موسمی تبدیلی‘ تباہی اور تدابیر

دنیا میں جب سے صنعتی انقلاب آیا ہے، ہمارا ماحولیاتی نظام بری طرح متاثرہوتا گیا ہے


لیاقت راجپر July 14, 2015

دنیا میں جب سے صنعتی انقلاب آیا ہے، ہمارا ماحولیاتی نظام بری طرح متاثرہوتا گیا ہے اور آج ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ زمین پر بسنے والے ہر جاندار کے لیے تباہی کا سامان پیدا ہوگیا ہے جس میں انسانوں، جانوروں، پرندوں، آبی حیات اور دوسرے Resources بھی متاثر ہوگئے ہیں۔ اس موسمی تبدیلی کا نوٹس 1990 میں کچھ سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور یہ پیغام پوری دنیا میں پہنچایا جا رہا ہے جس کے لیے دسمبر 2015 میں فرانس میں ایک بین الاقوامی میٹنگ ہو رہی ہے جس میں پاکستان کی شرکت بھی متوقع ہے کہ موسمی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات اور تباہی سے کیسے بچاجائے جس کے لیے فنڈ بھی جمع کیے جا رہے ہیں۔

میں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جن خطرات کا سامنا ہے اس میں سمندر، دریا، آبی جھیلیں، صحرا، ایگریکلچر، زیر زمین پانی اور بڑے شہر ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو اس زمانے میں ٹرانسپورٹ کی سہولت اتنی زیادہ نہیں تھی لوگ پیدل چلتے تھے یا پھر گھوڑا گاڑی، اونٹ گاڑی، بیل گاڑی استعمال ہوتی تھی اور لمبے سفر کے لیے ریل گاڑی ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ سائیکل آگئی، پھر موٹرسائیکل پھر جیپ، کار، بس، رکشے، چنگ چی، مزدائیں جو پٹرول پر چلنے لگیں۔ فاصلے تو سمٹ گئے ہیں مگر چاروں طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا ہے جو ہمارے دل اور دماغ میں ہی نہیں بلکہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے space میں لاکھوں ٹن آلودگی چکر لگا رہی ہے جس کی وجہ سے Ozone لیئر میں سوراخ ہوگیا ہے اور سورج سے آنے والی شعاعوں نے ماحول کو گرم کردیا ہے۔

صنعتی یونٹس سے جو دھواں نکل رہا ہے، ہوائی جہازوں سے، ریل گاڑیوں سے، سمندری جہازوں سے اورگاڑیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں مل کر ہمارے فضائی ماحول کو اتنا گندا کردیا ہے کہ گرمی میں بہت اضافہ ہو رہا ہے جو دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ 2010 اور 2011 میں کتنی بارشیں ہوئیں جس سے بڑے سیلاب آئے جس کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں سے لوگوں کی املاک اور جانوں کا نقصان ہوا، جس میں مویشی اور فصل بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کراچی، بدین اور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان آتے آتے رہ جاتے ہیں مگر کب تک کیونکہ پاکستان کا سمندری علاقہ vulnerable ہے۔ اس میں سب سے بڑی وجہ اور بھی ہے کہ ساحلی علاقوں سے تمر mangrovsکے درختوں کو کاٹ کاٹ کر ختم کیا جا رہا ہے جو سمندری طوفانوں سے بچاؤکی بڑی ڈھال ہے۔ کراچی میں سمندری علاقوں کو تمر کے درختوں سے بالکل خالی کرکے وہاں پر فلیٹس، مارکیٹیں، پارکس بنائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی سیمینار منعقد ہوچکے ہیں کہ انھیں محفوظ کیا جائے ورنہ کراچی کو بڑا خطرہ ہے۔

اس کے ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں دریائے سندھ کا پانی نہیں چھوڑا جا رہا ہے جو آگے جاکر ڈیلٹا میں چھوڑنا ہوتا ہے جس سے سمندر کا نمکین پانی پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے کیونکہ دریا کے میٹھے پانی میں یہ خاصیت ہے کہ وہ نمکین پانی کو دھکیلتا ہے۔

اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے تمر کے درخت کو پیدا ہونے، بڑھنے میں مدد ملتی ہے اور اس پر پلنے والے پرندے، آبی جیوت اور مویشی وغیرہ پلتے ہیں جو Eco System کا حصہ ہے جو علاقوں کو طوفانی خدشات سے بچاتا ہے۔ یہ بات پالیسی میں شامل ہے کہ دریا کے پانی کا سمندر میں چھوڑنا پانی کا ضیاع نہیں ہے بلکہ قدرتی نظام کو بحال رکھتا ہے۔ اگر یہ نہیں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ آباد زمین کوسٹل ایریا میں تباہ ہوگئی، میٹھا پانی کھارا(Saline) ہوگیا ہے، مویشیوں کے لیے چارہ نہیں ملتا، ملاحوں کا روزگار مچھلی ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہاں سے نقل مکانی ہورہی ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے بجائے ہم اس کو بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں جسے ہم آج تک سمندر میں، دریا میں، آبی جھیلوں میں صنعتوں کے زہریلے پانی کو چھوڑا جا رہا ہے اسے روک نہیں سکے ہیں جب کہ اس کے لیے سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی بنائی گئی ہے، کورٹ بنائی گئی ہیں جو سب غیر فعال ہیں۔ سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں اب بھی شہر کے گٹروں کا گندا پانی دریائے سندھ، آبپاشی کینال میں چھوڑا جا رہا ہے جس کے لیے یہ قانون تھا کہ اس پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ میں صاف کرکے چھوڑا جائے گا جو نہ ہوسکا ہے نہ تو صنعتی زہریلے پانی کو ٹریٹ کیا جا رہا ہے اور نہ صنعتکاروں کے خلاف کیس رجسٹر کرکے انھیں سزائیں یا جرمانہ ڈالا جا رہا ہے۔

تیسرا یہ ہے کہ ہم نے سندھ میں درخت کاٹنے کا سلسلہ اتنا تیز کردیا ہے کہ کہیں بھی درخت بڑی مقدار میں نظر نہیں آتے۔ ہم نے تو سندھ کے بڑے بڑے جنگلات کاٹ کر ختم کردیے۔ درخت تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو صاف کرکے آکسیجن بناکر ماحول میں چھوڑتا ہے جو اب نہیں ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں اب گرمی بھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کبھی تو بارشیں کئی سال نہیں ہوتیں اور کبھی بہت زیادہ ہوتی ہیں جس سے مالی، جانی نقصان ہو رہا ہے۔

بارشوں کا موسم ہوتا ہے مگر اب گرمی میں اضافے سے یہ بارشیں مقررہ وقت پر نہیں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے آپ دیکھیں تھر میں کتنا قحط ہے جس سے جانور، پرندے، انسان اور دوسرے جاندار مرچکے ہیں۔ اس صورتحال سے ہمارا زیر زمین پانی میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اب کنوئیں کھودیں تو پانی تین سو فٹ سے بھی نیچے ملتا ہے اور اس میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ قدرتی آبی جھیلیں بھی ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے شہروں کو جو پانی ملتا ہے اس میں بھی کمی ہوگئی ہے۔ سندھ کے اندرPastures بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے مویشیوں کی پیداوار میں کمی ہوگئی ہے۔

پانی کی کمی کی وجہ سے خوراک کی پیداوار بھی کم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور زراعت سے منسلک آبادی نے شہروں کا رخ کرلیا ہے جس کی وجہ سے شہروں میں پانی، بجلی، رہنے کی جگہوں اور روزگار پر بوجھ پڑ رہا ہے اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس بڑھتی ہوئی آبادی نے ٹرانسپورٹ پر بھی وزن ڈال دیا ہے۔ جس کی مثال یہ ہے کہ اب حکومت نے موٹرسائیکل، کار، بس، رکشہ، چنگ چی خریدنے میں Lease کا سسٹم Introduce کیا ہے جس سے آلودگی نہ صرف شہروں میں بلکہ گاؤں میں بھی پھیل گئی ہے۔ جب پورے ملک کے اندر green gas میں اضافہ ہوگا تو فضائی ماحول تو خراب ہوگا جس سے گرمی میں اضافہ ہوگا جس سے glaciers بھی پگھلنے لگے ہیں اور سردیوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے اور دوسرے glaciers اگر نہیں جمیں گے تو پانی کی زبردست کمی ہوجائے گی۔

پانی نہ ہونے کی وجہ سے انرجی Crisis بھی جنم لیں گے جیساکہ آج کل پورے پاکستان میں بجلی کا بحران کئی سالوں سے چل رہا ہے جس کی وجہ سے خاص طور پر گرمیوں میں لوگوں کو بجلی نہ ملنے کی وجہ سے کئی اموات ہوگئی ہیں۔

ہمیں اس صورتحال سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ کرنا ہوگا کہ اپنی زندگی کے معمولات میں تبدیلی لانی ہوگی جیساکہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ جس کے پاس موٹرسائیکل یا کار ہے وہ دس قدم پر جانے کے لیے بھی اس سہولت کو استعمال کرتا ہے جس کو ختم کرنا ہوگا اور پیدل چل کر اپنا کام کریں تاکہ فیول کم استعمال ہو جو ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائے گا۔

ہمیں سولر سسٹم پر انحصار کو بڑھانا ہوگا، پانی کے ضیاع کو روکنا ہوگا، اگر ہم نہاتے ہیں، شیو کرتے ہیں تو پانی اتنا ہی خرچ کرو جتنی ضرورت ہے۔ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ اکثر کئی فلیٹس میں پانی کی ٹنکی بھر جاتی ہے اور ریٹرن نہ ہونے کی وجہ سے پانی باہر بہتا رہتا ہے۔ آبپاشی پانی بھی اکثر ضایع ہوجاتا ہے کیونکہ کمزور embankment کی وجہ سے کینال میں بریچ(Breach) پڑ جاتا ہے اور پانی بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے۔

بارش کا پانی بھی کہیں جمع نہیں کیا جاتا جس کے لیے چھوٹے Dams بنائے جائیں اور دریائے سندھ سمیت جتنے بھی پانی کے کینالز یا برانچز ہیں ان کی desiltation ہونی چاہیے تاکہ پانی زیادہ سے زیادہ جمع ہوسکے۔ سمندر کے پانی کو دبئی، سعودی عرب اور دوسرے ممالک کی طرح میٹھا بناکر کام میں لایا جائے۔ ماحول کو صاف ستھرا بنانے کے لیے نہ صرف نئے درخت لگائے جائیں بلکہ موجود جنگلات کو بچایا جائے۔ جب تک پانی کی قلت پر قابو نہ پایا جائے وہ فصلیں اگائی جائیں جس کے لیے کم پانی کی ضرورت ہو یا وہ بڑھتی ہوئی گرمی کو برداشت کرسکیں۔ اس کے علاوہ وہ اجناس لگائی جائیں جس کے لیے Fertilizer کی ضرورت نہ پڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں