مجھے انصاف چاہیے

مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے مگر میں خود کشی نہیں کروں گا، مجھے معاشرے میں اپنا مقام چاہیے،مجھے انصاف چاہیے۔


قیصر اعوان August 22, 2015
اپنی معصوم شرارتوں سے سارے گھر میں شور مچانے والا اب ہر وقت کسی سوچ میں ڈوبا رہتا تھا۔ فوٹو :فائل

رات کے دس بج چکے تھے، 11 سالہ جنید جو ہمیشہ اسکول سے سیدھا گھر واپس آتا تھا، ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا۔ 4 بہنوں کا اکلوتا بھائی اور وہ بھی گھر میں سب سے چھوٹا، گھر والوں پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ جنید کی بہنیں دوپہر سے جائے نماز بچھائے بیٹھی تھیں، ''یا اللہ! میرا بیٹا'' جنید کی ماں کی سسکیاں کلیجہ چیر رہی تھیں۔

عزیز، رشتے دار، دوست، سب سے پوچھ لیا مگرکوئی بھی کچھ نہیں جانتا تھا۔ سارے کا سارا محلہ ہی جنید کو ڈھونڈھنے میں مصروف تھا، مسجدوں میں اعلانات کروائے جارہے تھے، کچھ لوگ تو قریب قریب کے اسپتالوں میں بھی جا کردیکھ آئے تھے مگر جنید کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ پولیس کو ابھی تک صرف اس ڈر سے اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ خدانخواستہ اگر یہ اغواء برائے تاوان کا کیس ہوا تو معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے۔ ''میرا جنید مل تو جائے گا ناں؟ '' جنید کے ابّو ہر آنے جانے والے سے بے بسی سے پوچھ رہے تھے، مگر کسی کے پاس بھی تسلّی کے چند گِنے چُنے الفاظ کے سوا بتانے کو کچھ نہیں تھا، کوئی بتاتا بھی تو بھلا کیا بتاتا، شہر کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے، جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں روز کا معمول بن چکی تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا، ویسے ویسے سب کے خدشات بھی بڑھتے جارہے تھے۔

اور پھر اچانک ایک جانب سے ''جنید مِل گیا! جنید مِل گیا'' کا شور بلند ہوا، اور سب اُس جانب دوڑ پڑے۔ جنید نیم مردہ حالت میں سڑک کنارے پڑا تھا۔ وہ اتنی دیر سے کہاں غائب تھا، پینٹ پر لگا خون اپنے آپ بتارہا تھا۔ سفّاک درندے 11 سال کے معصوم جنید کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اُس کے گھر کے قریب ہی پھینک گئے تھے۔ جنید کی یہ حالت دیکھ کر چھوٹے بڑے سب کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے اُسے جلدی سے اُٹھایا اور اسپتال منتقل کردیا۔ ''بچنے کی اُمید بہت کم ہے'' کسی کی آواز جنید کے ابّو کے کانوں سے ٹکرائی مگر اُنہیں تو شاید کچھ سُنائی ہی نہیں دے رہا تھا، معصوم بیٹے کی اس حالت نے انہیں ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔

''ارے ظالموں! تمھیں اس ننھے فرشتے پر ذرا سا بھی ترس نہ آیا'' جنید کی ماں کی درد ناک چیخوں سے پورا اسپتال گونج رہا تھا۔ ''میرے اللہ! جنہوں نے میرے بیٹے کو اس حال تک پہنچایا، اُنہیں بھی اولاد کا دُکھ دے، یا اللہ! اُن درندوں کو اولاد کی طرف سے کبھی کوئی سُکھ نصیب نہ ہو''۔ وہ جھولی پھیلائے بد دعائیں دے رہی تھی۔ ہسپتال کا عملہ ہر تھوڑی دیر بعد آکر خاموش رہنے کی تلقین کر رہا تھا مگر کوئی اُس دکھیاری ماں کو کیسے خاموش کرا سکتا تھا جس کے آنگن کا پھول بن کِھلے ہی مُرجھانے کو تھا۔ جنید کی بہنیں جو کچھ دیر پہلے تک اُس کے گھر واپس آجانے کے لیے دُعائیں مانگ رہی تھیں اب اُس کی سلامتی کے لیے اللہ کے حضور سجدہ ریز تھیں۔ اللہ کی پاک ذات بڑی غفورالرّحیم ہے، اور دل سے نکلی دُعا تو وہ قریب ہوکر سنتا ہے، جنید کی حالت اب خطرے سے باہر تھی۔

جنید کچھ دنوں بعد صحتیاب ہوکر گھر واپس آگیا، اُس نے جس درندے کو اس سب کا ذمہ دار ٹھہرایا اُس کا شمار علاقے کے شرفاء میں ہوتا تھا۔ جنید کے گھر والے جانتے تھے کہ اُن کی بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا، لہذا مزید رسوائی سے بچنے کے لیے اُنہوں نے خاموش رہنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔ جس گھر میں جوان بیٹیاں ہوں اور باپ ایک پرائیویٹ ادارے میں معمولی کلرک ہو، وہ خاموش رہنے کے سوا بھلا کر بھی کیا سکتے تھے۔ جنید اس واقعے کے بعد بالکل بدل گیا تھا، ہمیشہ ہنستے مسکراتے نظر آنے والے جنید کے چہرے پر اب ہر وقت موت کا سا سناٹا رہتا تھا۔ اپنی معصوم شرارتوں سے سارے گھر میں شور مچانے والا اب ہر وقت کسی سوچ میں ڈوبا رہتا تھا۔ اب وہ گھر سے بھی بہت کم باہر نکلتا تھا، آج بھی جنید بہت دنوں بعد اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔
''اور بھئی جنید! کب ریلیز ہو رہی ہے تمھاری نئی وڈیو، جب آئے تو ہمیں ضرور یاد رکھنا''

محلے کے ایک لڑکے نے پیچھے سے آواز لگائی جو عمر میں جنید سے کافی بڑا تھا۔ ''ہمیں بھی بلیو ٹوتھ کردینا، ہم بھی آخر تمھارے محلے دار ہیں، کچھ اور لڑکے بھی اس گھٹیا مذاق میں شامل ہوگئے تھے اور جنید کا دل چاہ رہا تھا کہ اُن سب کا منہ نوچ لے مگر وہ کچھ نہیں کرسکا اور چپ چاپ لرزتے قدموں کے ساتھ اسکول کی طرف چل پڑا۔

''آج پھر اکیلے اسکول آگئے ہو، واپسی پر پھر کہیں جانے کا پروگرام تو نہیں؟'' یہ فقرہ اسکول کے چوکیدار نے کسا تھا، جسے کبھی ماموں جی، ماموں جی کہتے جنید کی زبان نہیں تھکتی تھی۔ اسکول میں بھی آج اُسے سب کچھ عجیب عجیب سالگ رہا تھا۔ وہ جنید جو چند دن پہلے تک اپنی ذہانت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے سب کی آنکھ کا تارا تھا۔ آج اُسے ٹیچر، کلاس فیلو، دوست، سب نظر انداز کر رہے تھے۔ وہ جو پہلے ہی اذیت سے گزر رہا رہا تھا ، لوگوں کے اس رویے نے اُسے مزید توڑ کر رکھ دیا تھا۔ درندوں نے اُس معصوم کے جسم کو ایک مرتبہ اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا، معاشرہ اُس کی روح کو بار بار تضحیک کا نشانہ بنا رہا تھا۔ وہ جب بھی گھر سے باہر نکلتا اُس پر طرح طرح کے فقرے کسے جاتے، اُس کے ساتھ ہونے والی زیادتی لوگوں کے لیے تفریح کا سامان بن گئی تھی۔

کچھ دن بعد اسکول کے پرنسپل نے بھی جنید کے گھر فون کرکے کہہ دیا کہ جنید کے اسکول واپس آجانے سے اسکول کا ماحول کافی خراب ہوگیا ہے، بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو اسکول سے ہٹا لینے کی دھمکی بھی دی ہے، لہذا ہم جنید کا نام اپنے اسکول سے خارج کر رہے ہیں۔ گھر والوں کے لیے یہ اطلاع تکلیف دہ تھی مگر جنید پر تو یہ خبر بجلی بن کر گری تھی، اُسے اپنے ہی اسکول سے اس قسم کے سلوک کی توقع ہر گز نہیں تھی۔

میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، کیا اُس کا قصور وار میں خود ہوں؟ آج جب جنید کا ضبط جواب دے گیا تو اُس نے روتے ہوئے اپنی ماں سے پوچھ لیا۔ نہیں، میری جان، ماں نے آگے بڑھ کر اُسے سینے سے لگا لیا، بیٹے کی بات سُن کر اُس کا پہلے سے ٹوٹا ہوا دل اب کرچی کرچی ہو گیا تھا، درد کا ایک گولا سا اُس کے حلق میں اٹکا ہوا تھا۔ سب ٹھیک ہوجائے گا میری جان، سب ٹھیک ہوجائے گا، بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے وہ خود بھی زارو قطار رو پڑی تھی۔

کرم گوٹھ کے ایک 13 سالہ لڑکے نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے بعد خود کشی کرلی، ورثاء کا پولیس اسٹیشن کے سامنے میت رکھ کر احتجاج، ٹی وی پر خبر چل رہی تھی، جنید کے ابو نے جلدی سے چینل تبدیل کردیا۔ ''یہ جھوٹ بول رہے ہیں، اس بیچارے نے خودکشی درندگی کا نشانہ بنائے جانے پر نہیں بلکہ معاشرے کی جانب سے تضحیک کا نشانہ بنائے جانے پر کی ہوگی، جنید دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ اگلے دن جنید پھر گھر سے غائب تھا، مگر اس مرتبہ صرف گھر والے پریشان تھے۔ محلے والوں کے لیے یہ کوئی بڑی خبر نہیں تھی۔ محلے کی مسجد کے امام صاحب نے بھی حکومت کی جانب سے سختی کا بہانہ بنا کرجنید کی گمشدگی کا اعلان کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اور پھر کچھ دیر بعد محلے کے ایک بچے نے آ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، انکل! جلدی سے ٹی وی آن کریں، جنید ٹی وی پر آرہا ہے۔ اُس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ ''یا اللہ خیر۔۔۔ کہیں میرے جنید نے بھی تو۔۔۔'' اگلے الفاظ ادا کرنے کی ایک باپ میں ہمت نہیں تھی۔ یہ بچہ جس کا نام جنید بتایا جا رہا ہے آج صبح سے پریس کلب کے سامنے کھڑا ہے، اس نے اپنے ہاتھوں میں ایک پلے کارڈ اُٹھا رکھا ہے جس پر درج ہے کہ،
''مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے مگر میں خود کشی نہیں کروں گا، مجھے معاشرے میں اپنا مقام چاہیے، مجھے انصاف چاہیے''

آپ کو ایک بار پھر بتاتے چلیں کہ وزیرِ اعلیٰ نے اس خبر پر نوٹس لے لیا ہے اور متعلقہ پولیس کو ہدایت کی ہے کہ تحقیقات مکمل کرکے انہیں 24 گھنٹے کے اندر اندر رپورٹ دی جائے اور اس بچے کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہاں آپ کو ایک اور بریکنگ نیوز دیتے چلیں کے پولیس نے اُس سفاک شخص کو گرفتار کرلیا ہے جس پر اس بچے نے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا اور پولیس کے مطابق اُس نے اپنا جرم بھی تسلیم کرلیا ہے۔ آپ کو پھر بتاتے چلیں کہ، ہر چینل پر یہی خبر چل رہی تھی، ہر کوئی جنید کی ہمت کو سراہ رہا تھا، اُسے ایک ہیرو کی طرح پیش کیا جارہا تھا جس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموش رہنے کے بجائے آواز اُٹھانے کی جراٗت کی تھی۔ آپ کل سے جنید کو اسکول بھیج دیں، ہم اپنی غلطی پر شرمندہ ہیں، ہمیں فخر ہے کہ جنید جیسا بہادر بچہ ہمارے اسکول کا طالبعلم ہے۔ جنید کے اسکول کے پرنسپل فون پر جنید کے ابّو سے مخاطب تھے۔ محلے کے لوگ بھی آہستہ آہستہ گھر میں جمع ہو رہے تھے۔

[poll id="619"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں