وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
امن انصاف تنظیم اور خوش حالی کی ایک ایسی ہوا چل سکتی ہے جو ہر دل اور ہر منظر کو شاداب اور روشن کر دے گی
میں بے نوا ہوں صاحب عزت بنا مجھے
اے ارض پاک اپنی جبیں پر سجا مجھے
میں موج رشوق خام تھا لیکن ترے طفیل
دریا بھی اپنے سامنے قطرہ لگا مجھے
میں حرف حرف لوح زمانہ پہ درج ہوں
میں کیا ہوں' میرے ہونے کا مطلب سکھا مجھے!
وطن عزیز اپنے قیام کے انہترویں (69) برس میں داخل ہو رہا ہے ان اڑسٹھ برسوں میں کیا کچھ ہوا؟ ہم کدھر کو چلے تھے اور کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کر رہی ہے؟ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیوں بنا؟ یہ ملک جاگیرداروں' جرنیلوں مذہب کے ٹھیکے داروں بیوروکریٹس یا سرمایہ داروں کی شکار گاہ ہے یا عوام کے لیے دارالامان؟ انسانی حقوق آزادی اظہار مساوات' امن معاشی' معاشرتی اور عدالتی انصاف اور ہمہ جہت ترقی کا وہ خواب کب تعبیر پائے گا جس کی راہ تکتے تکتے تین نسلوں کی آنکھیں دھندلا گئی ہیں؟ یہ اور اس طرح کے کئی اور سوالات اس موقعے پر اٹھائے جا سکتے ہیں کہ سال گرہ کسی شخص کی ہو یا ملک کی یہ دن ایک ایسے پل کی طرح بھی ہوتا ہے جسے اگر لمحہ موجود یعنی ''حال'' مان لیا جائے تو اس کے ایک طرف ''ماضی'' ہوتا ہے اور دوسری طرف مستقبل اور یہ تینوں زمانے (جو اصل میں ایک ہی زمانے کے وہ مختلف نام ہیں جو ہم انسانوں نے اپنی سہولت کے لیے وضع کر رکھے ہیں) مل کر ہماری تاریخ کا وہ چہرہ بناتے ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ اپنے جینے مرنے والوں کی اجتماعی پہچان بھی ٹھہرتا ہے یہ بڑی بدقستمی کی بات ہے کہ ہم اور ہمارے بزرگ اس پیارے ملک کو اس طرح سے چلا نہیں پائے جو اس کا حق بنتا تھا اس کی وجوہات پر بحث ہو سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم اس کے وجود' بنیاد' قیام اور ضرورت پر ہی تنقید اور عدم اعتماد کا اظہار کرنا شروع کر دیں یعنی اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کا ملبہ اس خوب صورت خواب پر ڈالنا شروع کر دیں جو آج بھی اتنا ہی روشن اور قیمتی ہے جتنا اپنے ظہور بلکہ نظریے اور تصور کے ہنگامے میں تھا جو کچھ ہوا وہ کیوں اور کیسے ہوا! اس پر تو ہم سال کے 364 دن ٹی وی چینلز' اخبارات اور باہمی گفتگو میں تبصرہ کرتے ہی رہتے ہیں کیوں نہ آج اس دن کے 24 گھنٹوں میں اس کے بارے میں صرف اچھی اچھی باتیں سوچی اور کی جائیں کہ اس بگاڑ میں کہیں کہیں سدھار کے پہلو بھی تو ہیں جیسے صحرا میں نخلستان' جیسے سمندر کی پنہائی میں جزیرے' جیسے راکھ میں شرارے جیسے بادل میں بجلی اور جیسے مٹی پر پڑے ہوئے آبدار موتی۔
قیام پاکستان کے وقت مشترکہ یعنی پورے پاکستان کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ تھی جب کہ تناسب کے اعتبار سے مشرقی پاکستان کو تقریباً 2% کی برتری حاصل تھی یعنی ایک عمومی حساب کے مطابق موجودہ پاکستان کی آبادی ان 68 برسوں میں تقریباً پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ انگریز نے تعلیم' صحت' روز گار' انڈسٹری' مواصلات اور زراعت سے متعلق جو بھی سسٹم چھوڑے تھے ان کا دائرہ عمل چار کروڑ افراد پر محیط تھا لیکن ان کا اسٹینڈرڈ اس وقت بھی ہرگز ان کے اپنے یا دنیا کے دیگر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کے برابر نہیں تھا اس پسماندگی اور بے سروسامانی کے عالم میں جب ہم نے اپنا سفر آغاز کیا تو نہ ہمارے پاس مناسب وسائل تھے اور نہ مستثنیات سے قطع نظر اچھے اور تربیت یافتہ ایڈمنسٹریٹر اس پر فسادات کی تباہ کاری' مہاجرین کی آباد کاری' کشمیر کی جنگ' بابائے قوم کی رہنمائی سے محرومی' امریکا اور روس کی سرد جنگ کے اثرات اور حاکم طبقوں کے باہمی مفادات کی بنیاد پر بننے والے گٹھ جوڑ نے عوامی فلاح کے عمل کو مزید پیچیدہ اور گمبھیر کر دیا اور بظاہر یوں معلوم ہوتا تھا کہ انڈین کانگریس کے ایک دعوے کے مطابق سچ مچ یہ نوزائیدہ ملک اپنی ہمہ جہت ناتوانی کے باعث اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا اور پہلے سے بھی خراب شرطوں پر اس کے قدموں پر آگرے گا۔ ایک لمحے کے لیے ان تمام خرابیوں' سازشوں' ناکامیوں نا اہلیوں وغیرہ وغیرہ کو ایک طرف رکھ دیجیے جو شکلیں بدل بدل کر کبھی کم کبھی زیادہ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں اور صرف یہ دیکھئے کہ ان سب کے باوجود ہم نے کتنے بے شمار شعبوں میں کیا کیا لوگ پیدا کیے ہیں اور کیسے کیسے کارنامے سر انجام دیے ہیں اور پھر حساب لگائیے کہ اگر ہم مندرجہ بالا ان سب بیماریوں میں مبتلا نہ ہوتے تو آج ہماری ترقی اور کامیابیوں کا گراف کہاں ہوتا۔
یہاں ایک بار پھر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان روشنی کے دائروں کی نشاندہی کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں کہ وطن عزیز کی تاریخ کے فیصلوں پر ہرطرف سے ''سب اچھا ہے'' کی آوازیں آ رہی ہیں۔ تاریکی کا وہ منظر نامہ جس کی نمایندگی غربت' جہالت' صحت' سوشل سیکیورٹی' لاقانونیت' سیلابوں کی تباہ کاریاں' مذہبی تشدد پسندی' غیر ملکی قرضے' دہشت گردی' اخلاقی زوال' طالبانیت' سرکاری محکموں کی کرپشن اور نااہلی' اقربا پروری' بلیک منی'جان و مال کو درپیش خطرات اور حاکموں کی کوتاہ اندیشیاں کرتے ہیں اب ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے اور ہم نے وہ سب سبق سیکھ لیے ہیں جنھیں سیکھنا ضروری تھا۔ کیا یہ بات قابل غور اور لائق ستائش نہیں کہ ہماری قوم نے ان مسائل کے ساتھ ساتھ تین جنگوں، تین مارشل لاؤں اور چار دہائیوں سے مسلسل دہشت گردی کی فضا میں رہنے کے باوجود بعض شعبوں میں کیسی حیرت انگیز اور قابل فخر ترقی کی ہے آپ کے انجینئرز' ڈاکٹرز' کھلاڑی' اہل قلم' فن کار' طالب علم' مواصلاتی ذرایع اور ایٹمی صلاحیت دنیا بھر میں سراہے جاتے ہیں اگر اس مٹی کو مناسب توجہ' سرپرستی اور نمایندگی کا کچھ اور نم مل جائے تو اس مٹی کی زرخیزی معجزے پیدا کر سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر صرف دس برس اس ملک کو تسلسل کے ساتھ لائق' باصلاحیت اور باعمل قیادت مل جائے تو آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے امن انصاف تنظیم اور خوش حالی کی ایک ایسی ہوا چل سکتی ہے جو ہر دل اور ہر منظر کو شاداب اور روشن کر دے گی اور ہر لب پہ یہ گیت ہو گا کہ
ہر ایک راہ ستارا فشاں ہے میرے لیے
مرے وطن کی زمیں آسماں ہے میرے لیے