وہ کون تھا

یہ جدوجہد آزادی اس گمنام مجاہد کے نام جس نے کشمیریوں کونئی راہ دکھائی اوران کے اندر جذبہ آزادی کا شعلہ بھڑکایا۔


بھارت بوکھلا کر اب کشمیریوں کی نسل کشی کے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کی مذموم حرکتوں کا مرتکب ہورہا ہے۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD: بچے نانا، نانی اور دادا ،دادی سے بچپن میں پریوں کی کہانیاں سنا کرتے تھے، لیکن میں کشمیر میں ڈوگرہ راج کی کہانیاں اور مظالم کی داستانیں سن کر جوان ہوا ہوں۔ بچے لوریاں سن کر سویا کرتے تھے اور مجھے آزادی کے نغمے سنے بنا نیند نہیں آتی تھی۔ جی ہاں کھلونوں کی جگہ میں نے صرف کتابیں پڑھیں کشمیر کی تاریخ کی، بچوں کے ادب کی۔ ساری زندگی اپنے رشتہ داروں کے چہرے دیکھنے کو آنکھیں ترستی رہیں۔ ہمارے بیچ ایک خونی لکیر جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، حائل ہے۔ ہمارے پاس ایک دوسرے کی یادیں محض چند بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کی صورت میں محفوظ ہیں۔ بس تصاویر دیکھ کر یادیں تازہ کرلیتے ہیں، کبھی کبھار دریائے نیلم کے کنارے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھ لیتے ہیں۔

میں کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں، کشمیر کی داستان الم بہت طویل ہے۔ یہ 1846 کا ایک سیاہ دن تھا جب مہاراجہ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ امرتسر طے پایا۔ اِس معاہدے کے ذریعے انگریزوں نے 75 لاکھ روپے نانک شاہی لے کر کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کردیا۔ معاہدہ طے ہونے کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں نے 1947 تک یعنی ایک صدی تک کشمیر پر حکومت کی۔ یہ سو سال کشمیر کے رہنے والوں کے لئے ظلم و بربریت کے سیاہ ترین سال تھے۔ کشمیری مسلمان غلامی، محکومی اور فقیری کا شکار تھے۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیر کو خریدنے کے ساتھ ہی کھیتوں کو جاگیرداروں کے حوالے کردیا تھا۔ اِن کھیتوں پر اگرچہ کشمیری کاشتکار فصلیں اْگاتے تھے تاہم جب فصل تیار ہوتی تھی تو جاگیردار آکے 90 فیصد اناج لے کر چلے جاتے تھے۔ اِس طرح سے جاگیردار غریب کاشتکاروں کا خون چوستے تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے کشمیری عوام پر بند تھے۔ ڈوگرہ حکمرانوں اور جاگیرداروں کا خوف اس قدر تھا کہ کوئی 'اف' تک نہیں کرتا تھا۔

https://twitter.com/FarhanKVirk/status/620403702986244096

یہ بات ہے 1930ء کی جب کشمیری مسلم نوجوانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رواج بڑھ چکا تھا، وہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تعلیم حاصل کرکے کشمیر لوٹے۔ اُس وقت جموں وکشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی اور مطلق العنان حکومت کا دْور تھا۔ کشمیر کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے ڈوگرہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کرنے کے ارادے سے اپریل 1930 میں فتح کدل سرینگر میں مفتی ضیاالدین کے گھر میں ریڈنگ روم کی بنیاد رکھی۔ ریڈنگ روم پارٹی نے جامع مسجد، خانقاہ معلی اور گاؤ کدل وغیرہ میں تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جس سے حکومت کے ایوانوں میں زبردست تہلکہ مچا۔ اْس وقت کے سرکردہ مذہبی اسکالروں اور ریڈنگ روم پارٹی نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کی اکثریتی عوام پر روا رکھی جانے والی ناانصافیوں کے خلاف مہاراجہ کو ایک یاداشت پیش کی جائے گی۔ یاداشت کو پیش کرنے والے نمائندوں کا باضابطہ انتخاب عمل میں آیا۔ اْن نمائندوں میں میر واعظ، مولانا محمد یوسف شاہ، مولوی احمد اللہ ہمدانی، شیخ محمد عبداللہ، خواجہ سعد الدین شال، خواجہ غلام احمد عشائی، آغا سید حسین شاہ جلالی، چوھدری غلام عباس وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔

یاداشت کو پیش کرنے کے تعلق سے لوگوں کو مطلع کرنے کیلئے 21 جون 1931 کو خانقاہ معلی کے صحن میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جلسہ کے اختتام پر جب شرکاء اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہونے ہی والے تھے کہ اسی موقع پر ایک نوجوان اٹھ کھڑا ہوا اور نعرے لگانا شروع کردیئے۔ لوگ اپنی جگہ پر دوبارہ بیٹھ گئے۔ اْس نوجوان نے اپنی تقریر میں کہا کہ بے شک مہاراجہ کی فوج کے پاس بندوقیں اور توپیں ہیں اور تم نہتے ہو۔ مگر تم پتھر اورلاٹھیوں کا استعمال کرکے مہاراجہ کی فوج کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ اْس نوجوان نے یہ بھی کہا کہ یاداشت پیش کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا اور اپنی تقریر کے اختتام پر مہاراجہ پیلس کی طرف انگلی لہراتے ہوئے کہا کہ اِس محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ لوگ ایک دوسرے سے اْس نوجوان کے بارے میں دریافت کرنے لگے مگر وہ ہر ایک کیلئے اجنبی تھا۔ اس اجنبی نوجوان نے لوگوں کے دلوں میں ایک ولولہ جوش اور جذبہ بیدار کردیا۔ کشمیری قوم اس بات پر سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ظلم و بربریت کا جواب محض یاداشت پیش کرنا نہیں بلکہ مسلح جدوجہد ہے، جس زبان میں ڈوگرہ حکمران کشمیریوں سے مخاطب تھے اسی زبان میں ان کا جواب دینا چاہئے۔ نوجوان کو ڈوگرہ پولیس گرفتار کرکے لے گئی اور اسے سینٹرل جیل میں منتقل کردیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس نوجوان کا نام عبد القدیر ہے۔ عبدالقدیر کے بارے میں آج تک علم نہیں ہو سکا کہ وہ کس نگری کا باسی تھا۔ ایک روایت ہے کہ وہ کشمیر میں ایک یورپی خاتون کے ساتھ بحیثیت گائیڈ آیا ہوا تھا۔ کچھ اس کا تعلق رائے بریلی اترپردیش سے بتاتے ہیں بعض کا کہنا ہے کہ وہ افغانی تھا اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کشمیری تھا۔

13 جولائی 1931 کو عبدالقدیر کے مقدمے کی کارروائی سرینگر کی سنٹرل جیل میں شروع ہونے والی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مقدمہ کی کارروائی سننے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ عدالت مقدمہ کی کاروائی چار دیواریوں کے بجائے جیل کے صحن میں شروع کرے۔ جب سیشن جج سنٹرل جیل پہنچا تو وہاں پہلے سے جمع لوگوں نے اْس کی گاڑی کو روکا اور اْن سے درخواست کی کہ عبدالقدیر کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ جج اشتعال میں آگیا اور اندر آتے ہی سب سے پہلے پولیس کو بلایا۔ اس دوران ایک مسلم نوجوان نے کھڑے ہوکر آذان کی آواز بلند کی جوں ہی اذان کی آواز بلند ہوئی پولیس کی جانب سے نوجوان پر فائر کیا گیا جس کی وجہ سے وہ وہیں پر دم توڑ گیا۔ اسی دوران ایک اور نوجوان نے آگے بڑھ کر اذان کو جاری رکھا اسے بھی گولیوں سے بھون ڈالا گیا یوں اذان کی تکمیل کے دوران 21 کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔ شہداء کو زیارت گاہ خواجہ نقشبند مشکل کشا کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا اور تب سے وہ مقبرہ ''مزارِ شہداء'' کہلایا جاتا ہے۔

ڈوگرہ پولیس کی اِس کارروائی کے خلاف کئی مہینوں تک کشمیر اور جموں خطے میں مظاہرے جاری رہے۔ اِس واقعہ کے بعد ڈوگرہ مطلق العنان و شخصی حکومت کے خلاف ایک منظم تحریک شروع ہوئی تھی اور لوگ بغیر کسی ڈر وخوف کے احتجاجی پروگراموں میں شامل ہونے لگے تھے۔ تب سے مسلسل جموں وکشمیر میں 13 جولائی کو سرکاری سطح پر بحیثیت ''یوم شہداء'' کے طور پر منایا جاتا ہے اور کشمیر کی جد وجہد آزادی اسی دن سے شروع ہو گئی ہے۔ 13 جولائی 1931ء کے دن کشمیریوں نے 21 قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر ایک عظیم انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔

https://twitter.com/NewPakistan2020/status/620445959340691458

ہندوستان میں مسلم لیگ نے ''دو قومی نظریہ'' کی بنیاد پر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تو ریاست جموں و کشمیر میں اس فکر اور نظریہ کی امین مسلم کانفرنس بنی۔ جس نے رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں باقاعدہ تحریک آزادی شروع کردی۔ پہلے ڈوگرہ حکومت اور اب بھارتی جبریت کشمیریوں کو محکوم رکھنے اور ان کی آواز کو دبانے کی حتی الوسیع کوشش کر رہی ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ آواز پہلے سے کہیں زیادہ بلند تر ہوجاتی ہے۔

بھارت بوکھلا کر اب کشمیریوں کی نسل کشی کے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کی مذموم حرکتوں کا مرتکب ہورہا ہے لیکن ان سب کے باوجود جموں سے لداخ تک ہر زبان پر آزادی کا نعرہ موجزن ہے۔ یہ جدوجہد آزادی اس گمنام مجاہد کے نام ہے جس نے اس کشمیریوں کو ایک نئی راہ دکھائی اور ان کے اندر جذبہ آزادی کا شعلہ بھڑکایا، یقیناً یہی گمنام لوگ ہی قوم کے عروج کا باعث بنتے ہیں۔

[poll id="539"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں