بے بس لاچار اور ناتواں لوگوں کا حوصلہ
اسلام تو اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔ پھر یہ کون لوگ ہیں جو بے قصور
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک کے اقتصادی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی کو برسوں پرانے اور مسلسل پیچیدہ تر ہوتے چلے جانے والے مسائل سے نجات دلانے کے لیے صورتحال کا درست تجزیہ اور مسائل کی صحیح تشخیص شرط اول ہے، لیکن اس ناگزیر ضرورت کی تکمیل کا کوئی شعوری اہتمام بالعموم کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ روشنیوں کے شہر کراچی کو دانستہ اندھیرے کی عمیق کھائی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ تعصب کی آگ میں جھلسایا جا رہا ہے۔ تعصب بھی اتنے اقسام کے کہ جن کا شمار نہیں۔ نسلی، گروہی، لسانی، مسلکی تعصب کا اس حد تک بول بالا ہوچکا ہے کہ بقول ابن انشا ''یہاں پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی بستے ہیں، پاکستانی کہاں پائے جاتے ہیں؟ اس کی تلاش ہنوز جاری ہے۔''
حیرت کی بات تو یہ ہے سیاسی تنظیمیں بھی جو ملک و قوم کی خدمت کا دعویٰ کرتی ہیں، ان کے کارکن ہی زیادہ تر لاقانونیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب گلی گلی میں جرائم پنپنے لگے ہیں اور یوں بہمیت کا جو رقص ابلیس شروع ہوتا ہے وہ شرمناک ہی نہیں حیرت انگیز بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ اسلامی اصولوں کو بھلا بیٹھے ہیں، اس شہر میں مسلمان نہیں تاتاری بستے ہیں۔
اسلام تو اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔ پھر یہ کون لوگ ہیں جو بے قصور، بے دست و پا لوگوں کو ان ہی کے خون میں نہلا کر ختم کردیتے ہیں، راہ چلتے لوگوں پر، بسوں میں، گھروں میں گھس کر انسانی جانوں کا خاتمہ کردینا بھلا کسی جوان کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟یہ سچ ہے کہ بے بس، لاچار اور ناتواں لوگوں کا حوصلہ اب جواب دیتا جا رہا ہے۔
بریکنگ نیوز دیکھتے، پڑھتے، اسپتالوں میں کسمپرسی کے عالم میں پڑے جاں بلب لوگ، لاشیں، پوسٹمارٹم، سینے پیٹتے لوگ، چلا چلا کر روتی عورتیں۔ یہ ہے کراچی شہر کا ''مرکزی منظر نامہ'' جسے دیکھ کر یا بھگت کر اس شہر کا ہر باسی خوف میں مبتلا ہے کہ نہ جانے کب اس کے نام کی گولی اسے ڈھونڈتی آپہنچے، لوگ اپنے گھر سے روزگار یا کسی کام کے لیے نکلیں تو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے قدموں سے گھر لوٹیں گے یا کسی ایمبولینس میں ان کی واپسی ہوگی؟ یہاں ہمارے شہر میں اب زندگی بڑی بے اعتبار ٹھہر چکی ہے اور جس رات کی صبح کا یقین نہ ہو اس میں سونیوالا سوتا نہیں مر جاتا ہے۔ہمارے شہر کراچی میں ''بے حسی'' بھی اب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔
حادثہ یہ نہیں کہ کراچی میں آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں بلکہ حادثہ یہ ہے کہ اب حادثہ دیکھ کر بھی لوگ رکتے نہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ بیشتر انسانی ضمیر انسان سے پہلے مر جاتے ہیں لیکن انھیں دفن بہرطور انسان کے مرنے پر ہی کیا جاتا ہے۔ کوئی گھر، کوئی علاقہ کراچی میں محفوظ نہیں۔ لوگ بھوک، افلاس، زیادتی یا استحصال سب برداشت کرلیتے ہیں مگر ظلم اور ناانصافی اور اس کے نتیجے میں رگوں میں خون کے ساتھ گردش کرتا ہوا خون انھیں بن موت مار رہا ہے۔ جو گھر کے کفیل اپنی بیوی، بچوں یا والدین کو بے آسرا چھوڑ کر منوں مٹی تلے خون میں نہاکر دفن کردیے جائیں، پانچ لاکھ کی امداد کے بوگس چیک، سرکاری سطح پر دادرسی کے دو نمائشی جھوٹے بول کسی بھی انسان کے زخموں اور دکھوں کا مداوا نہیں بن سکتے۔ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی برسوں سے شہر نہیں مقتل بن چکا ہے، یہ غریب پرور شہر کراچی اب ایسا شہر ہے کہ جہاں موت سستی اور زندگی بہت نایاب، مہنگی اور دشوار ترین ہوگئی ہے۔
اس شہر بے اماں کے بدقسمت باسیوں پر نت نئی قیامتیں ٹوٹتی ہیں۔ دنیا حیرت سے ہمارا منہ تک رہی ہے کہ یہ کیسی ایٹمی قوت ہے کہ جہاں اتنی بری حکمرانی اور بدانتظامی ہے کہ شدید گرمی سے 1500 سے زائد لوگ دم توڑ گئے لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کراچی کی حیثیت ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے ملک کی 80 فیصد تجارت کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہے اور قومی خزانے کو ملنے والے محصولات میں کراچی کا حصہ کم ازکم 65 سے 70 فیصد ہے۔ یہی شہر پورے ملک کی 75 فیصد کفالت کرتا ہے جس کو ہر سیاسی جماعت اپنے مطلب اور دولت کمانے کی مشین سمجھتے ہے۔ اس شہر نے ہر دور میں پورے ملک کی کفالت کا ذمہ اٹھایا، ہر صوبے سے عوام جوق در جوق کراچی کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ کراچی کی آبادی دو کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ پانی، بجلی اور گیس کی گمشدگی یا شدید قلت ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکی۔
ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کراچی لاوارثوں، یتیموں، بے بس اور مجبوروں کا شہر ہے؟ نہ جانے ہم کراچی والے بھی کیوں اتنے ڈھیٹ، بزدل، بے حس اور لاچار ہوگئے ہیں جو ہر زیادتی، ہر مصیبت کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟ڈائریکٹر رینجرز سندھ نے حال ہی میں میڈیا کے ذریعے ہماری حکومت اور ہماری عوام کے ساتھ دنیا بھر کو بتایا ہے کہ کراچی میں سالانہ 230 ارب روپے کی غیرقانونی وصولی (بھتہ خوری) ہوتی ہے اور اس کام کی سرپرستی شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کرتی ہے۔
سندھ کی بااثر شخصیات بھی اس میں حصے دار ہیں اور یہ رقم دہشت گردی سمیت تمام جرائم میں استعمال ہوتی ہے، سیاسی سرپرستی میں منشیات کا کاروبار ہوتا ہے اور کروڑوں روپے ماہانہ گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، پانی کی غیر قانونی تقسیم کا کاروبار اور لینڈ مافیا کی سرپرستی بھی انھی میں شامل ہے۔غور کیجیے تو آپ کو علم ہوجائے گا کہ یہ سالانہ 230 ارب روپے اگر کراچی کی بدحالی کی درستگی کے لیے استعمال کیے جائیں، سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی اس سے کی جائے، لوڈ شیڈنگ اور پانی کے بحران کا تدارک بھی اس سے ممکن ہوسکتا ہے اور بے روزگاری کے عفریت سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرے کون؟ اور کیوں کرے؟ دراصل ہماری ریاست پر قانون کا نہیں دہشت گردوں اور بااثر جرائم پیشہ لوگوں کا راج ہے اور جہاں جنگ اختیار و اقتدار کی ہو وہ معاشرے اسی طرح تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ طبقے جو قوم کے دل و دماغ ہوتے ہیں وہ بناؤ کے بجائے بگاڑ پر تلے ہوئے ہیں، ان ظالموں سے چھٹکارا ہی وقت کی سب سے اہم اور بڑی ضرورت ہے۔
سالانہ 230 ارب روپے وصول کرنیوالی شخصیات کا تعلق نہ تو امریکا سے ہے، نہ افغانستان سے، نہ اسرائیل سے اور نہ ہی بھارت سے بلکہ یہ سفید پاکستانی اور اس سے بھی بڑھ کر مسلمان ہیں اور اس سے بھی زیادہ دکھ اور ستم کی بات ہے کہ حکومت وقت کا حصہ ہیں لیکن اس ملک کا قاعدہ اور قانون صرف بے بس اور مظلوم لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے، بااثر مراعات یافتہ کرپٹ طبقہ ہمیشہ سے قانون سے بالاتر چلا آرہا ہے اور یہی پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان اب دنیا کے ان ممالک میں نمایاں حیثیت حاصل کرتا جا رہا ہے جہاں معیشت کا نظام کمزور تر بلکہ نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ کالا دھن یا بلیک منی کے حجم میں اربوں روپے کا اضافہ ہو رہا ہے جس میں پاکستان کی ایلیٹ کلاس بیوروکریٹس، انڈسٹریلسٹ، بینکرز، تاجر، ممبران پارلیمنٹ غرض ہر بڑے شعبے کی مافیا کی حصے داری کے تذکرے کسی سے پوشیدہ نہیں، پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں اربوں ڈالر کی موجودگی کا علم بھی سبھی کو ہے۔
پاکستان میں معیشت کی تباہی میں بہت بڑا کردار کالے دھن، کرپشن، رشوت، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کا ہے۔ افسوس صد افسوس اب تو ہمارے معاشرے میں یہ حال ہوگیا ہے کہ کرپشن کرنے اور غیر قانونی ذرایع سے دولت اکٹھی کرنیوالے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جب کہ ایمان دار یا محب وطن ہونے کی باتیں کرنیوالے جھینپے جھینپے زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کسی علاقے یا محلے میں کرپٹ آدمی کو خواہ وہ سرکاری ملازم ہوتا یا کوئی ٹھیکے دار معاشرے میں اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ لوگ اپنے بچوں تک کو ان کی فیملی سے ملنے ملانے سے روکا کرتے تھے مگر اب گنگا الٹی بہہ رہی ہے، اب مالی لوٹ مار یا اخلاقی ایشو پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتا بلکہ اسے وی آئی پی درجہ دیا جاتا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران، ہمارے ملک کے نظام کو چلانیوالے عقل و ہوش کے ناخن لے لیں کہ قدرت زیادہ عرصے تک کسی کی رسی دراز نہیں رہنے دیتی۔ کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، پانی کی قلت، بجلی کے نظام کی خرابی، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، ٹریفک جام، گندگی، سیوریج کے مسائل، ٹرانسپورٹ کی بے لگامی، قبضہ گروپوں کی کارروائیاں اور شہر پر بعض گروہوں کے جبری کنٹرول جیسے مسائل نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ وفاق، صوبے اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے نتیجہ خیز عملی اقدامات کیے جائیں تو ان سب کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔