معیشت اور جمہوریت کے استحکام کے لیے

پورے ملک میں کرپشن عام ہے، قبضہ مافیا سرگرم ہے اور بھتہ مافیا دندناتے پھر رہے ہیں


[email protected]

TAIPEI: کراچی وطن عزیز کا سب سے بڑا شہر، ملک کا معاشی ہب اور کروڑوں کی آبادی کا مسکن ہے، عرصہ دراز سے عروس البلاد کی رونقیں ماند، فضائیں سوگوار، اور مناظر اداس اداس ہیں تاہم حکومت کی جانب سے سیاسی و انتظامی بنیادوں پر کی جانے والی کوششوں اور اقدامات سے بتدریج کراچی کے حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی پیش رفت منظر عام پر آ رہی ہے اور ہر نئی پیشرفت کے ہمراہ معاشی سرگرمیوں میں تقویت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

چونکہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے لہٰذا اس شہر کا امن، خوشحالی اور ترقی درحقیقت وطن عزیز کی معاشی ترقی کی اصل بنیادیں ہیں، معاشی و اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے سال کا آغاز کراچی کے باسیوں کے لیے کاروباری ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہر شہری کے لیے امن و سکون بھی ساتھ لائے گا اور بزنس مین بے فکری کے ساتھ کاروبار کرتا اور امید نو کے ساتھ سرمایہ کاری کرتا نظر آئے گا، یقیناً اس ضمن میں پاک فوج، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کو ہر شہری قابل ستائش قرار دے رہا ہے۔

جس کی بدولت اس شہر کو رفتہ رفتہ امن و سکون نصیب ہو رہا ہے اور بالخصوص ٹارگٹ کلنگ کا عفریت جس نے کئی اہم زندگیوں اور بڑی شخصیات کو نگل لیا اب آزادی حاصل ہوتی نظر آ رہی ہے، ایسے احسن اقدام کا تسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے لیکن عوامی سطح پر یہ خیال بھی عام طور پر پایا جاتا ہے کہ ایسے دوررس اثرات مرتب کرنے والے خوش آیند اقدام کا دائرہ صرف شہر کراچی تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے وسیع کر کے پورے ملک میں دراز کیا جائے۔ اس وقت پورے ملک کو امن و خوشحالی کی ضرورت ہے اور دہشتگردی نے پورے ملک میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں، ملک میں جہاں جہاں اور جس جماعت میں کرپٹ یا دہشت گرد عناصر ہوں ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہونی چاہیے، کسی ایک شہر کو فوکس کرنے یا کسی خاص جماعت کو نشانہ بنانے کے تاثر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

اس وقت پورے ملک میں گرینڈ آپریشن کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، پورے ملک میں کرپشن عام ہے، قبضہ مافیا سرگرم ہے اور بھتہ مافیا دندناتے پھر رہے ہیں جن میں اکثر کا تعلق ملک کی بڑی جماعتوں سے ہے۔ اگر ملک بھر میں صرف اربوں روپے کی لوٹ مار ہی روک دی جائے تو یہاں کے بے کس و مجبور اور مہنگائی و بے روزگاری کی چکی میں پستے عوام کو کم از کم ان ٹیکسوں ہی سے نجات مل جائے گی، جو آئے روز غریب عوام کی کمر توڑ دیتے ہیں، علاوہ ازیں معاشی اصلاحات کے ایسے ایجنڈوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس کی بدولت عالمی سطح پر پاکستان کی نئی تصویر ابھر کر آئے جس میں امن، خوشحالی اور ترقی کے رنگ جھلکتے ہوں، عوام کو روٹی، کپڑے اور مکان کے علاوہ اب سستی اور لوڈ شیڈنگ سے پاک بجلی اور کھانے، پینے اور نہانے دھونے کے لیے صاف شفاف اور رواں دواں پانی کی بھی شدید ضرورت ہے جس کی فراہمی حکومت وقت کی اولین ترجیح اور لازمی ذمے داری ہے۔

اس امر کی بھی بڑی ضرورت ہے کہ ملک کو بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے بھی ناصرف منصوبہ بندی کی جائے بلکہ ٹھوس اقدام اخلاص نیت سے کیے جائیں، کہا جا رہا ہے کہ اب ملکی معیشت میں بہتری آئے گی، معیشت مضبوط ہو گی، تعمیر و ترقی کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم نے پاکستانی قرضے کی 506.4 ملین ڈالر کی آٹھویں قسط جاری کر دی ہے اور اس حوالے سے آئی ایم ایف نے ملکی مالیاتی پالیسی کو مضبوط و موثر بنانے کے لیے کئی شرائط عائد کر رکھی ہیں جن کا تعلق ملک میں معیشت کی بحالی سے ہے۔

ان میں ملک میں انکم ٹیکس کے نیٹ ورک میں اضافہ اور ٹیکس وصولی کا نظام موثر و بہتر بنانا بھی ہے، آئی ایم ایف اگرچہ ترقی پذیر ممالک کو آسان شرائط پر ان کی تعمیر و ترقی کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے تاہم یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ اس طریقہ کار سے آئی ایم ایف ان ممالک کو اپنی مالیاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑ رہا ہے جس سے نجات کے بغیر کوئی بھی ملک حقیقی معنوں میں قطعی ترقی نہیں کر سکتا، اگر وہ تمام رقوم جو بیرون ملک منتقل کی جاتی رہی ہیں اور اب بھی وقتاً فوقتاً منتقل ہو رہی ہیں، کسی موثر طریقے سے وطن واپس لائی جا سکے تو عوام کی اسی لوٹی ہوئی رقم سے عوام کی تقدیر بدل جائے گی اور قرضوں سے بھی بخوبی نجات مل جائے گی۔

معلوم ہوا ہے کہ ایان علی گرفتار ہونے سے قبل 80 بار پاکستانی کرنسی باآسانی بیرون ملک منتقل کر چکی تھیں اور یہ ان کا 81 واں پھیرا تھا اس پر تحقیقات ہونی چاہیے تھی کہ ان کے سابقہ دورے کن عناصر کی بدولت کامیاب ہوتے رہے لیکن وہ تو اپنی ضمانت منظور کروانے میں بھی کامیاب ہو چکی ہیں۔ خیال تھا کہ ایان علی کے انکشافات پر بڑے بڑے نام منظر عام پر آئیں گے اور بیرون ملک منتقل دولت واپس قومی خزانے میں آئے گی لیکن حکومتی ہاتھ بڑے اور طاقتور افراد تک پہنچنے سے قاصر ہیں حالانکہ کارروائی سب کے خلاف منصفانہ، بلاامتیاز اور غیر جانبدار ہونی چاہیے، یہ نہیں کہ بڑے بڑے باآسانی چھوٹ جائیں اور چھوٹے و بے کس اندر ڈال دیے جائیں، حضرت عیسیٰ ؑ فرماتے تھے کہ ''تم سوئی کے ناکے سے اونٹ کو نکال دیتے ہو اور مچھر کو چھلنی میں چھانتے پھرتے ہو۔'' ہماری حالت بھی آج اس سے کچھ مختلف نہیں۔

مجرموں کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے اور بلاامتیاز پہنچنا چاہیے لیکن خیال رہے کہ تمام کارروائی منصفانہ اور صاف و شفاف ہو اور ہر کسی کے سیاسی انتقام سے بالکل پاک ہو، کسی جماعت یا شخصیت کو ذاتی یا سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا یقیناً فاش سیاسی غلطیوں میں شمار ہوتا ہے ایسی غلطیاں جو اتحاد و تنظیم کو پاش پاش کر کے ابتری اور انتشار کو جنم دیتی ہیں جس کا سلسلہ ادوار در ادوار اور نسل در نسل چلتا ہے اس سے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا سفر متاثر اور جمود کا شکار ہوتا ہے وقت سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔

اس کی گردش مختلف ادوار میں مختلف افراد رقوم اور جماعتوں میں گھومتی رہتی ہیں اپنی ہی ملکی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھیے اور دیکھیے کہ جس ملک کو ہم نے اللہ سے وعدہ کر کے اسلام کے نام پر 27 رمضان المبارک کو حاصل کیا اس میں آج تک اسلام کا نفاذ عمل میں نہ آ سکا، اس کے بننے کے بعد ہم باہمی نفرتوں اور عداوتوں کا ایسا شکار ہوئے کہ فرقہ فرقہ ہو گئے مختلف جماعتوں اور ٹولوں میں بٹ گئے، اس تقسیم نے ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا اور مسلمان، مسلمان کے ہی خون کا پیاسا ہو گیا۔

جس ملک کو ہم نے ایک قوم بن کر اسلام کے نام پر حاصل کیا اس قوم کا اتحاد قیام پاکستان کے بعد نظر کیوں نہیں آیا، کیوں ہم سیاسی، مذہبی اور لسانی نفرتوں کا شکار ہو کر رہ گئے، وہ مقاصد کہاں کھو گئے جن کے لیے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا آج وہ ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے تھے وہ ہم سے ترقی میں بہت آگے جا چکے ہیں اور ہم باہم دست و گریباں ہیں، خدارا! اس لامتناہی سلسلے کو اب بند ہونا چاہیے، آپس میں اسلامی اخوت، بھائی چارہ اور محبتوں کو فروغ دینا چاہیے، ہم پہلے ہی بے شمار مسائل و چیلنجز کا شکار ہیں مزید کے متحمل نہیں ہو سکتے، ملک میں امن، خوشحالی اور معاشی ترقی کے لیے باہمی اتفاق و اتحاد کامیابی کی سب سے اہم کنجی ہے اور اسی میں وطن عزیز کی معیشت اور جمہوریت کا استحکام مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں