قصور کا رونا قصور کس کا
ہم نے اپنے بچوں کے لیے ایک خوفزدہ کر دینے والا معاشرہ صدیوں سے تخلیق کر رکھا ہے
اس علّت، مرض، وبا یا بدترین اخلاقی برائی کو پھیلانے، پرچار کرنے اور اسے ادبی لطافت سے مزین کرنے والے تو صدیوں سے ہمارے سیکولر دانشوروں، نقادوں، ادیبوں اور شاعروں کے ہیرو رہے ہیں اور آج بھی وہ ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ میر تقی میرؔ سے لے کر فراقؔ گھورکھپوری تک سب کے ادبی محاسن اور لونڈوں سے محبت کے انداز کو جس خوبصورتی کے ساتھ نقادوں نے سراہا اور جس طرح انھیں معاشرے میں عزت و تکریم کے مقام پر فائز کیا، اس سے ہماری پستی اور زوال کی تصویر نمایاں ہوتی ہے۔
الطاف حسین حالی نے جب مسدس لکھی تو انھی شعرا ء کے بارے میں کہا تھا "جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے" ۔ گزشتہ تین سو سال کی ادبی تاریخ میں اگر کوئی اقبال کو ان تمام شعراء سے مختلف تصور کرتے ہوئے اس کی شاعری کی عظمت پر گفتگو کرنے لگے تو ان دانشوروں کے ماتھے پر ناگواری کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، قصور میں معصوم بچوں کے دلخراش واقعہ کے ساتھ چشمِ زدن میں آنکھوں کے سامنے اس معاشرے کی وہ کریہہ تصویر گھوم گئی جسے مذہب سے بیگانہ اور بے راہ روی اور بداخلاقی کو فن کا درجہ دینے والے ان معاشرتی ٹھیکیداروں نے تخلیق کیا ہے۔ کیا حیرت انگیز دعویٰ ہے استاذ الشعراء میر تقی میرؔ کا۔
ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا ہم نے کہے
رفتہ رفتہ ہندوستان سے شعر مرا ایران گیا
ادب کے اس عظیم سپوت نے چھ دیوانوں میں 13,590 اشعار تحریر کیے جن میں 86 فیصد شعروں میں معشوق کی جنس مرد ہے، لونڈا، طفل یا نونہال۔ یہ اشعار فحش گوئی اور امرد پرستی کے نمونے ہیں۔ نمونے بھی ایسے کہ انھیں نقل کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ لڑکے یا لونڈے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔ چہرے پر ہلکے ہلکے روئیں آنے کو خط آنا کہتے ہیں۔ اس کو بھی ان شاعرانِ عظیم نے سو طرح کے مضمون سے باندھا ہے۔
وہ جو عالم اس کے اوپر تھا وہ خط نے کھو دیا
مبتلا ہے اِس بلا میں میرؔ اک عالم ہنوز
اور اب اسیرؔ اسی خط کے آنے کو ایک اور طریقے سے بیان کرتا ہے
خط نمودار ہوا، وصل کی راتیں آئیں
جن کا اندیشہ تھا منہ پر وہی باتیں آئیں
یوں تو یہ وبا برصغیر پاک و ہند میں ایران سے آئی، بلکہ نقاد جنہوں نے عربی ادب کا مطالعہ کیا، وہ بھی کہتے ہیں کہ ایران ہی سے لونڈوں سے عشق کے مضامین عرب شاعری میں داخل ہوئے۔ حافظ کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے
اگر آں ترکِ شیرازی، بدست آرد دلِ مارا
بخالِ ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را
(اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کی گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں)۔ یوں لگتا ہے شاعری میں لطف و کمال اور ذوقِ جمال اسی ایک شوق کے گرد گھومتا تھا۔ ان شعراء کی ذاتی زندگی کے قصوں میں بھی اس شوق کی جھلک نظر آتی ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی نے کس فخر کے ساتھ لڑکوں سے اپنے معاشقوں کا ذکر کیا۔ ان شعراء کی محفل میں ایک نوجوان شاعر ساغر نظامی آ نکلا، خوبصورت تھا، کیا کیا قصے اس کے ساتھ مشہور نہیں ہوئے۔ سیماب اکبر آبادی کا یہ مصرعہ تو ادبی تاریخ کے منہ پر غلیظ طمانچہ ہے "ساغر کی تہہ میں قطرۂ سیماب رہ گیا"۔ فراقؔ گھورکھپوری کہ جس کی انھی حرکتوں کی وجہ سے اس کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔ ہوس زدگی کا وہی عالم جو میر تقی میرؔ میں تھا کہ
وے نہیں تو انھوں کا بھائی اور
عشق کرنے کی کیا مناہی ہے
" ہندو لڑکے سے کیا معیشت ہو" سے لے کر " یہ نرم شانہ لڑکے ہیں مخمل دوخابہ ـــ" اور پھر " اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں" جیسے نسبتاً کم فحش مصرعوں کو ہی اگر اردو شاعری میں چھانٹا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد ایک ایسا ماحول آباد تھا اور ہے جو اسقدر بیمار ہے جس میں ہیرو وہ ہے جو اپنے ساتھ ایک لڑکا معشوق لیے پھرتا ہے یا جس نے اپنی مردانگی کے زیرِاثر شہر کے خوبرو لڑکوں کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ وہ ان سے دھونس اور زبردستی سے بھی اپنی ہوس پوری کرتا ہے اور ان کے ناز نخرے اور خرچہ اٹھا کر بھی۔ ایسا کردار سعادت حسن منٹو کے دودا پہلوان میں بھی آ کر اجاگر ہوتا ہے اور وہ اسے کیسے ایک سچے عاشق کے طور پر پیش کرتا ہے۔
کیا قصور ایک انوکھا قصبہ ہے، کیا وہاں جو کچھ ہوا وہ ایک اچنبھے کی بات تھی۔ ہم نے اپنے بچوں کے لیے ایک خوفزدہ کر دینے والا معاشرہ صدیوں سے تخلیق کر رکھا ہے۔ ہمارے شہروں میں بچوں سے فعلِ بد کرنے والے کرداروں کو ہر کوئی جانتا اور پہچانتا ہے۔ بلکہ ہر گلی اور محلّے میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں ایسے استادوں کی بہتات ہے جن کا ہر کلاس میں کوئی نہ کوئی منظورِ نظر لڑکا ضرور ہوتا ہے، جس سے خصوصی التفات کی وجہ کو پوری کلاس پہچانتی ہے۔ گیم ٹیچر یا پی ٹی ماسٹروں کی اکثریت کے بارے میں کہانیاں تو میں گزشتہ پچاس سال سے سنتا چلا آ رہا ہوں۔ اسکولوں میں ہماری اخلاقیات کا تصور بھی انتہائی کریہہ ہے۔ وہ بچہ جو اپنے کلاس فیلوز یا بڑی کلاس کے لڑکوں یا لڑکے کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے اس مردانہ طور پر فاتحانہ حرکت کو جگہ جگہ سناتے پھرتے ہیں اور وہ مظلوم بچہ پوری کلاس یا اسکول کے سامنے ایک قابلِ نفرت کردار بنا دیا جاتا ہے۔
اسکول کی دیواروں یا بلیک بورڈوں پر ایسے بچوں کے بارے میں ان کے اسکول کے لڑکے اس طرح کے فقرے تحریر کرتے ہیں کہ جیسے یہ بچے اب معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ شرمندگی کی بات یہ ہے کہ جن غلیظ کرداروں سے نفرت کرنی چاہیے انھیں میرؔ کے عشاق یا منٹو کے دودا پہلوان کی طرح مردانگی کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے اور مظلوم بچوں کے حصے میں ذلت آتی ہے۔ کیا ہماری بسوں میں سفر کرتے ہوئے، کسی جگہ لائن میں کھڑے ہوئے، رش میں پھنسے ہوئے بچوں کے ساتھ ہم فحش حرکتیں نہیں کرتے۔ ذرا سا قبول صورت لڑکا گلی، محلے، اسکول اور شہر میں ایک خوف کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ محلے کے اوباشوں سے بچ نکلے تو سفر کرتے ہوئے اجنبی اسے چھیڑتے ہیں، سمٹے سمٹائے ہوئے اسکول میں آ نکلے تو ساتھی کلاس فیلوز کا شکار ہو جاتا ہے اور استادوں کے لیے تو وہ تر نوالہ ہے ہی۔ یہ کھیل ہمارے شہروں میں مدتوں سے ہو رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک مرد لڑکا ایک لڑکی کی نسبت زیادہ خطرات کا شکار رہتا ہے کہ اس نے تو روز انھی جگہوں پر جانا ہے، انھی لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے جو اسے ہوس ناک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ خبر عورت سے زیادتی کی بنتی ہے، این جی اوز کو فنڈنگ اسی بنیاد پر ہوتی ہے اور میڈیا کا کاروبار بھی اسی سے چلتا ہے، اس لیے آج تک کسی نے لڑکوں سے اس مکروہ فعل کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھا ہی نہیں کیئے۔ ہم اس قدر بد بخت ہیں کہ کسی شخص کی کردار کشی کرنی ہو تو اس کے بارے میں یہ خبر پھیلا دی جاتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ بچپن میں زیادتی ہوئی تھی۔ مجھے اپنے بچپن میں گجرات میں ایک سیاسی لیڈر کا جلسہ بھی یاد ہے جس میں وہ اپنے مخالف پر یہی الزام لگا رہا تھا اور جلسے میں بیٹھے ہوئے اس شخص کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ بتاؤ تم نے اس لیڈر کے ساتھ زیادتی کی تھی، دیکھو اب یہ اکڑ اکڑ کر میرے مخالف کھڑا ہوتا ہے۔
جیسے ہی ہمیں مغرب کے میڈیا اور انسانی حقوق کی ہوا لگی وہاں ہم نے ہم جنس پرستی کو بنیادی انسانی حقوق اور طرزِ زندگی میں شامل کر لیا۔ دنیا پوری میں مرد عورت کا روپ دھارتے ہیں، آپریشن کروا کر ویسے ہی بن جاتے ہیں، لیکن ہم وہ واحد ملک ہیں جہاں ایسا ایک کردار ملک کا مقبول ترین اینکر پرسن بن جاتا ہے۔ ایسا تو مغربی معاشرے میں بھی ممکن نہ ہو سکا۔ اس مکروہ فعل کو معاشرے میں قبولیت کی سند ہی تھی کہ پختون معاشرے میں لختئی اور دیگر معاشروں میں خواجہ سراؤں کا وجود پیدا ہوا۔ خواجہ سراؤں میں اکثریت ایسے لڑکوں کی ہوتی ہے جنھیں ہمارا معاشرہ چھیڑ چھیڑ کر لڑکیوں کی طرح رنگ ڈھنگ سکھا دیتا ہے اور پھر ان خواجہ سراؤں کے خفیہ ڈاکٹر آپریشن کے ذریعے انھیں مردانہ صفات سے محروم کرتے ہیں۔ یہ ایک گھناؤنا کاروبار ہے جو مستقل جاری ہے۔ لیکن ہمیں تو فخر کرنا ہے کہ اللہ کے رسول نے ایسے مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں کا روپ اختیار کریں اور ہم ان کو حقوق دے کر عالمی برادری میں سر بلند ہو گئے ہیں۔
یہ چند اوباش صرف قصور میں نہیں، ہر بستی اور ہر قصبے میں پائے جاتے ہیں۔ سب اپنے اس فعل کی وجہ سے مختلف ناموں خصوصاً بچے باز کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔ یہ وہ سب کام کرتے ہیں جو قصور میں ہوئے لیکن کیا ہم بحثیت ایک قوم ایک معاشرہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے۔ کاش یہ لوگ ایسے معاشرے میں ہوتے جہاں علیؓ ابنِ ابی طالب کا حکم جاری ہوتا کہ ان کو پہاڑ کی بلندی سے گرا دو۔ آج آپ ہم جنس پرستی کے خلاف اسلام کے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کریںتو سب کو انسانی حقوق یاد آ جائیں گے۔ جو انسانی حقوق کی بات نہیں کریں گے وہ میر تقی میرؔ، دردؔ، سوداؔ، رندؔ، اسیرؔ، وزیرؔ اور فراقؔ کے شعر گنگناتے پھریں گے کہ سیکولر اخلاقیات میں ایسے ہی لوگ ہیرو ہوتے ہیں۔