میں دہشت گردی کا بانی ہوں

کیا پاکستان اور انڈیا کے بگڑتے حالات صرف ہماری پرانی دشمنی ہے یا کچھ اور بھی؟


انیس منصوری August 12, 2015
[email protected]

انھیں معلوم تھا کہ بلڈنگ کیسے گرانی ہے۔ اس کارروائی کے لیے وہ لوگ ایک دو دن سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے منصوبہ بنا رہے تھے۔ اُن کے ذہن میں پورا منصوبہ تھا اور سامنے ٹیبل پر ہوٹل کا پورا نقشہ موجود تھا۔ کُل پانچ لوگوں کو اس کارروائی میں حصہ لینا تھا۔ چار لوگوں کو مقامی عربوں کے لباس میں ہوٹل میں داخل ہونا تھا۔ اور ان کے گروپ کے سربراہ کو ایک ویٹر کے حلیے میں کارروائی کرنی تھی۔ منصوبہ بہت بڑا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس طرح وہ حکومت کو مجبور کر دینگے کہ اُن کے سارے مطالبات مان لیے جائیں۔

موجودہ فلسطین اور اسرائیل پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ یہ 1932 کی بات ہے جب یروشلم میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اور جدید ترین عمارت تعمیر ہوئی۔ یہ کنگ ڈیوڈ ہوٹل تھا۔ 6 منزلہ عمارت کو شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔ برطانوی دور میں اس ہوٹل کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے۔

اس خطے میں جہاں اب برطانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا ہے وہاں آج سے ایک صدی قبل یہ علاقہ یہودی شدت پسندوں اور حملہ آوروں کی زد میں تھا۔ چرچل تو اسرائیلی ریاست کا حمایتی تھا لیکن یہاں کی مقامی برطانوی حکومت یہودی کی دہشت گرد اور انتہا پسند جماعت۔ ''ارجون'' سے مدمقابل تھی۔ جن کا ہدف فلسطینی مسلمان اور برطانوی اہلکار تھے۔

اسی دہشت گرد گروپ نے 1944 میں برطانوی وزیر لارڈ موٹین کو قتل کیا تھا۔ جس کے بعد برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔

ان کا ایک سیاسی ونگ بھی تھا جسے ''ہاغناہ'' کہا جاتا تھا۔ تمام بڑی کارروائیوں کے لیے ہاغناہ ہی ارجون کو احکامات جاری کرتی تھی۔ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہاغناہ اور ارجون کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے اس کے لیے 20 ہزار سپاہیوں کی مدد لی گئی اور کہا جاتا ہے کہ اس میں 27 ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ جس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بھی بنے۔

اس آپریشن کا بدلا لینے کے لیے یہ فیصلہ ہوا کہ کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو نشانہ بنایا جائے۔ اسی ہوٹل میں برطانوی فوج کا ہیڈ کوارٹر تھا اور وہیں وہ سارا ڈیٹا موجود تھا جو کہ اس آپریشن سے حاصل کیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر ہاغناہ میں اختلاف موجود تھا کہ اس پر حملہ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اس حملہ کا کوڈ ''چیک'' رکھا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس سارے حملوں کی منصوبہ بندی کے پیچھے ڈیوڈ بن گوریاں کا ہاتھ تھا۔ وہ ہی گوریاں جو کہ اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم بنا۔ اور جس نے پاکستان کے متعلق کہا تھا کہ ''پورا پاکستان یہودیوں اور اسرائیل سے نفرت کرتا ہے۔

عربوں سے یہ محبت کرنے والے پاکستانی اسرائیل کے لیے عربوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اور اسرائیل کی بقا کے لیے پہلا ٹارگٹ پاکستان ہونا چاہیے۔'' گوریاں کے خیالات سب کے سامنے تھے۔ دستاویزات سے یہ ثابت ہے کہ یکم جولائی 1946 کو ہاغناہ کے ہیڈ کوارٹر کے چیف موسہین نے ایک خط یہودیوں کی دہشت گرد جماعت ارجون کے چیف میناحم بیگن کولکھا۔ اور حملے کی اجازت دی۔

میناحم بیگن بھی اس دنیا کی سیاست اور دہشت گردی میں ایک بڑا نام ہے۔ آج کے دن آپ بنیامین نیتن یاہو کو تو جانتے ہونگے جو اس وقت اسرائیل کا وزیر اعظم ہے اور اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی کا سربراہ ہے۔

یہ لیکوڈ پارٹی بھی بیگن نے بنائی تھی اور وہ اسرائیل کے چھٹے وزیر اعظم بھی رہے ہیں۔ یہ بیگن اسرائیل کے ریاست بننے سے پہلے دہشت کی علامت تھے۔ ایک بار جب معروف صحافی رسل وارن نے بیگن سے سوال کیا تھا کہ ''کیا میں آپ کو مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کا بانی کہہ سکتا ہوں۔؟'' تو اس ظالم شخص نے زور دار قہقہہ لگا کر کہا تھا کہ۔ ''نہیں میں صرف مشرق وسطی میں دہشت کا بانی نہیں بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کا بانی ہوں۔''

بات ہو رہی تھی ایک خط کی۔ جیسے ہی یہودیوں کے سیاسی چہرے نے اپنے دہشت گرد ونگ کو تباہی مچانے کا خط لکھا ویسے ہی سارے منصوبے کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ ہو گیا۔ یہ طے کیا گیا کہ تما م لوگ عربوں کے لباس میں داخل ہونگے جب کہ گروپ کا سربراہ ویٹر کا لباس پہن کر جائیگا۔ ہمیں حیرت ہو تی ہے کہ جب ہم سنتے ہیں کہ 100 کلو گرام کا بارودی مواد لے کر گاڑی چل پڑی، لیکن آج سے پورے 70 سال پہلے اس دہشت گرد جماعت نے 500 کلو گرام بارودی مواد کا انتظام کیا۔ اور اسے دودھ کے ڈبوں میں چھپا کر ہوٹل کے بیسمنٹ میں منتقل کیا۔ جہاں پر ایک ہوٹل موجود تھا۔

ہوٹل میں لوگوں کی آمد و رفت کی پوری معلومات ان کے پاس موجو د تھی۔ جس کے مطابق انھیں بیسمنٹ میں موجود ہوٹل کے ستونوں کے ساتھ بم دوپہر 2 بجے سے پہلے رکھنے تھے کیونکہ اس کے بعد یہاں رش بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ صبح ہی داخل ہو گئے اور طے یہ ہوا کہ 22 جولائی کو یہ دھماکے گیارہ بجے کیے جائینگے۔

اس وقت کے تعین کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ انتہا پسند یہودی نمبروں پر بہت یقین رکھتے ہیں جیسے کہ ان کے نشان میں 666 کا بننا اور اسی طرح 22 اور 11 کا مل کر چھ کا نمبر بننا۔ دوسری وجہ جو انھوں نے اپنی کتابوں میں لکھی ہے وہ یہ کہ اسی وقت دوسرے گروپ کو ایک اور جگہ بھی حملہ کرنا تھا۔ لیکن عین موقعہ پر منصوبہ بدل گیا اس لیے پھر دھماکا 12.37 پر کیا گیا۔ دھماکا اتنا خطرناک تھا کہ عمارت کا ایک پورا حصہ زمین بوس ہو گیا۔ دھماکے میں کل 91 افراد ہلاک ہوئے۔ جب کہ دو حملہ آور بھی مارے گئے۔

کسی دہشت گرد گروپ کی طرف سے ہونے والا یہ تاریخ کا سب سے بڑا حملہ تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہیے تو یہ اُس وقت کا سب سے بڑا خود کش حملہ کرنے کی کوشش تھی۔ اس خطے میں اس طرح کے حملوں کی بنیاد ہی یہودی انتہا پسندوں نے رکھی۔ اس کی نوعیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ ایک ہی حملے میں اتنی ساری جانوں کا نقصان پھر 36 سال بعد ہوا تھا۔

جب بیروت میں امریکی افواج کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس پوری کہانی میں جہاں اس خطے میں بڑی دہشت گردی کی کارروائی کا آغاز یہودیوں سے ملتا ہے وہاں یہ بھی اہم ہے کہ ان سب کو تسلیم کرنے والے بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بھی رہے۔ یہاں ایک اہم نقطہ اور بھی ہے۔ اس کارروائی کے بعد ارجون کے دہشت گردوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے 25 منٹ پہلے ہوٹل انتظامیہ کو کہہ دیا تھا کہ بم دھماکا ہونے والا ہے لیکن انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا۔

70 سال پرانے ملبے سے ایک بار پھر دھواں دس سال پہلے نکلا تھا جب بنجمن نیتن یاہو نے اس حملے کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حملہ آوروں کو ہیرو کہا تھا، ایک بار پھر بیان دیا گیا کہ ہمارا مقصد تو بلڈنگ اڑانا تھا لوگوں کو مارنا نہیں اسی لیے ہم نے پیشگی اطلاع دے دی تھی، لیکن برطانوی حکام نے اسے نظر انداز کیا۔ جس پر برطانیہ کی طرف سے یہ بات آئی تھی کہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اور یہ بھی مختلف حلقوں کی طرف سے کہا گیا کہ اسرائیل یہ تو کہہ رہا ہے کہ برطانیہ نے پیشگی اطلاع پر کان نہیں دھرے مگر یہ نہیں کہا جا رہا کہ بم د ھماکہ کرنے والے غلط تھے۔

سوچ کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ اسرائیل کے وجود میں آنے سے پہلے اور بعد میں کوئی بڑا واضح فرق نہیں آیا۔ اس صورتحال میں دیکھیے کہ امریکا اور ایران کے درمیان معاہدہ اسرائیل کو راس آ سکے گا؟ کبھی بھی نہیں۔ تھوڑا سا اشارہ لے لیتے ہیں۔ گوریاں کا بیان تو آپ پاکستان کے متعلق پڑھ چکے۔

اسی طرح کے ایک اور بیان میں گوریاں نے کہا تھا کہ ''پاکستان کے پڑوس میں ہندوستان ہے جہاں کی اکثریت ہندوؤں کی ہے جو ہماری طرح مسلمانوں کو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے ہمیں انھیں بھرپور استعمال کرنا چاہیے''۔ اب آپ کو تو معلوم ہو گا کہ ان کا پیسہ کہاں کہاں ہے۔ اور وہ کس کس طرح استعمال ہوتا ہے۔ تو کیا پاکستان اور انڈیا کے بگڑتے حالات صرف ہماری پرانی دشمنی ہے یا کچھ اور بھی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں