مجرم کون

کراچی میں امن و امان کی تباہ حالی اور چھین جھپٹ کی وارداتوں پر باقی ملک کے لوگ افسوس اور تنقید تو کرتے ہیں


Amjad Islam Amjad August 10, 2015
[email protected]

چند دن قبل کراچی میں جنید سلیم کے بھائی کو موبائل چھیننے کی ایک واردات کے دوران مزاحمت پر گولی مار دی گئی جس پر اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ ایک غالب ردعمل یہ بھی تھا کہ مرحوم کو مزاحمت نہیں کرنی چاہیے تھے اور کراچی میں امن و امان کی انتہائی خراب صورتحال کے باعث چپ چاپ ڈاکوؤں کا مطالبہ مان لینا چاہیے تھا کہ اب یہ بات وہاں ایک اَن لکھے دستور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جنید سلیم اور سہیل احمد نے اپنے پروگرام میں بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ کیا کسی مہذب آزاد اور قانون کی عملداری کا دعویٰ رکھنے والے ملک، اس کے شہریوں اور حاکموں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے بجائے غنڈہ گردی کو ایک متوازی قانون کے بطور تسلیم کر لیں اور اپنی حق حلال اور محنت سے کمائی ہوئی دولت اور اشیاء کو چپ چاپ قانون شکن لوگوں کے حوالے کر دیں کہ بصورت دیگر ان کی حالت فیضؔ صاحب کے اس مصرعے کی تصویر مجسم ہوگی کہ

یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

میں نے بھی لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح ان کی باتوں کو سنا اور پھر کوئی معقول اور مثبت جواب نہ پا کر اپنا دھیان کسی اور طرف لگا لیا کہ کچھ بھی ہو اس خبر سے بہرحال میرا گھر اور میرا خاندان براہ راست متاثر نہیں ہوا تھا۔ افسوس صد افسوس کہ یہ ظالمانہ اور بے حس بنا دینے والا رویہ اب ہماری عملی معاشرتی اقدار کا ایک حصہ بن چکا ہے۔

ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے

کراچی میں امن و امان کی تباہ حالی اور چھین جھپٹ کی وارداتوں پر باقی ملک کے لوگ افسوس اور تنقید تو کرتے ہیں مگر شاید ان کے لاشعور میں یہ کمینی سی تسلی بھی کہیں موجود رہتی ہے کہ ان کے علاقے یا صوبے میں صورت حال خراب تو ہے مگر ناقابل برداشت نہیں بالخصوص پنجاب کی حکومت اور اس کے خادم اعلیٰ اکثر حیلے بہانے سے اس کا کریڈٹ بھی لیتے رہتے ہیں مگر گزشتہ روز دوپہر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس نام نہاد تاثر کا پول کھولنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی دلایا کہ پاکستان کے طول و عرض میں کہیں بھی کسی بھی شہری کے حقوق کی پامالی اصل میں ہر پاکستانی کے حقوق کی پامالی ہے اور یہ کہ ہمسائے کے گھر میں لگی آگ کو بجھانا بھی ہماری ذمے داریوں میں شامل ہے کہ ایسا نہ کرنے کی شکل میں وہ آگ کسی وقت آپ کے گھر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

یہ کہنا کہ کراچی والوں نے اپنی حکومت کی نالائقی اور انتظامیہ کی خرابی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے زندہ رہنا سیکھ لیا ہے اور ڈاکو گردی ان کے کلچر کا تسلیم شدہ حصہ بن چکی ہے، اخلاقی طور پر بھی غلط ہے اور واقعاتی طور پر بھی اور اگر ہم یہ بیان دے کر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو کل کو جب یہ آگ ہمارے گھر کی طرف آئے گی تو دوسرے بھی ہمارے ساتھ یہی رویہ اختیار کرنے میں حق بجانب ہوں گے اور یہ وہی صورت حال ہو گی جس کی طرف شیخ سعدی نے صدیوں پہلے اشارہ کیا تھا اور جسے فیضؔ صاحب نے یوں ترجمہ کیا تھا

''کہ خشت و سنگ مقید ہیں اور سنگ آزاد''

یہ ساری تمہید اس اس واقعے کو بیان کرنے کے لیے باندھی گئی جو گزشتہ روز دوپہر میرے چچا زاد بھائی شاہد نسیم اور اس کے نوجوان بیٹے فیضان شاہد کے ساتھ ان کے گھر کے دروازے پر پیش آیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دونوں باپ بیٹا صادق پلازہ نزد مسجد شہدا لاہور کے ایک منی چینجر سے 15 ہزار یورو تبدیل کرا کے گھر واپس آ رہے تھے۔ فیضان گاڑی چلا رہا تھا گھر کے دروازے پر جونہی وہ کار کا دروازہ کھول کے گیٹ کی طرف بڑھا ایک دم ایک موٹر سائیکل پر سوار دو درمیانے قد کے پتلے دبلے نقاب پوش لڑکوں نے اسے رکنے کا حکم دیا۔ دونوں کے ہاتھوں میں پستول تھے اور ان کی موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ پر ایک کاغذ چپکا ہوا تھا۔ فیضان اس حکم کی وجہ پوچھنے کے لیے ان کی طرف مڑا لیکن ابھی اس نے ایک قدم ہی اٹھایا تھا کہ ایک لڑکے نے اس کی ٹانگ پر فائر کر دیا۔ وہ وہیں گر گیا جب کہ دوسرے نے گاڑی کا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر بیٹھے حیرت اور دہشت زدہ شاہد نسیم کے قریب رکھا ہوا رقم کا لفافہ اٹھایا اور دونوں پستول لہراتے ہوئے ایک طرف کو نکل گئے۔

بچے کو فوراً سروسز اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچایا گیا جس کا ہال طرح طرح کے زخمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ جن میں زیادہ تعداد غریب اور کم وسیلہ لوگوں کی تھی مگر عام تاثر کے برخلاف ان کا علاج اور دیکھ بھال بہت عمدگی سے کی جا رہی تھی۔ شاہد نسیم نے بتایا کہ ڈیوٹی پر موجوڈ ڈاکٹر حضرات نے (جن میں سے بیشتر نوجوان تھے) انتہائی تیزی اور مہارت سے فوری طور پر فیضان کا علاج شروع کر دیا۔ ایکسرے کے بعد معلوم ہوا کہ گولی ران کو چیرتی ہوئی نکل گئی ہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ ہڈی تقریباً 95% محفوظ رہی ہے۔ میں نے اپنی بیگم اور بیٹے علی ذی شان کے ساتھ جس وقت وہاں پہنچا تب اس واردات کو تقریباً ایک گھنٹہ اور فیضان کو وہاں پہنچے 40 منٹ ہو چکے تھے۔ اس کی ٹانگ پر ٹخنے سے لے کر گھٹنے کے بالائی حصے تک پلاسٹر چڑھا ہوا تھا اور اسے مناسب طبی امداد مہیا کی جا چکی تھی اور ڈاکٹرز اس کی حالت کو خطرے سے باہر قرار بتا رہے تھے لیکن واقعے کی دہشت مجھ سمیت تمام موجود لواحقین کے چہروں پر صاف دکھائی دے رہی تھی کہ اگر گولی ذرا سی ادھر ادھر ہو جاتی تو کیا ہوتا؟

لاہور کے ریس کورس تھانے کا عملہ بھی پہنچ گیا اور ابتدائی رپورٹ بھی درج ہو گئی، مولا نے کرم کیا بچے کی جان بھی بچ گئی رقم کا زخم بھی کسی نہ کسی طرح مندمل ہو ہی جائے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا اور کیا خادم اعلیٰ صاحب اس بات پر غور فرمانے کے لیے بھی کچھ وقت نکال سکیں گے کہ ان کے صوبے، اس کے دارالحکومت اور ان کے گورنر اور سی ایم ہاؤس سے ایک ڈیڑھ میل کے دائرے کے اندر دن دہاڑے اگر اس طرح کی وارداتیں ہو سکتی ہیں تو باقی صوبے کی صورت حال کیا ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔