر ایک فاتحانہ علامت کی حیثیت رکھتی ہے۔

پھر مشہور اسرائیلی مورخ ایوی شلیم نے بھی فِنکل اسٹین کے مقالے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ''جب وہ ڈاکٹریٹ کا طالب علم تھا تب ہی اس نے ایک قابل اعتبار مقام حاصل کرلیا تھا۔ اس نے ایک ایسا مقدمہ پیش کیا ہے، جس کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ اس کے پیش کردہ شواہد ناقابل تردید ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیٹرز کی کتاب لغو اور Worth Less ہے۔''

نوم چومسکی نے لکھا ہے، چوں کہ فِنکل اسٹین کی ریسرچ نے اسے متنازع بنادیا، اس لیے پرنسٹن یونی ورسٹی سے اسے پی ایچ ڈی کی سند دینے میں دانستہ طور پر تاخیر کی گئی۔ چومسکی نے اپنی مشہور کتاب "Understanding Power" میں لکھا، ''واقعتاً فِنکل اسٹیشن کو پرنسٹن یونی ورسٹی میں کوئی اسکالر نہ مل سکا جو اس کا مقالہ پڑھنے پر رضامند ہوتا۔ پرنسٹن یونی ورسٹی محض اپنی ساکھ کھونے کے خوف سے فِنکل اسٹین کو ڈگری دینے پر مجبور ہوئی۔ تاہم اس کے بعد اس نے اسے ہر قسم کی پیشہ ورانہ اعانت فراہم کرنے سے انکار کردیا۔

آخرکار ڈاکٹریٹ کا یہ تھیسس فِنکل اسٹین کو مختلف مضامین کی صورت میں شایع کرنا پڑا، جن میں سے ایک "Disinformation and the Palestine Question" جون پیٹرز کی مذکورہ کتاب کے بارے میں ہے۔ دوسرا اہم حصہ "The Holocaust Industry" کے نام سے شایع ہوا، جو صہیونی ذہنیت رکھنے والے یہودیوں کے لیے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے لکھا کہ صہیونی اسکالرز ''ہولوکاسٹ'' کی یادوں کو ایک ''نظریاتی ہتھیار'' کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اس کا مقصد اسرائیل کو مستقل طور پر ایک ''مظلوم ریاست'' بناکر پیش کرنا ہے، جب کہ وہ ایک خوف ناک فوجی طاقت ہے، اور اس کا انسانی حقوق کا ریکارڈ لرزہ خیز ہے، یہاں تک کہ اسرائیلی حکم راں طبقے کے ٹھگ ہولوکاسٹ کے نام پر جرمنی اور سوئزر لینڈ سے زر تلافی کے طور پر بھاری رقوم سمیٹتے ہیں جو وکلا اور سرکاری اداکاروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والے متاثرین اس زرتلافی سے محروم رہتے ہیں۔

فِنکل اسٹین کو سامیت دشمن اور ہولوکاسٹ کا منکر قرار دیا گیا، جو مغرب میں ایک بہت خوف ناک الزام ہے۔ بہ ہر حال، اس کے حق میں بھی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ مثال کے طور پر ہولوکاسٹ پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ممتاز اسکالر راؤل ہل برگ نے کہاکہ فِنکل اسٹین کی کتاب میں جو تصورات پیش کیے گئے ہیں، میں خود بھی ان ہی کا ماننے والا ہے۔

اس نے اعتراف کیا کہ ''ہولوکاسٹ کا استعمال ناگوار انداز میں کیا جارہا ہے۔'' اس سے پوچھا گیا کہ کیا فِنکل اسٹین کے تصورات سے Neo-Nazis کو تقویت نہیں ملے گی اور وہ اسے سامیت دشمنی کے لیے استعمال نہیں کریں گے، تو اس نے جواب دیا، ''اگر وہ اسے اس طور استعمال کریں گے تو بھی سچ کھل کر کہنا ہوگا، خواہ اس کے کتنے ہی ناپسندیدہ اور ناگوار نتائج برآمد کیوں نہ ہوں۔''

مشہور قانون داں اور ماہرتعلیم ایلن درشو وٹز سے فِنکل اسٹین کی معرکہ آرائی برسوں پر محیط ہے۔ یہ ایسی دھواں دھار لڑائی تھی کہ امریکا اور یورپ کے علمی حلقوں میں مسلسل اس کا چرچا ہوتا رہا۔ فِنکل اسٹین کے حامی کم تھے، لیکن جو بھی تھے نام ور لوگ تھے۔ بہ ہر حال ایلن کے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی، جو صہیونی لابی سے تعلق رکھتے تھے۔

ایلن کی کتاب "The Case for Israel" کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے بعد فِنکل اسٹین نے اس کتاب کو ''پُرفریب اور جعل سازی اور سرقہ کا مجموعہ قرار دیا۔ اس نے کہاکہ ایلن کے پاس اپنے موضوع کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ یہی نہیں، اس نے یہ الزام بھی عاید کیا کہ ایلن نے یہ کتاب خود نہیں لکھی ہے، بلکہ اسے پڑھا تک نہیں ہے۔

اس نے بیس مثالیں پیش کیں، جو بیس صفحات پر محیط تھیں، جن سے اس نے ثابت کیا کہ ایلن نے اپنی کتاب میں وہی حوالے اور اقتباسات استعمال کیے ہیں جو جون پیٹرز اپنی کتاب میں کرچکی ہے۔ یہ نقالی اس حد تک بے عقلی سے کی گئی ہے کہ پیٹرز سے اقتباسات لیتے وقت جو غلطیاں سرزد ہوئیں، وہ بھی ایلن نے جوں کی توں نقل کردیں۔

ایلن درشووٹز نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی۔ فِنکل اسٹین تو مرعوب نہیں ہوا، لیکن اس کی کتاب کے پبلشر نے لفظ ''سرقہ'' کتاب سے نکال دیا۔ ایلن کا کہنا تھا کہ اس نے پیٹرز سے کوئی تصورات مستعار نہیں لیے، کیوں کہ میں تو پیٹرز کے اخذکردہ تصورات سے بنیادی اختلافات رکھتا ہوں!!

بہ ہر حال، اس لڑائی کا دائرہ پھیلتا گیا اور علمی سطح سے خالص ذاتی سطح پر آگیا۔ یہاں تک کہ درشووٹز نے 3 اپریل 2007 کو اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ اس نے گذشتہ سال ڈی پال یونی ورسٹی کے فیکلٹی ممبرز کو خط لکھا تھا کہ وہ فِنکل اسٹین کی میعاد ملازمت میں توسیع دینے کی مزاحمت کریں۔ درشووٹز مخالفت میں اس حد تک بڑھ گیا کہ اس نے کہا، ''میں سمجھتا ہوں، فِنکل یہودی نہیں ہے، بس اتنا ہے کہ اس کے ماں باپ یہودی تھے۔''

اگرچہ فِنکل اسٹین کے حامی کیمپس میں کم نہیں تھے حتیٰ کہ یونی ورسٹی کے طلبہ ایک عرصے تک اس کے حق میں مظاہرے بھی کرتے رہے، لیکن آخر کار اسے یونی ورسٹی سے استعفیٰ دینا پڑا، حالاں کہ ابتدائی مراحل پر طلبا کے احتجاج کے بعد یہ معاملہ کچھ عرصے کے لیے سرد خانے میں چلا گیا تھا۔ درشووٹز نے فِنکل اسٹین پر دروغ گوئی کا جو الزام عاید کیا تھا، وہ کم از کم دو تحقیقاتی کمیٹیوں کی نظر میں بے جا ثابت ہوا۔ لیکن اس کے باوجود ڈی پال یونی ورسٹی کی انتظامیہ کے بعض با اثر ارکان دباؤ میں آگئے، جس کے نتیجے میں فِنکل اسٹین کو وہاں سے رخصت ہونا پڑا۔

امریکن ایسوسی ایشن آف یونی ورسٹی پروفیسرز کی کانفرنس نے ڈی پال یونی ورسٹی کے صدر کو خط لکھا کہ ''یہ کسی یونی ورسٹی کے لیے یک سر ناجائز اقدام ہے کہ محض اس خوف سے کسی پروفیسر کی مدت ملازمت میں توسیع نہ کی جائے کہ اس کے کسی مطبوعہ ریسرچ سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بہ ہر حال، ڈی پال یونی ورسٹی کی انتظامیہ اخلاقی طور پر مضبوطی کا ثبوت نہ دے سکی۔ اس نے تو ''انٹرنیشنل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر Mehrene Larudee کی میعاد ملازمت میں بھی توسیع نہیں کی، جس کا قصور یہ تھا کہ وہ فِنکل اسٹین کی پرجوش حامی تھی۔

2014 میں Out of Bounds: Academic Freedom and the Question of Palestine کے مشہور مصنف میتھیو ابراہام نے فِنکل اسٹین کی میعاد ملازمت میں توسیع سے انکار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''گزشتہ پچاس سال میں یہ واقعہ علمی آزادی کی خلاف ورزیوں کے سب سے سنگین کیسوں میں شمار کیا جائے گا۔''

23 مئی 2008 کو فِنکل اسٹین کو بن گوریان ایئرپورٹ پر 24 گھنٹے تک نظربند رکھا گیا۔ اسے اسرائیل میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ اس پر الزام تھا کہ ''وہ لبنان کے اسرائیل دشمن عناصر سے روابط رکھتا ہے۔'' اس سے پہلے فِنکل اسٹین 2006 میں جنگ کے دوران جنوبی لبنان کا دورہ کرچکا تھا، جہاں وہ لبنانی خاندانوں کا مہمان تھا۔

فِنکل اسٹین نے بعد میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ میں نے ایئرپورٹ پر اسرائیلی افسروں کے تمام سوالات کا جواب جامع انداز میں دیا، لیکن انھوں نے مجھ سے ایسا برتاؤ کیا جیسے میں خودکش بمبار تھا، اور مجھے کسی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ فِنکل اسٹین اسرائیل نہیں بلکہ محض مغربی کنارے کے علاقے میں جانا چاہتا تھا۔

فِنکل اسٹین کا اصل ''جرم'' صرف یہ ہے کہ اس نے اپنی کتابوں میں صہیونیت نواز مغربی مصنفین کی دروغ بیانی کا پردہ اس طرح چاک کیا ہے کہ وہ بالکل عریاں ہوگئے ہیں۔ نام ور دانش ور اور سیاسی مفکر راؤل ہل برگ نے لکھا، ''فِنکل اسٹین نے ایسے عالم میں سچ بولنے کا حوصلہ کیا، جب اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ نویسی کی پوری تاریخ میں اس نے ایک اہم مقام حاصل کرلیا ہے، اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو آخر کار فاتح تسلیم کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔'' اس کی کتاب "Beyond Chutzpah" پر تبصرہ کرتے ہوئے مشہور یہودی عالم ایوی شلیم نے لکھا، ''فِنکل اسٹین نے عرب، اسرائیل تنازعے کے بارے میں دوغلی اور جعلی امریکی یہودی علمی دنیا کو مستقل مزاجی سے، سلسلہ وار بے نقاب کرنے کا انتہائی پُراثر ریکارڈ بنایا ہے۔ وہ دانش ورانہ دیانت اور بڑی باریک بینی کے ساتھ اپنا بیان پیش کرتا ہے۔''

امریکن ریڈیکل: دی ٹرائلز آف نارمن فِنکل اسٹین ایک ایوارڈ یافتہ فلم ہے، جس میں فِنکل اسٹین کی زندگی اور علمی کیریئر کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ فلم 2009 میں ریلیز کی گئی اور دنیا بھر میں چالیس سے زیادہ مقامات پر اس کی نمائش کی جاچکی ہے۔

اسی سال فنکل اسٹین ایوارڈ یافتہ اسرائیلی فلم ساز یووشمیر کی دستاویزی فلم میں دکھائی دیا، جس میں سامیت دشمنی کا اور خاص طور پر اسرائیل اور امریکا کی سیاست میں سامیت دشمنی کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس فلم نے 2009 میں ایشیا پیسیفک اسکرین ایوارڈز میں بہترین ڈاکیومینٹری فیچر فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ اس فلم میں فِنکل اسٹین نے بڑی جرأت مندی کے ساتھ اس موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔

درشووٹز جس کے ساتھ فِنکل اسٹین کی معرکہ آرائی برسوں تک مغربی دنیا کی فضا میں گونجتی رہی، ایک دل چسپ الزام عائد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، دراصل چومسکی ہدف کا انتخاب کرتا ہے اور فِنکل اسٹین کو ہدایت کرتا ہے کہ (ہدف کی) متعلقہ تحریروں کا تفصیل سے مطالعہ کرے، اور یہ نتیجہ برآمد کرے کہ کتاب پر جس مصنف کا نام لکھا ہے، وہ اس نے نہیں لکھی، یہ سرقہ شدہ تحریر اور فراڈ ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ فِنکل اسٹین دس ممتاز یہودی اسکالرز کو جعل ساز اور چور قرار دے چکا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب الزامات لگا چکا ہے۔ فِنکل اسٹین اس قسم کے تبصروں پر ہنس کر کہتا ہے، ''اصل مسئلہ اسرائیل کا انسانی حقوق کا ریکارڈ ہے!''

بلاشبہہ، یہی فِنکل اسٹین کا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس ضمن میں اس کے ایک حامی اسرائیلی تاریخ نویس ایوی شلیم نے بڑا جامع تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے، ''اسرائیل پر فِنکل اسٹین کی تنقید بے پناہ ریسرچ پر مبنی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ہر چیز پڑھ رکھی ہے۔

اس نے اسرائیلی گروپوں، ہیومن رائٹس گروپوں، ہیومن رائٹس واچ، پیس ناؤ (Peace Now) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تمام رپورٹیں پڑھ رکھی ہیں اور وہ اسرائیل کے عملی اقدامات کی روشنی میں سب چیزوں کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلسطینیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، ان کے مکانات مسمار کرنا، فلسطینی جنگجوؤں کی ٹارگٹ کلنگ کرنا، درخت کاٹنا، دیوار تعمیر کرنا، مغربی کنارے پر فلسطینیوں پر پابندیاں عائد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میری نظر میں اس کی ریسرچ بڑی جامع ہے اور اس کی تنقید خاطر خواہ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ درست اور بے عیب ہے۔''



''اسرائیل پاگل ریاست ہے''ایک اخباری انٹرویو
فِنکل اسٹین نے کہا، ''میرے خیال میں، جیسا کہ متعدد مبصرین بھی نشان دہی کر چکے ہیں، اسرائیل ایک پاگل ریاست بنتا جا رہا ہے، اور ہمیں دیانت داری کے ساتھ یہ تسلیم کرنا چاہیے۔ باقی ساری دنیا امن چاہتی ہے، یورپ امن چاہتا ہے، امریکا امن چاہتا ہے، لیکن یہ ریاست جنگ، جنگ اور جنگ چاہتی ہے۔

قتل عام (غزہ میں) کے پہلے ہفتے کے دوران اسرائیلی پریس میں خبریں آئی تھیں کہ اسرائیل اپنی تمام بری فوج غزہ میں متعین نہیں کرنا چاہتا، کیوں کہ وہ ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان دنوں یہ خبر بھی گردش کر رہی تھی کہ اسرائیل لبنان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ وہ ایک پاگل ریاست ہے!!''

شیطانی ریاست
''ایک عرصہ گزر گیا کہ میرا اسرائیل کی ریاست سے کوئی جذباتی ربط نہیں رہا، جو مسلسل وحشیانہ اور غیرانسانی انداز میں ان خوں آشام جنگوں کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ایک غارت گر ریاست ہے۔ ایک روسی مصنف نے ایک بار غارت گر ریاست کو ایسے چنگیز خاں سے تشبیہہ دی تھی، جس کے پاس ٹیلی گراف ہو۔

اسرائیل ایسا چنگیز خاں ہے جس کے پاس کمپیوٹر ہے۔ میں اس ریاست سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں رکھتا۔ ہاں، میرے کچھ اچھے دوست وہاں ضرور ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ انھیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ریاست ''جہنم کے آلاؤ سے برآمد ہوئی ہے، ایک شیطانی ریاست ہے!''



مشہور کتابیں
(1) The Holocaust Industry
(2) Beyond Chutzpah
(3) This Time we went too far

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |