’’NAB ریفرنسز‘‘ نیا پاکستان
چوہدری نثار تواس قدر مشتعل نہیں اور اگر کوئی بے قصور ہے تو اسے کس بات کا خوف۔ وہ تو پہلے سے زیادہ سرخرو ہو کر نکلے گا۔
عجیب اتفاق ہوا۔ بظاہر جس کا گمان تک نہ تھا کہ NAB ایسا کوئی ریفرنس سپریم کورٹ بھیجے گا جو وزیر اعظم کے خلاف ہو۔ یعنی عہدے پر موجود وزیر اعظم! بڑی حیرت کا مقام ہے۔
کیونکہ نواز شریف کے خلاف تو آپ کتنے ہی کیس دائر کر لیں۔ لیکن اگر وہ وزیر اعظم بھی ہیں تو یقین نہیں آتا کہ ہم ہیں؟ پاکستان ہے، وہی ملک وہی نظام۔ سچ مجنوں کی سی کیفیت ہو گئی جب میں نے خبر پڑھی۔ اور خوشی سے پھولا نہ سمایا جب اس پر حکومتی ردعمل دیکھا۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید جنھیں غالباً اس کام کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو گالی سے کچھ نیچے کی ساری باتیں کہہ دیں جو حکومت کے خلاف معمولی سا سچ بھی اگل دے۔
لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نیب کے لگائے گئے الزامات پر ایک پریس کانفرنس میں کسی قدر معقول طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اپنے تئیں جوابات دیے۔ جن کی حقیقت تو سپریم کورٹ میں ہی کھل سکے گی۔ بہرحال بہت مثبت تبدیلی ہے۔ بلکہ انقلابی۔ جو ہوائیں پورب پچھم سے آ رہی ہیں۔ جن بادلوں کا شور ہے جو آندھیاں لوگوں کو پاکستان سے اٹھا کر UK اور دبئی چھوڑ کر آ رہی ہیں۔ ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس کا پیش منظرتو وہی ہے جس کی خبر بنی۔ لیکن پس منظر کیا ہے۔ وہاں کون ہے "Who's there?" ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمیں یہ جاننے کا تجسس بھی نہیں۔ ہو گاکوئی؟ ہم تو محض اتنا جان کر بھی خوش ہیں کہ وہاں جوہیں۔ وہ منصف دکھائی دیتے ہیں۔ محب وطن نظر آتے ہیں۔ کیونکہ بھیجے گئے ریفرنسز پر مہر NAB کی ہے۔
ادارہ NAB ہی ہے۔ لیکن صرف NAB ہے؟دل نہیں مانتا ذہن بھی مصر ہے کہ ملک کے بے جان اداروں میں بے وقعت سرکاری آفیسرز میں اب روح پھونکی جا رہی ہے۔ کوئی ہے جس کا حکم ہے کہ کام کرنا ہو گا۔ اور بلا رو رعایت کرنا ہو گا۔ کوئی صوبہ، علاقہ، قبیلہ، قوم اس سے بالاتر نہیں۔ مجرم کوئی بھی ہو سزا بھگتنی ہو گی۔ الزام کی زد میں ہر شخص آئے گا خواہ وزیر اعظم ہو یا صدر۔ ادارے فعال ہو گئے ان کا پہیہ چل پڑا تو ملک کا چل پڑے گا ترقی کی شاہراہیں تعمیر ہونے لگیں گی۔ احتساب ہو گیا تو معاشرے میں تہذیب و تمدن آ جائے گا۔
لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات NAB پر اتنے برہم کیوں ہیں؟ کل تک تو وہ NAB کو قومی ادارہ قرار دے رہے تھے۔ آج وہ اسے سازش بننے کا دربار کہہ رہے ہیں۔ ایک آمر کے مخالفین سے انتقام لینے کا مقام قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ میگا کرپشن اسکینڈل میں تو وفاقی وزیر داخلہ کا نام بھی ہے۔
چوہدری نثار تو اس قدر مشتعل نہیں اور اگر کوئی بے قصور ہے تو اسے کس بات کا خوف۔ وہ تو پہلے سے زیادہ سرخرو ہو کر نکلے گا۔ اور ساتھ ہی اگر اس پہلو سے بھی معاملے کا جائزہ لیا جائے کہ ایک Sitting پرائم منسٹر اپنے خلاف عائد کیے جانے والے یا دائر کیے جانے والے کیسز و الزامات کا سامنا کرے تو ملک میں واقعی انقلاب آ جائے۔ انصاف کا بول بالا ہو جائے۔ ایک ایسا کلچر ملک میں جنم لے جس میں کوئی جرم کرتے ہوئے بے خوف و خطر نہ ہو۔ یہ سوچ کر کہ وہ حکومت میں ہے۔ طاقت میں ہے۔
کرسی پر ہے۔ لیکن بہت بہتر ہو گا کہ یہ احتساب صرف سول اداروں تک محدود نہ رہے سیاستدان ہی اس کی زد میں نہ آئیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے۔ اگر کوئی کہیں پر غلط ہے تو اس کے عہدے کو نہ دیکھا جائے اور اسے اس عہدے اور منصب سمیت انصاف کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا جائے۔ بات تو تبھی بنے گی۔ ورنہ یہ سیاستدان تو ماضی میں سالوں تک بھی جیلوں میں رہے۔ اکثر حریفوں نے بدلہ لینے کی غرض سے دوسرے پر کیس بنوائے۔ اور اسے جیل میں ڈلوا دیا جیسا کہ آصف زرداری 7-8سال جیل میں قید رہے۔ لیکن کوئی جیل نہیں گیا تو وہ بیوروکریسی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وہ ہمیشہ معصوم گائے بنے رہے جب کہ کرپشن الامان۔۔۔۔۔ سیاستدانوں کو بھی مات کر دیا۔ چند ایک ڈکٹیٹرز تو بڑی بڑی جائیدادیں،زمینیں، انڈسٹریز کھڑی کر کے ریٹائر ہوئے اور 10 یا 12 توپوں کی سلامی لے کر۔ یہ بھی غلط ہے۔ سدھار نہیں آئے گا۔ محدود احتساب علاج کلی نہیں۔ صحت عارضی ہے۔ مریض پھر تڑپے گا۔ مچلے گا۔ مریض جو ہمارا ملک ہے۔ اسے صحت یاب کرنا ہے تو ایکشن بلا تفریق و تخصیص ہو۔
گرمی کے حوالے سے یہ سال دنیا بھر کے لیے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ ہزاروں لوگ ہلاک ہو گئے اور پاکستان میں تو سہ آتشہ ہے۔ یعنی گرمی غضب کی اس پر بجلی، گیس پانی نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا حکومتی دعوے کہاں گئے۔ مانا کہ اس نے انرجی بحران کے خاتمے کا سال 2018ء کو قرار دیا تھا لیکن وہ معمول کی بہتری جو دو سالوں میں آ جانی چاہیے تھی۔ وہ بھی دکھائی نہیں دی۔ بلکہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ بادل مجسم ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے یقین ہی نہیں کرتے کہ دنیا نے اتنی ترقی کر لی۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے کنوئیں پر چاند نہیں تو کہیں بھی نہیں۔ کیوں کہ حالات ہیں کہ بدل کر نہیں دیتے۔ ہاں جمہوریت، مارشل لا۔ بلدیاتی نظام اور بہت کچھ بدلتا رہتا ہے۔