شباب کیرانوی فلمی دنیا کی تاریخ ساز شخصیت

فلمی دنیا کے لیے شباب کیرانوی کی بے بہا خدمات کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا تھا۔


یونس ہمدم July 11, 2015
[email protected]

فلمی دنیا کے لیے شباب کیرانوی کی بے بہا خدمات کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا تھا۔ وہ ایک تاریخ ساز اور سدا بہار شخصیت تھے فلم ''جلن'' کے بعد جب انھوں نے اپنی دوسری فلم ''ٹھنڈی سڑک'' کا آغاز کیا تو انھوں نے پہلی بار فلمی صحافی اور ادیب علی سفیان آفاقی کی خدمات حاصل کیں اور بحیثیت فلم نویس علی سفیان آفاقی نے ایک مزاحیہ کہانی کو فلم کے اسکرپٹ میں ڈھالا، شباب کیرانوی صاحب نے مسرت نذیر کے ساتھ کمال کو کاسٹ کیا اور اس طرح ایک نئی فلمی جوڑی منظر عام پر آئی۔

مسرت نذیر بھی ایک چلبلی اداکارہ تھی اور کمال بھی فلم میں ایک چلتا پرزہ اداکار بن کر ابھرا۔ فلم کے دیگر آرٹسٹوں میں مزاحیہ اداکار ظریف و سلطان کھوسٹ کی بھی ایک جوڑی بنائی گئی، ساتھ میں نئی اداکارہ نگہت سلطانہ کو بھی کاسٹ کیا تھا، یہ ایک خوبصورت مزاحیہ فلم تھی، اس نے باکس آفس پر بھی اچھی کامیابی حاصل کی تھی، اس کے موسیقار محمد علی منو تھے، اس فلم میں شباب صاحب کا لکھا ہوا ایک گیت ان دنوں بڑا مقبول ہوا تھا جو ڈوئیٹ کے انداز میں تھا، جس کے بول تھے:

او میری نرگس آجا میں بجا رہا ہوں باجا
او فور ٹوئنٹی راجا اس حرکت سے باز آجا

اس فلم میں ہیروئن کا نام نرگس رکھا گیا تھا اور کمال کے بالکل راجکپور کے انداز میں سر پر ہیئر تھے اور وائلن بجاتے ہوئے راج کپور کی اداکاری کی کاپی کر رہا تھا۔ اس گانے میں کمال نے بڑی کھل کر اداکاری کی تھی اور یہ اپنی پہلی ہی فلم میں ایک کامیاب ہیرو بن چکا تھا۔ فلم ''ٹھنڈی سڑک'' کی کامیابی نے فلم ''جلن'' کی ناکامی کے سارے داغ دھودیے تھے اور شباب کیرانوی کے حوصلے بڑھتے چلے گئے تھے۔

اس فلم کے بعد شباب صاحب نے فلم ''سپیرن'' بنائی جس میں رانی کے ساتھ وحید مراد کو کاسٹ کیا، اس فلم میں شباب صاحب کا لکھا ہوا گیت چاند سا مکھڑا گورا بدن۔ لاہور کی کسی فلم کا وہ پہلا احمد رشدی کا گیت تھا جس نے احمد رشدی کو لاہور کی فلم انڈسٹری میں شہرت کی بلندی عطا کی پھر شباب کیرانوی کی فلم ''مہتاب'' نے بھی کامیابی کے ریکارڈ قائم کیے اور احمد رشدی کے گائے ہوئے گیت گول گپے والا آیا گول گپے لایا ، نے فلمی دنیا میں ایک دھوم مچا دی تھی۔اور احمد رشدی کی یہ خوش قسمتی تھی کہ وہ مہدی حسن جیسے جید گلوکار کی موجودگی میں اپنے ورسٹائل انداز کی گائیکی کو منوا رہا تھا اور شہرت پا رہا تھا، مسلسل کامیابیوں کی وجہ سے شباب کیرانوی کی بحیثیت فلمساز و ہدایت کار ساری فلم انڈسٹری میں ایک دھاک بیٹھ چکی تھی۔

فلم ''ماں کے آنسو'' تو ایک ایسی کامیاب فلم تھی جس نے لوگوں کے دل موہ لیے تھے اور اداکارہ نیر سلطانہ کی اداکاری تو اپنے عروج پر تھی، اس فلم کا ایک گیت اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا۔ یہ گیت اتنا پراثر اور دل سوز تھا کہ سینما ہال میں یہ گیت سنتے ہوئے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو چھلک آتے تھے۔

اس گیت میں مجبور اور بے سہارا لوگوں کی بڑے اچھے انداز میں عکاسی کی گئی تھی۔ خاص طور پر فقیروں اور بھیک مانگنے والوں نے تو اس گیت کو اپنا قومی گیت بنالیا تھا۔ یہ گلی گلی گایا جاتا تھا، بسوں اور ٹرینوں میں بھی بھیک مانگنے والے افراد یہ گیت سنا کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ لیتے تھے اور اسی فلم کے بعد نیر سلطانہ کو اپنی جاندار اداکاری کی بنا پر ملکہ جذبات کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ اس فلم کے بعد شباب کیرانوی کی فلموں ''آئینہ'' اور ''فسانہ دل'' نے بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا تھا۔ اب میں آتا ہوں شباب کیرانوی کی ایک ایسی خوبصورت فلم کی طرف جس میں اداکار محمد علی اور زیبا کی اداکاری نے ایک مثال قائم کی تھی، یہ فلم تھی ''انسان اور آدمی'' اس فلم میں ایک گیت لازوال گیت بن کر ابھرا تھا جس کے بول تھے:

تو جہاں کہیں بھی جائے مرا پیار یاد رکھنا

فلم بین اس گیت کے دیوانے ہوگئے تھے، یہ اس دور میں محبت میں ڈوبے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا اور محبت میں ہارے ہوئے بے شمار ٹوٹے دلوں کے افراد اس گیت کو اشکوں کے ساتھ گنگناتے تھے۔ شباب پروڈکشن کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل تھا کہ اس ادارے کے ذریعے بہت سی فلموں میں بڑے نامور فنکار روشناس ہوئے جن میں عنایت حسین بھٹی، منور ظریف، سلطان کھوسٹ، ننھا، عالیہ، غلام محی الدین وغیرہ ہیں۔اب شباب پروڈکشنز کے ذریعے فلمی دنیا کی ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے۔ اسی دوران مشرقی پاکستان میں بنائی گئی فلم ساز و ہدایت کار احتشام کی فلم ''چکوری'' نہ صرف وہاں ہٹ ہوتی ہے بلکہ مغربی پاکستان میں بھی ہر شہر میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتی ہے اور ایک نیا باصلاحیت ہیرو ندیم ابھر کر آتا ہے۔

ندیم کی شہرت جنگل کی آگ کی طرح سارے پاکستان میں پھیلتی چلی جاتی ہے، بھلا ایسے میں شباب کیرانوی خاموش کس طرح رہ سکتے تھے۔ شباب کیرانوی نے ڈھاکا میں ندیم سے اپنی ایک فلم کے لیے رابطہ کیا۔ ندیم نے ابتدا میں کچھ نخرے کیے اور پھر اس نے ایک فلم کا ایک لاکھ روپے معاوضہ مانگا۔ میں یہ بات یہاں واضح کرتا چلوں کہ اس زمانے میں بڑے سے بڑا ہیرو بیس پچیس ہزار سے زیادہ معاوضہ نہیں لیتا تھا، اور یہ معاوضہ بہت ہوتا تھا مگر ندیم نے ایک لاکھ مانگ کر ایک بگ فائر کیا تھا۔

مگر شباب کیرانوی ہار ماننے والی شخصیت نہیں تھے وہ کاروباری انداز کو دیگر فلم سازوں سے زیادہ سمجھتے تھے انھوں نے ندیم کو اپنی فلم ''سنگدل'' کے لیے نہ صرف ایک لاکھ میں سائن کیا بلکہ ون چیک پے منٹ کے ساتھ ندیم کو لاہور بلوا لیا اور فلم میں دیبا کو ہیروئن لے کر شوٹنگ شروع کردی ۔ ''سنگدل'' میں بھی ندیم کو دلیپ کمار والے انداز میں پیش کیا گیا اور ''سنگدل'' نے کم وقت میں بننے کے باوجود کامیابی کی سند حاصل کرلی۔

شباب کیرانوی صاحب پر قدرت پہلے ہی سے مہربان تھی۔ شباب صاحب فلم ساز و ہدایت کار بن کر کچھ وقت کے لیے یہ بھول چکے تھے کہ وہ ایک شاعر بھی ہیں، صبح، دوپہر، شام اور رات شباب اسٹوڈیو میں صرف ان ہی کی فلموں کی شوٹنگز جاری رہتی تھیں، اب انھیں اپنی فلموں کے مکالمے اور گانے لکھنے کا وقت بھی نہیں ملتا تھا، پھر انھوں نے دوسرے رائٹرز اور گیت نگاروں کو بھی اپنے ادارے سے وابستہ کرلیا۔

اور اس دوران رائٹر ریاض الرحمان، شاعر مسرور انور، تسلیم فاضلی، خواجہ پرویز بھی شباب صاحب کی فلموں کے لیے لکھنے لگے تھے لیکن شباب صاحب کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔ ان کے خوبصورت گیتوں کی ایک بڑی فہرست ہے اگر ان تمام گیتوں کا یہاں تذکرہ کیا جائے تو میرے کالم کا دامن چھوٹا پڑ جائے گا پھر بھی چند سپر ہٹ گیت قارئین کی نظر ہیں:

٭محبت میں سارا جہاں جل رہا ہے
٭کیا ملا ظالم تجھے کہ دل کے ٹکڑے کردیے
٭تو مرا گیت ہے میں ہوں تیری صدا
٭ہائے ری محبت ہائے رے زمانے
٭اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا
٭آنکھیں غزل ہیں آپ کی
٭اللہ تیری شان یہ اپنوں کی ادا ہے
٭تو جہاں کہیں بھی جائے مرا پیار یاد رکھنا
٭میرے ہمدم میرے ساتھی میں تری دمساز ہوں

ان فلمی گیتوں میں جہاں نغمگی ہے وہاں شعری حسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ شباب کیرانوی کے دو صاحبزادے نذر شباب اور ظفر شباب بھی شباب پروڈکشنز سے بحیثیت فلم ساز و ہدایت کار منسلک رہے اور ان دونوں نے بھی کئی کامیاب فلمیں تخلیق کیں۔ یہ دونوں بھی شباب اسٹوڈیو سے جڑے ہوئے تھے مگر شباب کیرانوی کی طبیعت کے یہ بالکل برعکس تھے اور پھر ان دونوں بھائیوں میں ذہنی آہنگی کا بھی فقدان تھا۔ بعض معاملات میں کبھی کبھی یہ دونوں بھائی اکثر ایک دوسرے کے خلاف بھی ہوجاتے تھے۔ والد کی موجودگی تک تو ان دونوں بھائیوں کے اختلاف کھل کر بھی سامنے نہیں آئے مگر شباب کیرانوی کی وفات کے بعد ان کے دونوں بیٹوں میں کافی حد تک خودسری آگئی تھی۔ جو ان کے والد کی درویشانہ صفت کے بالکل برخلاف تھی۔ یہاں یہ بات صادق آتی ہے کہ چمن کی رونق اور حسن کو جس ذمے داری کے ساتھ ایک مالی ہی سنوارتا ہے اگر وہ مالی ہی نہ رہے تو پھر چمن کا حسن آہستہ آہستہ ماند پڑتا چلا جاتا ہے اور وہ چمن ایک دن اجاڑ ہوکے رہ جاتا ہے۔ یہی حال پھر شباب فلم اسٹوڈیو کا بھی ہوا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی کبھی کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ مصنف، شاعر، شباب کیرانوی نے پاکستان فلم انڈسٹری کو جہاں کامیاب ترین بے شمار فلمیں دیں وہاں فلمی دنیا کے چمن کی آبیاری کے لیے نیا خون بھی وافر مقدار میں فراہم کیا تھا اور فلمی دنیا کو بہت سے جگمگاتے ستارے دیے تھے۔ شباب کیرانوی ایک سدابہار شخصیت تھے فلمی دنیا کے لیے شباب کیرانوی کی بیش بہا خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا، وہ فلمی دنیا کی ایک تاریخ ساز شخصیت کی طرح ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔