غریبوں سے چنگ چی بھی چھین لی گئی

اگر چنگ چی پر پابندی لگانی ہے تو لگائیں مگر اُس سے پہلے سفر کے لیے کم از کم 5 ہزار بسوں کو سڑکوں پر لایا جائے۔


خوشنود زہرا August 06, 2015
درجہ بدرجہ نظام کو بہتر کرنے کے بجائے ہزاروں افراد کی روزی پر لات مارتے ہوئے پابندی عائد کردی گئی۔ فوٹو: فائل

بے آس اور تھکان زدہ چہرے، انتظار کی کوفت سے سلگتے دماغ، ٹکٹکی باندھے بس 'اسی کے منتظر ہیں جس کے شہر کی سڑکوں پر دندنانے کو سندھ ہائیکورٹ نے پابندی عائد کردی ہے۔ جی ہاں بالکل، اِس شہرِ قائد کی شاہراؤں کی رونق اور حادثات دونوں ہی کی وجہ ''روڈ راجہ چنگ چی'' کی راہ تک رہے ہیں اور وہ بسیں جنہیں کل تک یہ شہری خاطر میں نہیں لاتے تھے آج مسافروں سے لدھی پھندی ایک شان سے آتی ہیں اور شانِ بے نیازی سے آگے بڑھ جاتی ہیں اور تو اور آج بس ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کے تیور بھی بدلے بدلے سے ہیں۔ جو کل تک چیخ چیخ کر نیپا، ٹاور، صدر، جامع اور یونیورسٹی تک کی دعوت دیا کرتے تھے آج ذرا بس اسٹاپ تک پر رکنا اپنی شان کیخلاف سمجھ رہے ہیں گویا مسافر اُڑ اُڑ کر سوار ہوںگے۔



شہر قائد جہاں لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد حصولِ معاش، حصول علم اور کاروبار کے لئے طویل فاصلے طے کرتے ہیں۔ وقت بچانے کیلئے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اور سہولت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ اس لئے شہریوں کی بڑی تعداد نے مسافر کوچوں اور مزدا میں سفر کرنے کے بجائے تین پہیوں والی سواری یا چنگ چی رکشہ کے سفر کو ترجیح دینا شروع کردی۔ جس کی وجہ سے گزشتہ 2 برسوں کے دوران کراچی میں چنگ چی رکشوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا اور تقریباً 70 ہزار سے زائد چنگ چی رکشوں نے سڑکوں پر گشت شروع کردیا۔ جہاں ایک طرف تو ان چنگ چی رکشوں نے نہ صرف عوام کو زیادہ سے زیادہ 30 روپے کے عوض طویل اور اپنی برق رفتاری اور سیٹ بائی سیٹ کی پالیسی سے مستفیض کیا بلکہ بسوں کے اذیت ناک سفر سے بھی چھٹکارا دلایا۔ لیکن جس طرح ہر چیز مکمل طور پر فائدے مند نہیں ہوتی بالکل یہی معاملہ اِن چنگ چیوں کے ساتھ بھی ہے کیونکہ سڑکوں پر اِن کی موجودگی نے ٹریفک حادثات کا گراف بھی اونچا کردیا ہے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری اور مٹھی گرم کے کلچر سے ان چنگ چی رکشہ برادری نے بھی خوب فائدہ اٹھایا، جہاں سینگ سمائے کے مصداق جب اور جہاں کی بنیاد پر تھوڑی سی بھی جگہ میسر آئی وہیں ٹریفک کی روانی کو درہم برہم کرتا ہیوی ٹریفک کو ڈاج دیتا ہوا جلدی جلدی اپنی منزل کی طرف رواں دواں، جس سے مسافر بھی خوش، چنگ چی ڈرائیور بھی سکھی، ٹریفک پولیس تو ہے ہی مطمئن تو پھر آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر غریب مسافر سے یہ سہولت واپس لے لی گئی؟ کیوں سندھ ہائیکورٹ کو ان چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کرنا پڑی؟

وجہ کوئی نئی نہیں بلکہ وہی پرانی یعنی روٹ پرمٹ، رجسٹریشن اور فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر چلنے والے موٹر سائیکل چنگچی رکشوں کے خلاف کارروائی ہے۔ جس کے حل کے طور پر جرمانے، چالان اور رکشے بند کیے جائیں گے۔ یہ کوئی نئی وجہ نہیں بلکہ اس سے قبل 2014 میں بھی سندھ ہائیکورٹ نے ان چنگچی رکشہ کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ان پابندی عائد کی تھی جسے چنگچی رکشہ مالکان نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرکے حکم امتناع حاصل کرلیا تھا۔

درحقیقت ہمارا معاملہ یہ ہے کہ پہلے کام کرتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ یہ کرنا چاہیے تھا نہیں۔ اگر پہلے سوچ لیں تو اتنے مسائل کبھی نہ ہوں۔ اِس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ جن لوگوں نے اِس رکشوں کو سڑکوں پر لانے کی اجازت دی ہے اصل مجرم تو وہ ہیں؟ آخر کیونکر اُنہوں نے اِن رکشوں کی فٹنس کو صحیح طرح چیک نہیں کیا؟ اگراسی وقت قانون شکنی پر سختی سے کارروائی کرلی جاتی اور فٹنس سرٹیفیکٹ کی چیکنگ کا عمل باقاعدہ رکھا جاتا تو ایسی صورتحال کبھی نہ درپیش آتی۔ لیکن اب جب ہزاروں افراد اِس کام سے برسرِ روزگار ہوگئے ہیں تو اب سب کو قانون یاد آرہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِس موقع پر عوام کو مصیبت میں ڈالنے کے بجائے اس سسٹم میں بہتری لائی جاتی اور درجہ بدرجہ نظام کو بہتر کیا جاتا، لیکن ہزاروں افراد کی روزی پر لات مارتے ہوئے پابندی عائد کردی گئی۔

اس سب میں نقصان تو شہریوں کا ہی ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اور گھٹتی ہوئی بسوں کی تعداد سے براہِ راست تو عوام ہی متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت خود تو کبھی اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے اس کے سدباب کے لئے کچھ نہ کرسکی۔ اس سے قبل جب نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم تھے تو سی این جی بس سروس متعارف کروائی گئی تھی۔ اہلِ کراچی کیلئے یہ بس سروس تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھی جس میں لوگ ٹھونسنے اور چھتوں پر بٹھانے کے بجائے لوگ نئی کراچی سے ٹاور تک کا سفر 15 روپے میں کیا کرتے تھے وہ بھی ٹھنڈی مشین میں، لیکن پھر ہوا کیا؟ وہ بس سروس بھی نہ جانے کن ناعاقبت اندیشیوں کے سبب ماضی کا حصہ بن کر رہ گئی۔ اِن سب رسوائیوں کی وجہ وہی ہے یعنی باقاعدہ نظام کا نہ ہونا اور قوانین کی عملی پاسداری کا فقدان ہے جس کا خمیازہ غریب عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

لیکن اِس پابندی پر ایک گروہ بہت خوش ہے۔ جشن منا رہا ہے۔ جانتے ہیں وہ کون لوگ ہیں؟ جن کے پاس اپنی گاڑی ہے، جو ٹھنڈی گاڑیوں میں جب بھی جہاں بھی جانا چاہیں باآسانی جاسکتے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ تھا، اور وہ مسئلہ تھا چنگ چیوں کا سڑکوں پر سفر کرنا؟ وہ کیوں؟ ارے وہ اِس لیے کہ جب وہ اپنی گاڑیوں میں سکون سے سفر کرتے تھے تو بیچ میں یہ چنگ چیاں آجایا کرتی تھی اور اِس طرح اُن کے سکون میں خلل پیدا ہوجاتی تھی۔ لیکن ایسے تمام لوگوں سے جنہوں نے ایک گزارش ہے، ایک دن گاڑی چھوڑ کر بسوں میں سفر کریں اور اُن لوگوں کو احساس کریں جنہیں جانوروں کی مانند بسوں میں بھرا جاتا ہے، جن کا مقدر اعصاب شکن سفر ٹھہرادیا گیا۔ اگر حکومت کو ان چنگ چی رکشوں پر پابندی لگانی ہی ہے تو پہلے چنگ چی ڈرائیوروں کو باعزت روزگار فراہم کرے اور ساتھ ساتھ ان 2 کروڑ عوام کے لئے ابتدائی طور پر 70 ہزار چنگ چی رکشوں کے متبادل کم از کم 5 ہزار منی بسیں چلائے تاکہ کچھ مداوا ہوسکے ورنہ کب تک ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث یہ غریب اور متوسط طبقہ کوفت اور اذیت میں مبتلا اپنے قیمتی وقت کا نا قابل تلافی نقصان کرتے رہیں گے۔

[poll id="584"]

 


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔