کوئٹہ میں جشن آزادی مشاعرہ
کل مہمان شاعر 19 تھے اور سب کے قیام کا انتظام ایک ہی ہوٹل میں کیا گیا تھا۔
KARACHI:
لاہور سے کوئٹہ جانے والوں میں چار سواریاں لوکل اور دو مہمان تھیں یعنی زاہد فخری، بشریٰ اعجاز، خالد شریف اور میں لوکلز اور ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اور ان کے میاں فرید صاحب ڈی جی خان سے آئے تھے۔
کل مہمان شاعر 19 تھے اور سب کے قیام کا انتظام ایک ہی ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ اس مشاعرے کی ایک خاص بات اس کی مجلس صدارت تھی جو اپنی جگہ پر ایک انوکھا تجربہ تھا کہ ایک وقت میں کئی کئی مہمانان خصوصی اور مہمانان اعزاز وغیرہ تو سنے اور دیکھے تھے لیکن ایک نیام میں ہی دو تلواروں کی طرح کسی مشاعرے کے دو صدر نظر سے نہیں گزرے تھے جب کہ یہاں تو تین تین (یعنی پیرزادہ قاسم، انور شعور اور میں) بیک وقت یہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔
یہ اور بات ہے کہ اسٹیج پر یہ ذمے داری صرف انور شعور نے ہی نبھائی جب کہ میں نے اور پیرزادہ قاسم نے اگلی لائن کے صوفوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ منتظمین نے ہماری بار بار کی تاکید کے باوجود اسٹیج پر کرسیوں کے بجائے روایتی فرشی نشست کا انتظام کررکھا تھا۔ عزیزی نوید حیدر ہاشمی کے بقول یہ فیصلہ مشاعرے کے پنڈال کی ذمے دار اس انتظامی کمیٹی کا تھا جس کے بیشتر ممبران فوجی افسران تھے اور سب کے سب باجماعت اس بات پر مصر تھے کہ مشاعرہ اور گاؤتکیے لازم و ملزوم ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ اب یہ لازم و ملزوم نہیں بلکہ ظالم و مظلوم ہیں کہ فی زمانہ کئی کئی گھنٹوں تک آلتی پالتی مار کر یا دو زانو ہوکر بیٹھنا ممکن نہیں رہا کہ اگلے لوگوں کی طرح ہماری نسلوں کو نہ اب اس کی عادت ہے نہ پریکٹس اور نہ تاب کہ بڑھتی ہوئی عمر کا سب سے پہلا اثر عموماً گھٹنوں پر ہی پڑتا ہے۔
یوں بھی اب گھروں میں چوکیوں، پیڑھیوں اور تخت پوشوں وغیرہ کی جگہ کرسیوں اور صوفوں نے لے لی ہے اس لیے اب ٹانگوں میں وہ لچک بہت کم رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے سینئرز اس امتحان کو پاس کرلیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب سید ضمیر جعفری، طفیل ہوشیار پوری، منیر نیازی اور کچھ اور سینئر شاعروں کو موٹاپے، آرتھرائٹس اور شوگر وغیرہ کی وجہ سے مشاعروں میں نیم دراز ہوکر بار بار پہلو بدلتے ہوئے دیکھنے کے بعد میں نے 1990ء کے پہلے جشن بہار مشاعرے میں اسٹیج پر شاعروں کے لیے کرسیاں لگوائی تھیں تو بہت سے لوگوں نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا تھا کہ یہ روایت شکنی ہے۔
ایک بزرگ کچھ زیادہ ہی مضطرب ہو رہے تھے اور بار بار مشاعرے کی روایت کے تقدس کی پامالی کا ذکر فرما رہے تھے لیکن جب ان کو یاد دلایا گیا کہ روایت کے حساب سے تو انھیں بھی بطور سامع زمین پر بیٹھنا چاہیے تھا جب کہ وہ خود مزے سے کرسی پر بیٹھے ہیں اور ان کا ضمیر بھی ان کے اس عمل پر خاموش ہے تو تب جاکر ان کی کچھ تسلی ہوئی البتہ خاموش اور نیم قائل وہ علامہ کے اس شعر سے ہوئے کہ؎
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
جنگلی گھاس کی طرح اگنے والے نت نئے ٹی وی چینلز میں سے بیشتر کو تو مشاعرے کے نام سے ہی چڑ ہے جن کو تھوڑی بہت توفیق ہوتی ہے وہ بھی عام طور پر اسی طرح کی روایت پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ البتہ پی ٹی وی قومی دنوں اور مذہبی تہواروں کے حوالے سے ابھی تک برے بھلے مشاعرے ٹیلی کاسٹ کرتا رہتا ہے اور اب کچھ عرصے سے اس نے کبھی کبھار فرشی نشت سے روگردانی کا حوصلہ بھی کیا ہے۔
مگر عمومی طور پر ابھی تک مشاعرہ کلچر انیسویں صدی سے باہر نہیں نکلا۔ اب واپس ہوٹل کی لابی میں آتے ہیں جہاں دیگر شہروں سے آئے ہوئے کچھ اور مہمان شاعر قیصر وجدی، انجم خلیق، فاخرہ بتول، راشدہ ماہین ملک، ندیم بھابھہ، ظہور الاسلام جاوید، فرحین ملک، انعام الحق جاوید مختلف ٹولیوں میں بٹ کر بیٹھے تھے۔
ایک کونے میں صحافی، سیاسی کارکن اور دوست راحت ملک بھی احباب کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ آج شام چار بجے ہوٹل کے عقبی لان میں میر غوث بخش بزنجو کی 26 ویں برسی کی تقریب ہورہی ہے اور مجھے دعوت دی کہ میں کچھ وقت کے لیے ہی سہی اس میں ضرور شرکت کروں۔ میں نے فوراً حامی بھر لی کیونکہ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں جن چند شخصیات نے واقعی روشن مثالیں قائم کی ہیں میں بزنجو صاحب کو ان میں شمار کرتا ہوں۔
وہ ایک مخلص، ان تھک، کمٹڈ اور مستحکم نظریے کے حامل سیاستدان تھے اور ان کی ساری زندگی اپنی روایات اور اقدار کی پاسبانی اور پاکستان سے محبت اور اس کی سالمیت کے تحفظ سے عبارت ہے۔ بزنجو صاحب ایک امن دوست اور دلوں کو جوڑنے والے انسان تھے اور ہر مسئلے کا حل لڑائی جھگڑے کے بجائے گفتگو اور افہام و تفہیم سے نکالنے کے قائل تھے جس کی وجہ سے ان کے سیاسی مخالفین طنزیہ طور پر انھیں ''بابائے مذاکرات'' بھی کہا کرتے تھے۔
ان میں اس طرح کا گلیمر اور خبریت بھی نہیں تھی جو خان آف قلات سے لے کر خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل اور سردار اکبر بگٹی وغیرہ میں تھی۔ وہاں ایک وسیع پنڈال میں سیکڑوں لوگ جمع تھے۔
راحت ملک اسٹیج سیکریٹری تھے۔ انھوں نے بڑی محبت بھری زبردستی سے مجھے اسٹیج پر اپنے ساتھ بٹھالیا۔ اسی وقت مقامی صحافی اور بزنجو صاحب کے سیاسی ساتھی بیدار صاحب تقریر کررہے تھے۔ ان کے بعد آغا گل، سرور جاوید، منیر احمد بادینی، ایوب بلوچ اور صدرمجلس طاہر بزنجو صاحب کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر اور براہوی کے ایک نامور شاعر نے بھی خطاب کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس وقت سامعین میں بلوچستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نمایندے اور بہت سے ایم این اے اور ایم پی اے بیٹھے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر مجھے علامہ صاحب کا وہ شعر بے طرح یاد آیا کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی