طاقت کی انتہا
کامیابیوں کی ہیٹ ٹرک کرنے والے وزیراعظم کا بھائی سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ تھا۔
لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ انھوں نے چیف جسٹس میاں عبدالرشید کو ظہرانے کی دعوت دی۔ قائد اعظم سے گورنر جنرل کا حلف لینے کا اعزاز رکھنے والی شخصیت نے دعوت کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ حکومت وقت کے سربراہ ہیں، بہت سارے مقدمات ہماری عدالتوں میں ایسے ہیں جن میں آپ فریق ہیں اس طرح تو مجھے آپ کے ہر مخالف کی دعوت میں بھی شریک ہونا چاہیے۔ یہ عدلیہ اور انتظامیہ کا پہلا ٹکراؤ تھا۔ زور دار نہیں لیکن ہلکا پھلکا۔ جو طاقت ور ہوتا ہے وہ حاوی ہوجاتا ہے۔ اخلاقی برتری بھی ایک طاقت ہوتی ہے۔
خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وہ وزیراعظم بن گئے۔ ایک سیاسی کارکن کے لیے یہی عہدہ مناسب تھا۔ غلام محمد گورنر جنرل بن گئے لیکن ڈیڑھ سال بعد پہلا غلط کام کرگئے۔ انھوں نے وزیراعظم ناظم الدین کو برطرف کرکے یہ عہدہ محمد علی بوگرہ کو دے دیا۔ یہ اپریل 1953 کی بات ہے، ڈیڑھ سال مزید گزرا تو وہ دوسرا غلط کام کر گئے۔ انھوں نے اسمبلی ہی طرف کردی۔ یہ لڑائی منتخب نمایندوں اور بیوروکریسی کی تھی کہ افسران ملک کے سربراہ مملکت بن گئے تھے۔ معاملہ عدالت میں گیا تو یہ تین طرفہ لڑائی ہوگی۔ سندھ کی اعلیٰ عدالت نے عوامی نمایندوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین خان کی درخواست کو اس دور کی چیف کورٹ نے منظور کرلیا۔
معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں گیا جسے اس زمانے میں فیڈرل کورٹ کہا جاتا تھا۔ یہاں ہمیں جسٹس منیر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ٹیکنیکل بنیاد پر فیصلے کو بدل دیا۔ توازن سیاست دانوں سے انتظامی افسران کے حق میں ہوگیا۔ غلام محمد نے اسمبلی کیوں توڑی؟ وزیراعظم محمد علی بوگرہ اور ان کے ساتھی ایک کام کرنا چاہتے تھے۔ وہ گورنر جنرل سے اپنی موت کا پروانہ واپس لینا چاہتے تھے۔ انھوں نے قانون بنالیا تھا، اس پر دستخط تو سربراہ مملکت کے ہونے تھے، جو غلام محمد تھے، اسمبلی کے فیصلے پر آخری دستخط نہ ہونے پر وہ قانون، قانون نہ بن سکا یوں فنی بنیاد پر ایک صوبے کی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو اس سے برتر عدالت نے ختم کردیا، طاقت کی لڑائی کا دلچسپ کھیل آگے ہے۔
اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنادیاگیا کہ غلام محمد مفرور ہوچکے تھے۔ چوہدری محمد علی وزیراعظم تھے تو 56 کا آئین بنا۔ گورنر جنرل کو صدر مملکت کا نام دیا گیا جب کہ صوبے کی عدالت کو ہائی کورٹ اور ملک کی عدالت کو سپریم کورٹ کا نام دیا گیا۔ اب انگریزوں سے مکمل آزادی پر مہر لگ گئی تھی۔ اب ہم پاکستانی ملکہ برطانیہ کی رعایا نہ رہے۔
ایوب خان چھ برسوں میں چھ وزیراعظم کا آنا جانا دیکھ رہے تھے۔ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور ملک فیروزخان نون، تریپن، چون، پچپن، چھپن، ستاون اور اٹھاون آگیا۔ کمانڈر ان چیف نے جانا کہ اصل طاقت عوامی ہوتی ہے یا فوجی۔ یہ سول افسران کس گنتی میں طاقت ور ہوگئے ہیں۔ انھوں نے سب کو نکال باہر کیا اور خود حکمران بن گئے۔ دس سالہ جشن منایا جانے لگا۔ اس دوران ایوب خان فیلڈ مارشل بن چکے تھے۔ جنرل موسیٰ کے بعد اب کمانڈر ان چیف یحییٰ خان تھے، ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو ایک اور شخص کے دل میں حکمرانی کا شوق سمایا، ایوب نے جان لیا کہ طاقت کا مرکز کہا ہے ، وہ رخصت ہوگئے۔
یحییٰ خان کی حکومت کو کسی نے عدالت میں ان کے دور اقتدار میں چیلنج نہ کیا گیا، وہ غلام محمد اور اسکندر مرزا سے آگے بڑھنا چاہتے تھے کہ ان کے جسم پر سفید نہیں خاکی وردی تھی۔ طاقت کے کھیل میں مجیب اور بھٹو سامنے آئے۔ یحییٰ بھی اپنا کردار مانگتے تھے لیکن ملکہ برطانیہ کا سا نہیں تین طرفہ لڑائی میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ یحییٰ نظر بند ہوگئے۔
بھٹو اور مجیب یہاں اور وہاں کے وزیراعظم بن گئے۔ وہ دونوں عوامی طاقت کے گھوڑے پر سوار تھے، بہت چھوٹے افسران کے ہاتھوں اور بھٹو بڑے افسران کے ہاتھوں اقتدار اور زندگی سے محروم ہوئے کہ بلٹ کی طاقت بیلٹ کی طاقت پر حاوی آگئی۔ دونوں مقامات پر ضیا نامی فوجی حکمران برسر اقتدار آگئے، یہاں ضیا الحق تو وہاں ضیا الرحمن، طاقت نہ کبھی ایک جگہ رہتی ہے اور نہ کبھی ایک ہاتھ میں۔ وقت اچھے کو پچھاڑدیتا ہے۔
ضیا الحق نے اپنی طاقت میں عوامی نمایندوں کو شریک کرنا چاہا۔ ایک میان میں دو تلواریں کیسے سماسکتی ہیں۔ وردی اور شیروانی کی کشمکش میں طاقت کی جیت ہوئی۔ ضیا الحق نے ایوب کے انجام سے سبق سیکھا کہ اصل طاقت آرمی کی سربراہی میں ہے۔ انھوں نے جیتے جی اس طاقت کو نہ چھوڑا۔ طاقت کے دوسرے مراکز کو ''حادثہ بہاولپور'' کے علاوہ کوئی راہ دکھائی نہ دی، یوں دس سال سے جدوجہد کرتی خاتون کو سرنگ کے کنارے سے روشنی کی کرن دکھائی دی۔
بے نظیر وزیراعظم بن کر طاقت حاصل کرنا چاہتی تھیں لیکن طاقت کے مراکز نے نواز شریف کو سامنے رکھا ہوا تھا۔ دس سال تک دو دو باریاں لینے والے ایک ہونے سے پہلے نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن کر سامنے آگئے۔
نواز شریف کے سامنے چیف جسٹس سجاد علی شاہ، صدر مملکت فاروق لغاری اور آرمی چیف جہانگیر کرامت آئے۔ کامیابیوں کی ہیٹ ٹرک کرنے والے وزیراعظم کا بھائی سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ تھا۔ یہ طاقت کی انتہا تھی۔ عوامی طاقت کی انتہا۔ ایسا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کبھی کسی کو نہیں سمجھنا چاہیے۔ نہ شخص کو نہ ادارے کو اور نہ خاندان کو۔
پرویز مشرف کے کارگل پر نواز شریف سے اختلاف کے سبب 12 اکتوبر 1999 آگئی۔ طاقت کی انتہا کمزوری کی پاتال تک پہنچ گئی۔ تمام اداروں پر قابو پانے کی کوشش میں مشرف چیف جسٹس سے استعفیٰ کی غلطی کر بیٹھے۔ ڈیڑھ سال تک وکلا کی جد وجہد کے بعد خود فوج کی کمانڈ اور صدارت سے استعفیٰ دے کر رخصت ہوئے۔
آصف زرداری سمجھ دار ثابت ہوئے۔ انھوں نے طاقت کا منبع بننے کی کوشش نہ کی۔ دھیمے دھیمے سروں میں حکومت کی۔ مدت پوری کی اور دوسری ٹرم کی کوشش نہ کی۔ ایوب، بھٹو، یحییٰ، ضیا، غلام اسحاق اور پرویز مشرف جیسے حکمران دوسری ٹرم کی کوشش میں ناکام ہوچکے تھے۔ نواز شریف نے بھی سبق سیکھا اور خیبر پختونخوا عمران خان کو، سندھ پیپلزپارٹی کو اور بلوچستان قوم پرستوں کے حوالے کردیا۔
طاقت کا بکھرا ہونا ہی اصل طاقت ہے۔ اکیسویں ترمیم پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے اراکین اسمبلی اپنے آپ کو سپریم کورٹ سمجھنے لگے ہیں۔ نہ شخص اور نہ کوئی ادارہ طاقت کی انتہا بن سکتا ہے کیا پارلیمنٹ چاہے تو پاکستان کے صوبے ختم کرسکتی ہے؟ کیا اسمبلیاں چاہیں تو صدارتی نظام نافذ کرسکتی ہے؟ کیا منتخب نمایندے ملک میں بادشاہت کا نظام قائم کرسکتے ہیں؟ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دو تہائی اکثریت کیا کسی خاندان کے لوگوں کو ملکہ، شہزادے اور شہزادیاں قرار دے سکتی ہے؟ کیا صدر مملکت کے دستخط کے بعد شاہی فرمان جاری ہوسکتے ہیں؟ یہاں سپریم کورٹ اور عوام خاموش تماشائی تو نہیں بنے رہیںگے؟ کیا پاکستان کی تاریخ ایک بات نہیں بتاتی؟ایک اہم بات کہ شخصیات، اداروں اور خاندانوں تک مار کھائی؟ جب انھوں نے سمجھا کہ وہ ہیں سپریم، جب انھیں غلط فہمی ہوئی کہ وہ ہیں طاقت کی انتہا۔