مفت کا مالک مکان

بدقسمتی سے ہم رواداری‘ درگذر‘ معافی اور بھلا دینے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں


Amjad Islam Amjad July 30, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: نفرت ایک مفت کا مالک مکان ہے داناؤں نے اس کی تشریح اس طرح سے کی ہے کہ جب آپ اپنے دل میں کسی شخص کے خلاف نفرت کو پالتے یا جمع کرتے ہیں تو وہ بغیر کوئی کرایہ دیے آپ کے مکان کا مالک بن جاتا ہے یعنی گھر تو آپ کا ہے مگر قبضہ اس پر کسی اور کا ہو جاتا ہے غصہ ' گلہ' شکوہ' شکایت بلاشبہ ہماری زندگی کا حصہ بھی ہیں اور ایک حقیقت بھی لیکن ان کے ساتھ ہمارا رویہ رستے میں آنے والے ان اسٹیشنوں کی طرح ہونا چاہیے جہاں گاڑی صرف چند لمحوں کے لیے رکتی ہے اور پھر ان کو بھول کر اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے۔

بدقسمتی سے ہم رواداری' درگذر' معافی اور بھلا دینے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر نہ تو اپنے بچوں کو یہ بات عملی مثالوں سے سمجھاتے ہیں اور نہ ہی ہماری درسگاہوں اور تعلیمی نصابات میں اس طرف کوئی نتیجہ خیز توجہ دی جاتی ہے، ہمارا سارا زور قصے کہانیوں اور ایسے گھسے پٹے اور رٹے رٹائے اصلاحی لیکچرز پر رہتا ہے جو سامعین کے ایک کان میں داخل ہوتے ہیں اور کسی قسم کے منطقی یا اطلاقی تار کو چھوئے اور ہلائے بغیر دوسرے کان سے نکل جاتے ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ عمومی طور پر ناخوش ' ناراض اور گلہ مند رہتے ہیں کہ یہ تینوں ایسے بیج ہیں جن سے دلوں میں نفرت کے پودے پھیلتے ' پھولتے اور پھلتے ہیں۔ دیکھئے یہی بات ایک ذہین' فرض شناس اور صحیح معنوں میں اچھے استاد نے اپنی کلاس کے بچوں کو کیسی بامعنی' گہری اور دل میں اتر جانے والی مثال سے سجھائی ہے۔

''استاد نے بچوں سے کہا کہ تمہیں جن جن لوگوں سے جو جو شکوے شکائتیں ہیں ان سے متعلقہ ساری زیادتیوں اور نفرتوں کو جمع کرو اور پھر ہر ناراضگی کے بدلے میں ایک ٹماٹر کسی ڈبے یا پیکٹ میں ڈال کر اس کا منہ بند کر دو اور سات دن تک چوبیس گھنٹے ہر جگہ اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھو۔ اب ہوا یوں کہ دو دن بعد ہی ٹماٹر گلنا سڑنا شروع ہو گئے اور ان میں سے بو آنے لگی جس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہونے لگا لیکن استاد کا حکم تھا کہ اسے پورے سات دن ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھنا ہے اس پابندی نے بچوں کا ناک میں دم کر دیا، ان کے لیے اٹھنا بیٹھنا' کہیں آناجانا' کھانا پینا سونا اور پڑھنا سب کچھ محال ہو گیا۔

خدا خدا کر کے سات دن پورے ہوئے تو استاد نے کہا اب ان ٹماٹروں کو گڑھا کھود کر دبا دو اور اس پر مٹی ڈال دو کیونکہ ڈسٹ بن بھی ان کی بدبو نہیں سہار سکتا اور اپنا اپنا ڈبہ اچھی طرح دھو دھا کر صاف کر کے میرے پاس لاو۔ٔ بچوں کے استفسار پر اس نے اس عمل کا مقصد ان کو یوں سمجھایا کہ اگر دلوں میں نفرت ' کینے اور غصے کو پالا جائے تو کچھ دیر میں وہ بھی ان سڑے ہوئے ٹماٹروں کی طرح بو دینے لگتے ہیں اور آپ کو مسلسل بے چین رکھ کر زندگی کی ساری خوشیوں کو برباد کر دیتے ہیں سو جہاں تک ہو سکے ان کو اپنے دلوں میں جگہ نہ بنانے دو اور جلد از جلد انھیں معافی اور درگزر کے گڑھے میں دبا کر ان پر فراموشی کی مٹی ڈال دو اور اپنے دلوں کو ہمیشہ کے لیے نفرت اور کدورت سے پاک کر لو۔''

دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں بھی ان اصولوں کی تعلیم شائد کسی دوسرے معاشرے سے کم نہیں لیکن جہاں تک تربیت کا تعلق ہے بدقسمتی سے ہمارا حال وہی ہے جو عالمی رینکنگ میں ہماری فٹ بال ٹیم یا دیگر بہت سے شعبوں کا ہے اس سب پر مستزاد ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا رویہ ہے کہ جو ایک ایسے اژدھے کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کی خوراک ہی نفرت کے مختلف اجزاء پر مشتمل ہے۔ غالب نے ایک شعر میں سمندر نامی ایک ایسے کیڑے کی مثال دی تھی جس کا رزق ہی آگ ہے جب کہ نفرت اور آگ کے درمیان بھی چولی دامن کا ساتھ پایا جاتا ہے۔

جاری تھی اسد داغ جگر سے مری تحصیل
آتشکدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا

آگے بڑھنے سے پہلے شیخ سعدی کے اس قول پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کہ

''میرے پاس وقت نہیں ہے ان لوگوں سے نفرت کرنے کا جو مجھ سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ مجھے ان لوگوں کی محبت اس کا وقت ہی نہیں دیتی' جو مجھ سے محبت کرتے ہیں''

حیرت کی بات ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب دوسروں سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا مگر اس کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ نفرت مذہب کے نام پر ہی پھیلائی جاتی ہے بلاشبہ اپنی زمین' اپنے لوگ' اپنا مذہب' اپنی روایات' اپنا کلچر اپنے بچے سب کو اور سب سے اچھے لگتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کی محبت بھی ہمیں دوسروں سے نفرت نہیں سکھاتی، کوئی فرد ہو یا معاشرہ' عقیدہ ہو یا آئیڈیالوجی ہر جگہ ایک ہی اصول کار فرما ہے کہ Live and let Others Live۔

نفرت کی عمارت حسد' تکبر' تعصب' جہالت' استحصال' غلط فہمی اور خود غرضی کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے معلمین اخلاق (پیغمبر' مذاہب کے بانی' اولیاء اللہ' فلسفی' شاعر' ادیب وغیرہ وغیرہ) ان تمام رویوں کو منفی اور انسان دشمن قرار دیتے رہے ہیں کہ نفرت سے آج تک دنیا کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا چنانچہ غور سے دیکھا جائے تو نفرت کے ہر مظہر کے پیچھے کسی نہ کسی نوع کی ہوس کاری برسر عمل نظر آئے گی۔

مثال کے طور پر اس نسبتاً جدید سامراجی رویے کو ہی لیجیے جو اپنی بقا' ترقی' طاقت کے اظہار' جغرافیائی پھیلاؤ اور اقتصادی فوائد کے حصول کے لیے کسی دوسرے ملک یا ممالک کو خودساختہ اور فرضی الزامات کی بنیاد پر Target enemy قرار دے کر اس کے خلاف اپنے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور خوف پیدا کرتا ہے۔

اس فہرست میں ایک تازہ تر اضافہ مذہبی عقائد اور فرقہ پرستی کا ہے جس کی آگ میں اس وقت دنیا کے کئی ممالک جلائے جا رہے ہیں اور ایسی ایسی نفرتوں کو ہوا دی جا رہی ہے کہ اسکولوں میں پڑھتے ہوئے معصوم اور بے گناہ بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اور پھر اسے ایک ''کامیابی'' بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ایسے ہی ہمارا میڈیا چند اشتہارات اور ایک نام نہاد Rating کے نام پر اپنے ٹاک شوز میں جو کچھ کر رہا ہے اس کے پس پردہ محرکات بھی اس سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اگر چند لمحوں کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ایسا نہیں کر رہے اور انھیں ان بازی گروں کی بازی گری کا بھی علم نہیں جو انھیں کٹھ پتلیوں کی طرح اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں تب بھی یہ کوئی معقول بہانہ excuseنہیں ہے۔

روزانہ رات کو مختلف چینلز پر چند نمایاں سیاسی پارٹیوں کے ایسے نمایندوں کو جمع کیا جاتا ہے جن کا مقصد زیر بحث مسئلے کو سلجھانا یا اس کا کوئی قابل عمل حل نکالنا ہوتا ہی نہیں عام طور پر ان کا اور پروگرام کے میزبان کا صرف ایک نقطے پر اتفاق ہوتا ہے کہ دوسروں کو بے عزت کیسے کیا جائے جتنا زیادہ یہ ماہرین ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کریں ایک دوسرے کی تضحیک کر کے تماشا لگائیں اور نفرتوں کو ہوا دیں اتنا ہی پروگرام کو کامیاب سمجھا جاتا ہے، روزانہ نئے نئے انکشافات کیے جاتے ہیں لیکن کسی کا مقصد بھی خیر کی تلاش نہیں ہوتا انھیں صرف ''خبر'' سے غرض ہے چاہے وہ اصلی ہو' نیم اصلی یا تراشیدہ۔

ایسا نہیں کہ یہ کام صرف ہمارا میڈیا ہی کرتا ہے بہت مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کا میڈیا بھی اس آفت سے محفوظ نہیں وہ بھی اپنی ضروریات اور دیے گئے ایجنڈے کے مطابق نفرتیں پھیلانے اور لوگوں اور قوموں کو آپس میں لڑوانے کا کام کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ وہ یہی کام سلیقے اور طریقے سے کرتے ہیں جب کہ ہم اپنوں اور بیگانوں سب کے لیے تماشا بن جاتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اصل مسئلہ طریقہ ٔ واردات نہیں بلکہ نفرت اور اس کا وہ فروغ ہے۔

جس سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا آج کے انسان کی سب سے بڑی ذمے داری ہے چاہے وہ پہلی دنیا کا باسی ہو یا تیسری چوتھی' پانچویں وغیرہ کا۔ نفرت کے اس کاروبار کو ختم کیے بغیر نہ تو اخوت کی جہانگیری ممکن ہے اور نہ محبت کی فراوانی کہ جب تک ان اصل مالک مکانوں کو ان کے مقبوضہ مکان کا قبضہ واپس نہیں ملے گا یہ دنیا رہنے کے قابل جگہ نہیں بن سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔