عبداللہ حسین

ذہن میں یک دم بہت سی یادیں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگیں اور وہ سارا وقت ایک Flash Back میں ڈھلنا شروع ہو گیا


Amjad Islam Amjad July 09, 2015
[email protected]

عبداللہ حسین صاحب کا گھر میرے گھر سے پیدل دس منٹ کے فاصلے پر ہے لیکن ان کی وفات کی اطلاع مجھے ایک ہزار کلو میٹر دور سے آنے والے ایک فون کے ذریعے ملی جب کراچی آرٹ کونسل کے برادر ندیم ظفر نے مجھ سے اس خبر کی تصدیق چاہی میں نے کہا میں ابھی آپ کو پتہ کر کے بتلاتا ہوں ان کے گھر کا دورازہ حسب معمول بند تھا اور باہر یا ا رد گرد کوئی گاڑی یا ہلچل بھی دکھائی نہیں دی، سو دل کو تسلی سی ہوئی کہ یہ خبر نہیں محض ایک افواہ تھی۔

اس خیال سے کہ اب آیا ہوں تو ملتا چلوں کہ بہت دنوں سے ملاقات بھی نہیں ہو سکی تھی، کئی بار بیل دینے کے بعد اندر سے کسی ملازمہ کی آواز آئی جو کسی اور کو دروازہ کھولنے کے لیے کہہ رہی تھی، اتنے میں ساتھ والے گھر سے ایک آدمی نکلا اور اس نے بتایا کہ جنازہ وائی بلاک میں ان کی بیٹی کے گھر سے اٹھایا جائے گا کہ وہ آج کل اسی کے پاس تھے۔

دس منٹ کے اندر اندر بدلنے والی اس تیسری ذہنی کیفیت نے کچھ لمحوں کے لیے دماغ بالکل سُن سا کر دیا، اصغر ندیم سید کو فون ملایا اس نے بتایا کہ خبر درست ہے اور عبداللہ حسین کی میت اسپتال سے ان کی بیٹی نور کے گھر منتقل ہو چکی ہے اور وہ اس وقت وہیں سے بات کر رہا ہے۔ اس سے ایڈریس لے کر جب وہاں پہنچا تو ایک غیر معمولی طور پر ٹھنڈے اور نیم تاریک کمرے میںایک بیڈ پر ان کا طویل قامت وجود بے حس و حرکت پڑا تھا اور خواجہ میر درد کا یہ شعر جیسے فضا میں ٹھہرا ہوا تھا کہ ؎

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے' کیدھر چلے!

ذہن میں یک دم بہت سی یادیں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگیں اور وہ سارا وقت ایک Flash Back میں ڈھلنا شروع ہو گیا جس کا ہر منظر عبداللہ حسین صاحب کی کسی نہ کسی یاد سے متعلق تھا ان کا پہلا اور سب سے مشہور ناول ''اداس نسلیں'' بہت شوق سے پڑھا تھا لیکن اس کے مصنف کے بارے میں اس وقت تک کچھ پتہ نہیں تھا کہ کون ہے! کہاں رہتا ہے اور اس کے علاوہ اس نے کیا کچھ لکھا ہے؟ ناول کی کہانی اور کردار تو مزے کے تھے مگر نثر کا انداز قدرے نامانوس اور اکھڑا اکھڑا سا تھا بالکل ایسا ہی احساس اسی زمانے میں محمد خالد اختر مرحوم کی نثر پڑھ کر ہوا تھا یہ اور بات ہے کہ آگے چل کر ہر دو حضرات میرے پسندیدہ ترین نثر نگاروں میں شامل رہے اور اب تک ہیں۔

عبداللہ حسین کی تحریروں سے ملاقات ماہنامہ ''سویرا' ' کی معرفت بھی رہی جن میں ان کے ناولٹ ''ندی'' اور ''رات'' بالخصوص قابل ذکر ہیں کہ فنی پختگی اور کہانی پن کے اعتبار سے (میری رائے میں) یہ اداس نسلیں بھی سے کسی طرح کم نہیں اور اس عبداللہ حسین کے تخلیقی امکانات کو ہمارے سامنے لاتی ہیں جس نے آگے چل کر اردو ادب کو باگھ' فریب' قید 'نشیب ' واپسی کا سفر اور نادار لوگ جیسی بے مثال تحریروں سے مالا مال کرنا تھا۔

عبداللہ حسین سے پہلی براہ راست ملاقات 80 ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ہوئی ان دنوں وہ غالباً ابھی لندن میں ہی مقیم تھے اور کچھ دنوں کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے ان کے قدرے بے ڈھنگے سے قد اور ہر بات کے درمیان جھٹکے دار وقفوں کا اولین تاثر قدرے عجیب سا تھا لیکن دو باتوں کی وجہ سے اس کی طرف زیادہ دھیان نہیں گیا ایک تو اپنے پسندیدہ مصنف سے پہلی ملاقات کی excitement اور دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے مجھے یہ بتایا کہ ''یار سنا ہے تم بڑے مشہور شاعر وغیرہ ہو میری کچھ بھانجیاں بھتیجیاں تمہاری بہت FANٹائپ ہیں'' اب بالواسطہ ہی سہی مگر ایک بڑے ادیب کے منہ سے اپنی تعریف کس کو اچھی نہیں لگتی۔

سو ہوا یوں کہ اگلی چند باوقفہ ملاقاتوں کے بعد میں تحریروں کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا بھی مداح ہوتا چلا گیا کہ ان کا یہ مخصو ص بے لاگ' بے تکلف اور محب آمیز انداز ان کی شخصیت کا وہ رخ تھا جو اگر نایاب نہیں توکمیاب ضرور ہوتا جا رہا ہے کہ فی زمانہ زیادہ تر لوگ اپنے لیے تکبر اور دوسروں کے لیے تضحیک کا رویہ پسند اور اختیار کرتے ہیں۔ عبداللہ حسین کی شخصیت کی جس خوبی نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ ان کی اصول پسندی ' جرأت اظہار اور دوستوں کی عزت اور حقوق کی حفاظت تھی وہ منہ پر کی جانے والی تعریف نہ اپنے لیے پسند کرتے تھے اور نہ دوسروں کے لیے مگر میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ جہاں کہیں کسی نے کسی جینوئن آدمی کی تضحیک کی تو اس سے قطع نظر کہ یہ حرکت کرنے والا کون ہے وہ بھری محفل میں سختی سے اس کو ٹوکتے اور بہت کھل کر متعلقہ آدمی کی خوبیاں بیان کرتے چاہے وہ ان کا دوست ہو یا نہ ہو۔

میرے علم میں نہیں کہ وہ جوانی میں یار باش یا محفل باز تھے یا نہیں لیکن لندن سے مستقل طور پر پاکستان آنے کے بعد سے میںنے انھیں ہمیشہ کم آمیز' سکوت پسند اور شہرت گریز ہی پایا ان میں کسی حد تک منیر
نیازی مرحوم والی و ہ مخصوص کیفیت بھی تھی کہ
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں

انور مسعود کا بیان ہے کہ ناروے میں ایک جگہ بادشاہ اور اس کے کتے کا مجسمہ دیکھ کر منیر نیازی نے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے میں یہاں کا بادشاہ ہوتا۔ انور مسعود نے مذاقاً کہا کہ منیر صاحب اس کے لیے تو آپ کو ایک کتا بھی رکھنا پڑے گا۔ اس پر منیر صاحب نے اپنے مخصوص حیرت زدہ انداز میں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، اوئے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔

اس واقعے کے بیان سے میرا مقصد عبداللہ حسین مرحوم کی ایک ایسی ہی معصوم اور خوبصورت بات کو بیان کرنا ہے جس کی سادگی پر ہزاروں ''پرکاریاں'' قربان کی جا سکتی ہیں۔ ہوا یوں کہ چند برس قبل میرے گھر پر کچھ دوست چائے پر مدعو تھے اس وقت تک ابھی عبداللہ حسین کبھی مرے گھر نہیں آئے تھے سو جب انھوں نے میری دعوت قبول کرنے کے بعد مجھ سے راستے کی Directionپوچھی تو میں نے ایک مانوس مقام کی نشاندہی کے بعد روا روی میں کہا کہ وہاں سے بیس پچیس گھر چھوڑ کر بائیں ہاتھ پر میرا گھر ہے باہر نیم پلیٹ لگی ہے تمام مہمان جمع ہو گئے مگر عبداللہ حسین صاحب نہیں پہنچے کوئی آدھ گھنٹے کے انتظار کے بعد میں نے ان کے گھر فون کیا جو انھوں نے خود اٹھایا میں نے کہا ہم سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ بولے مگر میں تو واپس آ گیا۔

میں نے حیرت سے کہا' وہ کیوں؟ بولے یار جہاں سے تم نے مجھے بیس پچیس گھر بتائے تھے وہاں سے میں نے پورے پچیس گھر گنے مگر تمہارا گھر نہیں آیا سو میں واپس آ گیا ہوں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جہاں سے وہ واپس مڑے تھے وہاں سے صرف دو گھر بعد میرا غریب خانہ تھا۔ بعد میں تقریباً ہر ملاقات پر ہم نے آپس میں اس واقعے کا ذکر ضرور کیا اور ہمیشہ دل کھول کر ہنسے۔

میں نے عبداللہ حسین کی ادبی خدمات اور کامیابیوں کا زیادہ ذکر نہیں کیا کہ وہ تو جب تک اردو زبان اور ادب زندہ ہیں ہوتا ہی رہے گا اوراہل نظر ان کے مختلف پہلوؤں کی تحسین اپنے اپنے انداز میں کرتے ہی رہیں گے اس مختصر سی تحریر کا مقصد تو صرف اس عبداللہ حسین کی چند یادوں کو ایک جگہ جمع کرنا اور اپنے قارئین سے شیئر کرنا ہے کہ جو ذاتی سطح پر میرے لیے کل تک ایک سرمایا تھیں اور اب ایک اجتماعی ورثہ بھی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔