NABاور FIAبمقابلہ کرپشن

صوبۂ سندھ میں کرپٹ بیوروکریٹس و سیاستدانوں کی گرفت کی جا رہی ہے۔


[email protected]

پہلے صرف سنتے تھے اب کچھ کچھ نظر بھی آتا ہے کہ صوبۂ سندھ میں کرپٹ بیوروکریٹس و سیاستدانوں کی گرفت کی جا رہی ہے۔ پاکستان رینجرز،FIA اور NAB کے ادارے آپریشن میں پیش پیش ہیں۔ جب کہ انھیں پاک آرمی کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ حکومت سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں چل تو رہی ہے، لیکن موجودہ صورتحال سے بہت پریشان اور خوفزدہ ہے۔ کئی صوبائی سیکریٹریز، وزراء نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی۔ وزیر اعلیٰ نے البتہ ایسا کوئی Order اب تک نہیں لیا، لیکن اس میں شک نہیں کہ ان دنوں معروف وکلا کی چاندی ہو رہی ہے۔

جب کہ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ آپریشن سندھ اب کراچی سے باہر بھی رواں دواں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ان دنوں PPP اور MQM کے کئی رہنما یا تو ملک سے فرار ہو گئے یا ضمانت پر ہیں جب کہ بعض 90 دن کے ریمانڈ پر ہیں۔ خبر ہے کہ صوبائی حکومت NAB اور FIA کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ''الزام اختیارات سے تجاوز''

میرا خیال ہے بلکہ حکومت سندھ اسے مشورہ بھی سمجھ لے تو حرج نہیں کہ اس عمل سے آپ کو فائدہ ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ بلکہ NAB اور FIA پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گے۔ کیوں کہ دنیا کی کوئی عدالت جرم کو تحفظ نہیں دیتی، نہ ہی جرائم کو جاری رکھنے کے لیے Stay Order جاری کرتی ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ سندھ تو غالباً اس اشتباہ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جو ہمارے قانون کی کمزوری ہے۔

وہ حصہ جہاں آئین و قانون کو شفاف ہونا تھا تا کہ کسی قسم کا شک باقی نہ رہ جائے جس کا فائدہ مجرم کو ہو، لیکن ایسا نہ ہوا۔ لہٰذا بہت سے مجرم قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ نکلے۔ غالباً سندھ حکومت ایسی ہی کوشش میں مصروف ہے۔ حالانکہ معاملہ بہت صاف ہے کہ کوئی عدالت کرپشن کے خلاف ایکشن روکنے کا عبوری حکم نامہ جاری نہیں کرے گی، لیکن کوئی ماہر وکیل اختیارات کے ناجائز استعمال کا واویلا کر کے کچھ حاصل کر لے تو کہا نہیں جا سکتا۔

ویسے یہ بات بعید از عقل ہے کہ ہمارے محترم سیکریٹریز اور سندھ حکومت کے اراکین و وزراء خوفزدہ کیوں ہیں؟ اگر ان کے ہاتھ بقول ان کے صاف ہیں تو کسی سے خوف کے کیا معانی؟ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بدترین کرپشن میں ملوث سندھ کی بیورو کریسی، پولیس اور حکومت اپنے بچاؤ کے لیے آخری ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ گویا یہ مکمل ڈوبنے سے پہلے کہ کچھ مناظر ہیں۔ جب کہ ان کے سرپرست اور مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ایسے میں حکومت سندھ کیا کرے؟ ۔

خوف و مایوسی کا صحرا، تا حد نظر گرد و غبار، جیل کی سلاخیں، تفتیش کے غائبانہ مناظر نے اعصاب شل کر دیے۔ حالانکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ان دنوں ملک میں ہی ہیں۔ لیکن بلاول کی صلاحیتوں پر کبھی ان کے والد نے بھی بھروسہ نہیں کیا اور اب بھی جو ذمے داری انھیں سونپی گئی وہ اس سے زیادہ نہیں کہ ''کچھ نہیں کرنا ہے صرف بلاول ہاؤس میں بیٹھ کر خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لیں اگر حالات قابو سے باہر ہوں تو دبئی یا UK لوٹ آئیں اور اگر حالات میں بہتری کے آثار دیکھیں تو فوراً والد یا پھوپھی کو ٹیلی گرام کریں وہ پہلی دستیاب فلائٹ سے وطن عزیز تشریف لے آئیں گے۔'' کیوں کہ ''شہید بھٹو کا مشن ابھی ادھورا ہے۔ پاکستان ٹوٹا نہیں ہے پورا ہے۔'' پھر بلاول چاہیں تو UK جا سکتے ہیں۔

شاید بلاول اسی قابل ہوں، کیونکہ ایک باپ سے زیادہ کون اپنی اولاد کو جانتا ہو گا؟ ادھر پنجاب میں بھی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وہاں حال ہی میں صمصام بخاری نے مع احباب پیپلز پارٹی چھوڑ کر PTI میں شمولیت اختیار کر لی۔ صوبائی نائب صدر فردوس عاشق اعوان اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں اور پیچھے بھی ایک فوج ظفر موج ہے جو ان دنوں کام کی جماعت ڈھونڈ رہی ہے۔ PML-N تو شاید Overflow ہے۔ بہرحال عمارت جتنی قدیم اور بلند ہو گرنے پر اتنی ہی آواز آتی ہے۔ ملبہ بھی دور دراز تک پھیلتا ہے۔

مزید بدقسمتی یہ کہ PPP کے خاموش حلیف Silent Supporter ہمنوا و ہم خیال نواز شریف بھی اپنی حمایت کی دکان بڑھاتے نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ انھیں آرمی چیف کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ ملک کی کالی بھیڑوں کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ کرپٹ، راشی، ٹارگٹ کلرز، غنڈوں اور بدمعاشوں کی نرسری بنانے والے سیاستدان وہ لوگ ہیں جنھیں لاکھوں لوگوں نے اپنے علاقوں کی فلاح و بہبود کے لیے منتخب کیا؟ جو اسمبلیز میں آئین سازی کا حق رکھتے ہیں اور حال یہ ہے کہ کوئی برائی ہو، جرم ہو، مجرم ہو یہ ظالم سرخیل نکلتے ہیں اس میں۔ حتیٰ کہ انڈیا جیسے دشمن سے مدد مانگنے سے بھی نہیں چوکتے۔ چنانچہ میاں صاحب سندھ آپریشن پر خاموش ہیں۔ ورنہ تو باقاعدہ PPP کا ساتھ دیتے رہے۔

عمران خان دونوں پر مک مکا کی سیاست کا الزام غلط نہیں لگاتے۔ مجھے یقین ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں دہشت گردوں، مجرموں کو ٹف ٹائم ملے گا۔ خواہ وہ کسی پارٹی سے ہوں، کسی صوبے سے ہوں۔

موضوع سے ذرا ہٹیں تو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تو ہمیشہ متوقع رہتا ہے۔ لیکن اس قدر اضافہ 4 روپے یونٹ، اور وہ بھی ماہ رمضان میں، میرا مطلب ہے کہ آپ یہ فرمان عالیشان عید کے بعد بھی سنا سکتے تھے۔ اچھا تو وہ تب بھی نہیں لگتا لیکن حالت روزے کی نہ ہوتی۔ خیر۔۔۔۔۔ارے خیر پر ایک شعر یاد آ گیا حکومت کے نام، انھی کی نذر:

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں