معرکہ قریب آن پہنچا
یہی حال گولڈن ٹمپل میں مارے جانے والے ان سکھ باغیوں کا کیا گیا۔ لیکن سکھوں کے ہاں انتقام کی ایک تاریخ ہے۔
CHICAGO:
امرتسر کی مسجد خیرالدین کے احاطے میں موجود اپنے دادا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد جب میں بازار کی جانب روانہ ہوا تو موبائل کی سم خریدنے کے لیے دکان پر رکا۔ اس نے مجھ سے شناخت مانگی۔ میں نے اپنا پاکستانی پاسپورٹ اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے پاسپورٹ دیکھا، مجھ سے پنجابی میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا، چائے پینے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے سِم دے دو تا کہ میں اپنے گھر رابطہ کر سکوں۔
میرے اس سوال پر اس کا چہرہ اتر گیا، انتہائی معذرت کے ساتھ بولا کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر سِم جاری نہیں کر سکتا۔ میں نے پوچھا کو ئی پابندی ہے، کہنے لگا یہاں ہر کمپنی نے منع کیا ہوا ہے۔ میں واپس گاڑی میں آ گیا، میرا ڈرائیور روہت ہما چل پردیش کا ہندو تھا، جو امرتسر میں آ کر مستقل رہائش پذیر ہو گیا تھا۔ اس نے مجھے مایوس لوٹتے ہو ئے دیکھا تو کہا، پورے بھارت میں کوئی آپ کو سِم نہیں دے گا۔ میں نے ایک دفعہ اپنے ایک پاکستانی مسافر کو کچھ دیر کے لیے اپنی سِم ادھار دے دی۔
اس نے اس سے پاکستان دو یا تین دفعہ کالیں کیں۔ وہ تو واپس چلا گیا لیکن چند دن بعد پولیس والے مجھ سے تفتیش کرنے پہنچ گئے۔ گولڈن ٹمپل میں ایک جانب بیٹھے سکھ سے جب میں نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے بارے میں سوال کیا تو وہ خاصا محتاط تھا، بس اتنا ہی بول سکا، کسی کو یقین تک نہ تھا کہ ہمارے اس مقدس مقام میں بھی فوج آپریشن کے لیے گھس سکتی ہے۔
گولڈن ٹمپل کے دروازے سے لے کر دیگر جگہوں تک آپ کو سنگِ مرمر کی بڑی بڑی تختیوں پر فوجی سکھ رجمنٹوں کے نام کھدے ہوئے ملیں گے۔ یہ تختیاں خاص طور پر بھارتی فوج کی رجمنٹوں نے لگائی ہیں۔ میں نے دنیا کے کسی مذہب کے مقدس ترین مقام پر اس طرح آرمی یونٹوں کی جانب سے تختیاں آویزاں نہیں دیکھیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، بھارت شروع ہی سے سکھوں کی میدانِ جنگ میں کام آنے والی صلاحیتوں پر بے حد انحصار کرتا رہا ہے۔ پورے بھارت میں آج بھی کسی دوسری ریاست میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے سکھ رجمنٹ پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔
وہ سکھ فوجی جرنیل جس نے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی بنوائی اور بھارت کو اس سازش کے ذریعے فتح دلوائی، آخری وقت میں بھارت کے چہرے سے اس قدر متنفر ہو گیا تھا کہ خالصتان تحریک میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ آپریشن میں مارا گیا اور اس کی لاش تک حوالے نہ کی گئی بلکہ اس کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو جنرل ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے ساتھ کیا۔ ہمایوں کے مقبرے سے جب بہادر شاہ ظفر کو حراست میں لیا گیا تو اس کے دو بیٹوں کے سر کاٹ کر طشتری میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کیے گئے اور باقی بیٹوں کی لاشیں ان بیل گاڑیوں میں ڈالی گئیں جو شہر سے غلاظت اور کوڑا کرکٹ اٹھاتی تھیں اور انھیں پورے شہر میں گھمایا گیا۔
یہی حال گولڈن ٹمپل میں مارے جانے والے ان سکھ باغیوں کا کیا گیا۔ لیکن سکھوں کے ہاں انتقام کی ایک تاریخ ہے۔ جلیانوالہ باغ کی راہداریوں میں گھوم رہا تھا تو اس چھوٹے سے باغ کے چاروں جانب مکانات ہیں، باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے جہاں بریگیڈیئر جنرل ڈائر نے بندوق بردار سپاہی کھڑے کر کے فائر کا حکم دے دیا تھا۔ آج بھی دیواروں پر گولیوں کے وہ نشان موجود ہیں، وہ کنواں بھی ہے جس میں لوگوں کی لاشوں کو پھینکا گیا تھا سکھ انتقام کی علامت اودھم سنگھ کی تصویر بھی وہاں آویزاں ہے۔ اودھم سنگھ 1899ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک ریلوے پھاٹک کا چوکیدار تھا۔
اس کی والدہ 1901ء میں انتقال کر گئیں اور والد بھی 1907ء میں چل بسے، اودھم سنگھ اور اس کا بڑا بھائی مکتا سنگھ دونوں امرتسر کے خالصہ یتیم خانے 'پتلی گھر' میں رہنے لگے۔ اودھم سنگھ نے 1918ء میں میٹرک کیا اور یتیم خانہ چھوڑ گیا۔ 1919ء میں پنجاب میں رولٹ ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے خلاف سول نافرمانی تحریک کا آغاز ہوا۔ انگریز پہلی جنگِ عظیم کی فتح سے سرشار بھی تھا اور معاشی طور پر بدحال بھی۔ اور ادھر تیسری افغان جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ خوفزدہ انگریز فوجیوں کو ایک اور 1857ء جیسی بغاوت کا خطرہ تھا۔
اسے لیے اس تحریک کے اہم رہنماؤں سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کو گرفتار کر کے خفیہ مقام پر لے جایا گیا، جس کے خلاف 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ میں تقریباً بیس ہزار افراد احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ بریگیڈیئر جنرل ڈائر جو مری کے نزدیک گھوڑا گلی میں پیدا ہوا تھا جہاں اس کا باپ مشہور کارخانہ مری بروری چلاتا تھا۔ شملہ میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انگلینڈ گیا اور سینڈھرسٹ میں ٹریننگ کے بعد برٹش آرمی کا حصہ بن گیا جہاں 1886ء میں اس کی پہلی ڈیوٹی بلفاسٹ میں آئر لینڈ کے باغیوں کو کچلنے پر لگائی گئی۔
اسے وزیرستان میں محسود قبائل کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا گیا، پھر وہ لنڈی کوتل میں قبائل کے خلاف لڑا، پہلی جنگِ عظیم کے دوران وہ چاغی کے بارڈر پر سیستان فورٹ میں رہا جہاں اس کی خدمات کو سراہا گیا اور اسے کرنل سے عارضی طور پر بریگیڈیئر جنرل بنا دیا گیا۔ 13 اپریل1919ء کو اسے بغاوت کی اس اُٹھتی ہوئی لہر کو روکنے کی ذمے داری سونپی گئی اور اس نے گولڈن ٹمپل سے چند سو گز کے فاصلے پر واقع جلیانوالہ باغ میں نہتے عوام پر فائر کھول دیا۔ اس نے ایک سپاہی کی حیثیت سے سر مائیکل ڈائر گورنر پنجاب کے حکم کی تعمیل کی اور اس کا اقرار کیا۔
اودھم سنگھ ایک بچہ تھا اور وہ جلیانوالہ باغ میں اسوقت لوگوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی پر مامور تھا۔ اس نے یہ تمام قتل و غارت اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور پھر اس نے گورنر پنجاب کا وہ اعلان بھی سنا تھا جس میں اس نے اس قتل و غارت کو درست قرار دیا تھا۔ اس نے اپنے دل میں انتقام کی آگ کو اکیس سال تک سنبھالے رکھا۔ داڑھی منڈوائی، سوٹ، ہیٹ پہنا اور 3 مارچ 1940ء کو لندن کے کیکسٹن ہال تک پہنچنے کی رسائی حاصل کی جہاں مائیکل ڈائر نے تقریر کرنا تھی۔ اس نے اپنا ریوالور ایک کتاب میں چھپایا ہوا تھا۔ جیسے ہی ڈائر تقریر کرنے اسٹیج کی طرف بڑھا اس نے فائر کھول دیے۔
وہ اسے قتل کرنے کے بعد اطمینان سے کھڑا رہا۔ گرفتار ہوا ۔ مقدمہ چلا۔ اس کا بیان ایک تاریخی حقیقت اور آزادی و حرّیت کے جذبوں سے نچڑا ہوا ہے۔ اسے 31 جولائی 1940ء کو پنٹو نوائل کے جیل خانے میں پھانسی دے دی گئی اور وہیں دفن کر دیا گیا۔ 1974ء میں اس کی باقیات کو وہاں سے نکال کر بھارت لایا گیا، اس کے گاؤں میں انھیں چِتا کے سپرد کیا گیا اور راکھ ستلج دریا پر بکھیر دی گئی۔
آج سے آٹھ سال قبل 2007ء میں جب میں دہلی شہر میں گھوم رہا تھا تو دلی میں آباد لاکھوں سکھوں کے دلوں میں اودھم سنگھ ابھی تک زندہ تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دو اور کرداروں کا بھی ذکر کرتے تھے، ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ، جنھوں نے 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کو اسوقت قتل کیا جب وہ آئرش ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو دینے کے لیے اپنے گھر کے باغ سے ہوتی ہوئی دفتر جا رہی تھی۔ غصہ اسقدر شدید تھا کہ بے انت سنگھ نے تین گولیاں چلائیں لیکن ستونت سنگھ نے پوری تیس گولیاں اندرا گاندھی کے جسم میں اتار دیں۔
قتل کے بعد دونوں اطمینان سے کھڑے رہے۔ بس اتنا بولے ہم نے جون 1984ء میں گولڈن ٹمپل کی توہین کا بدلہ لے لیا، اب آپ جو کرنا چاہتے ہو کر لو۔ اس کے بعد دلی شہر میں جو سکھوں پر بیتی وہ ایک ہولناک داستان ہے2007ء میں اس ہولناک واقعہ کو 23 سال بیت چکے تھے لیکن، کسی بھی ٹیکسی ڈرائیور، کرول باغ کا دکاندار یا راہ چلتے ملنے والے سکھ سے میں کبھی اس کا ذکر چھیڑ دیتا تو وہ ایک دم اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتا۔ ہر کوئی ظلم کی ایک انوکھی داستان سناتا۔ ایک عام ظلم بتایا جاتا کہ سکھ نوجوانوں کو ہجوم پکڑ لیتا، پھر ان کے گلے میں ٹائر ڈال کر انھیں آگ لگا دی جاتی۔
راجیو گاندھی کو قتل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہو ا تھا۔ ہر سکھ یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ یہ لوگ اب اپنے بودیوں والے ہندؤں کے گلے میں ٹائر ڈال کر آگ کیوں نہیں لگاتے۔ آٹھ سال گزرنے کے بعد دوبارہ دلی کے بازاروں میں گھومنے کا موقع ملا۔ سوچتا تھا وقت زخم بھر چکا ہو گا۔ لیکن میں نے دلی شہر کبھی اتنا پریشان حال نہیں دیکھا، یوں لگتا تھا ہر کوئی کسی آنے والے لمحے کے خوف میں مبتلا ہے۔ سفارتی تعلقات کا یہ عالم تھا کہ سفارت کاروں کو ائیر پورٹ پر مہمانوں کے لیے جو کارڈ جاری کیے جاتے وہ ایک سال کے لیے ہوتے ہیں لیکن اب پاکستانی سفارت خانے کے عملے کو ہر دفعہ نئی اجازت لے کر ائر پورٹ جا نا پڑتا ہے۔ حریت کانفرنس کے رہنماؤں کے ساتھ عید ملن پارٹی پر ملاقات ہوئی تو ان کے خوف مختلف تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ انھیں خصوصی نشانہ بنا کر مودی سرکار بھارتی ہندؤں کو ایک بار پھر اپنی سیاست پر اکٹھا کرنا چاہتی ہے جس سے پورے کشمیر میں ایک انجانے خوف کی فضا ہے۔ دلی کے بازاروں میں سکھ ایک بار پھر 1984ء کے زخم یاد کرتے نظر آئے وہ اپنے خلاف مخصوص ہندو نفرت ان سیاسی رہنماؤں کی آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں۔ دلی میں گزارا ہوا ایک دن مجھے بالکل ایسے لگ رہا تھا جیسے میں جرمنی کا کوئی شہری ہوں جو عین جنگ کے دوران غلطی سے فرانس کے کسی شہر میں آ نکلا ہوں۔ یہ تپش آپ کو دلی میں ہر جگہ نظر آئے گی۔
دو سو سے زائد چینلوں والے میڈیا پر جو نام بھگوان کے نام کے بعد سب سے زیادہ لیا جا رہا تھا وہ "آئی ایس آئی" تھا۔ آٹھ سال پہلے میں نے بھارت کے اٹھارہ شہر گھومے، ہر کسی کو آئی ایس آئی کا علم تھا لیکن کوئی پوچھنے پر بتاتا تھا۔ آج آٹھ سال بعد یہ نام ہر بچے بچے کی زبان پر ہے۔ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے زیادہ عقل اور سوچ کی ضرورت نہیں۔