زیست مکتب ہے امتحان نہیں

دنیا میں دس فیصد جھگڑے اختلاف رائے کی وجہ سے ہوتے ہیں


Amjad Islam Amjad October 18, 2012
[email protected]

ساحر لدھیانوی کا ایک بہت مشہور شعر ہے

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

تخلیقی فنکاروں کی حد تک تو یہ بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں پیش آمدہ غیر متوقع واقعات، حادثات اور تجربات سے حاصل شدہ علم اور تاثر کو اپنے آرٹ میڈیم کے حوالے سے کسی ایسی شکل میں ڈھال دیتے ہیں کہ وہ ان کے عہد کے ناظرین، قارئین اور سامعین کے ساتھ ساتھ آیندہ آنے والے وقتوں کے لیے بھی محفوظ ہوجائیں لیکن یہ عمل فوٹو گرافی کا نہیں بلکہ مصوری جیسا ہے یعنی تخلیقی فنکار اپنے تجربے میں آئی ہوئی ''حقیقت کو اپنے مطالعے اور مشاہدے کے اضافے کے بعد ایک نقطۂ نظر یعنی Point of view کے ساتھ پیش کرتا ہے بالخصوص مطالعہ ہمیں دوسروں کے تجربات، مشاہدات اور خیالات کے بارے میں ایسی معلومات اور بصیرت فراہم کرتا ہے جو ہمارے ذاتی تجربے میں ایک نئی گہرائی اور وسعت پیدا کردیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے چند ایسی ہی فکر انگیز اور خیال افروز باتیں پڑھنے کا موقع ملا ہے ان میں سے کچھ سنجیدہ ہیں اور کچھ ہلکے پھلکے انداز میں بیان کی گئی ہیں لیکن ان سب میں ساحر کے مذکورہ بالا شعر کی بازگشت کہیں نہ کہیں سنائی دے رہی ہے۔ چند نمونے دیکھیے۔

٭ اس بات پر کبھی بددل یا ناراض نہ ہوئیے کہ کوئی شخص آپ کو صرف اپنی ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے یہ تو خوشی کی بات ہے کہ آپ کسی کی شب تاریک میں ایک روشن شمع کی طرح ہیں۔

٭ ایک بچے نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے مولا اگر ہر چیز ہماری قسمت میں پہلے سے لکھ دی گئی ہے تو پھر دعا مانگنے کے لیے کیوں کہا جاتا ہے!

غیب سے ایک خیال اس کے دماغ میں لہرایا جیسے اللہ پاک کہہ رہے ہوں ''اس لیے میرے بچے کہ ممکن ہے میں نے کچھ جگہیں خالی چھوڑ دی ہوں اور ان کے نیچے لکھ دیا ہو کہ ''جیسا تم چاہو!''

٭ دنیا میں دس فیصد جھگڑے اختلاف رائے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور باقی کے نوے فیصد اس لہجے کی وجہ سے جو ہم بحث میں اختیار اور استعمال کرتے ہیں۔

٭ کسی نے گوتم بدھ سے پوچھا۔ مجھے خوشی چاہیے!

جواب ملا پہلے اس جملے میں سے ''مجھے'' کا لفظ نکالو کہ یہ تہماری ''انا'' کا آئینہ دار ہے پھر ''چاہیے'' کا لفظ نکالو کہ یہ تمہاری ''خواہش'' ہے اب دیکھو تمہارے پاس ''خوشی'' خود بخود آگئی ہے۔

٭ خالی جیب تمہیں زندگی کی ہزاروں حقیقتوں سے آشنا کرتی ہے مگر بھری ہوئی جیب ہزار طرح سے تمہاری زندگی کو برباد کرتی ہے۔

'' ہماری آنکھیں ہمارے چہرے پر سامنے کی طرف بنائی گئی ہیں کیونکہ سامنے کی طرف دیکھنا پیچھے مڑ کر دیکھنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے''

'' زندگی ایک بازگشت کی طرح ہے جو آواز تم بلند کرتے ہو وہی تم تک واپس پہنچتی ہے۔''

جب ہم بچے تھے تو ہم کچی پنسل استعمال کرتے تھے اب ہم قلم استعمال کرتے ہیں جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ بچپن میں کی ہوئی غلطیوں کو مٹایا جاسکتا تھا مگر اس کے بعد نہیں۔

٭کامیابی کا راز
دوسروں سے زیادہ کام کرو
دوسروں سے زیادہ علم حاصل کرو
دوسروں سے کم توقعات رکھو

٭ اگر تم کسی بات کو آسان لفظوں میں سمجھا نہیں سکتے تو جان لو کہ تم نے اسے ٹھیک طرح سے سمجھا ہی نہیں۔

٭ اگر تم غریب پیدا ہوئے ہو تو اس میں تمہاری غلطی نہیں لیکن اگر تم مرتے وقت بھی غریب ہو تو اس میں یقینا کچھ نہ کچھ تمہاری غلطی ہے۔

'' اگر تمہارا طریقۂ کار یا منصوبہ ناکام ہوجائے تو اسے بدلو، منزل یا مقصد کو تبدیل مت کرو''

'' جس دن تمہیں کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑے تو سمجھ لو کہ تم کسی غلط راستے پر جارہے ہو''

دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص (Warren Buffett) وارن بفٹ کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق

٭ اس نے پہلا بزنس شیئر گیارہ سال کی عمر میں خریدا اور وہ اس بات پر افسوس کرتا کہ اس نے یہ کام اس سے پہلے کیوں نہیں کیا۔

اس نے چودہ برس کی عمر میں اخبارات فروخت کر کے ان کی آمدنی سے ایک چھوٹا سا فارم خریدا تھا۔

٭ وہ آج بھی پچاس سال پہلے کے خریدے ہوئے اسی تین بیڈروم والے مکان میں رہتا ہے جس میں وہ شادی کے بعد منتقل ہوا تھا اس گھر کے گرد کوئی حفاظتی دیوار یا لوہے کی باڑ نہیں اور اس کے خیال میں یہ گھر اس کی ضروریات کے لیے بہت کافی ہے۔

٭ وہ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے نہ ڈرائیور رکھتا ہے اور نہ سیکیورٹی گارڈ

٭ وہ کبھی پرائیویٹ جیٹ پر سفر نہیں کرتا حالانکہ اس کی ملکیت میں دنیا کی سب سے بڑی جیٹ کمپنی بھی ہے۔

٭ وہ اپنی تریسٹھ (63) کمپنیوں کے CEO'S کو صرف دو ہدایات دیتا ہے

-1 اپنے شیئر ہولڈرز کی دولت کا ایک پیسہ بھی ضایع نہ ہونے دو

-2 اصول نمبر ایک کو ہمیشہ یاد رکھو

٭ وارن بفٹ نہ موبائل فون استعمال کرتا ہے اور نہ اس کی میز پر کوئی کمپیوٹر ہے۔

٭ دنیا کا امیر ترین آدمی بل گیٹس پانچ برس پہلے اس سے پہلی بار ملا ۔اس ملاقات کا طے شدہ دورانیہ آدھ گھنٹہ تھا مگر بل گیٹس کے اصرار پر یہ ملاقات دس گھنٹوں تک جاری رہی اور بل گیٹس تب سے اب تک اسے اپنا ہیرو مانتا ہے۔

اور اب چلتے چلتے ذرا ایک مختلف انداز کا خیال

دو سردار صاحبان کو دو دستی بم مل گئے انھوں نے مشورے سے فیصلہ کیا کہ انھیں ان بموں کو پولیس کے حوالے کردینا چاہیے، تھانے کی طرف جاتے ہوئے ایک نے کہا اگر ان میں سے ایک بم پھٹ گیا تو ہم کیا کریں گے؟

دوسرے سردار نے جواب دیا۔ ہم صاف مکر جائیں گے اور کہیں گے کہ ایک ہی ملا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں