میرے دروازے پر

معاشرے میں برائیوں کی ذمہ داری والدین اور اساتذہ سمیت ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔


انیس منصوری June 30, 2015
[email protected]

HYDERABAD: ہم لوگ کتنے آئینے توڑیں گے؟ ہم کچھ بھی کر لیں نئے سے نیا آئینہ بنا لیں، ہمارے بدنما چہرے بدلنے والے نہیں ہیں۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بار بار آئینے توڑ دینے سے ہمارے اعمال بدل جائیں گے تو وہ بس خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ مسلمانوں کا ماہ مبارک جاری ہے اور ایک عشرہ ختم ہو چکا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس ماہ مبارک میں شیطان بند ہو جاتا ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں کھُل کر سامنے آ جاتا ہے۔ ہر وہ بنیادی ضرورت کی چیز جسے سستا ہو جانا چاہیے وہ اس مہینے میں مہنگی ہو جاتی ہے۔

ہر سال یہ ہی ماتم ہوتا ہے لیکن کوئی نہیں جو غریبوں کی آواز کو سُن سکے۔ کسی کے دل میں ندامت آ سکے۔ ہمیں ایک افطار کے لیے کھجور چاہیے ہوتی ہے وہ بھی مہنگی ہو گئی۔ جہاں لوگوں کی مجبوریاں اور ضرورت سامنے آتی ہے لگتا یوں ہے جیسے ملک کے درندے آزاد ہو جاتے ہیں۔ یہاں لوگوں کی زندگی آخری سانسیں لے رہی ہوتی ہے اور وہاں برف کو مہنگا کر دیا جاتا ہے۔ لوگ پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور پانی کے ٹھیکے داروں نے پانی کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔ گرمی سے جان بچانے والے AC خریدنے گئے تو اُس کی قیمت بڑھا دی گئی۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں تھا اور نہ کوئی ہو گا۔ سب صرف میڈیا میں اپنی دو خبریں چلانے کے لیے فوٹو سیشن کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے کاندھوں سے بوجھ اتار دیا ہے۔

لیکن اپنے کاندھوں سے کون کون سا بوجھ اتارو گے۔ یہاں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے چہروں پر کسی نے کالا رنگ پھیر دیا ہے۔ ہم دنیا کو جہاں اپنا چہرہ دہشت گردی کا دکھاتے رہتے ہیں تو کبھی ہم اپنا بدنما چہرہ کرپشن سے رنگا ہوا پیش کرتے ہیں۔

دنیا میں ہمارا کیا امیج بن چکا ہے اس کا جواب آپ کو وہ تمام لوگ دے سکتے ہیں، جو دنیا کا سفر کرتے ہیں۔ مالیاتی اداروں کو تو چھوڑ دیجیے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ہم سے ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ آخر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو کیا رہا ہے؟ ایک اور چہرے کا رخ دیکھیے جس پر دنیا ہم سے پوچھتی ہے کہ آپ کہ یہاں کیا بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہم پر یہ الزام تو تھا ہی کہ یہاں پر غربت سے تنگ آ کر بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے مزدوری کرتے ہیں، لیکن اس سے بری بات کیا ہو گی کہ اوسط پاکستان میں روزانہ دو بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور یہ وہ تعداد ہے جو کسی نہ کسی طور پر میڈیا میں سامنے آ جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں کام کرنے والے ایک ادارے نے جب یہ بتایا تو میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا واقعی پاکستان میں اتنے درندے رہتے ہیں جو ہر روز بچوں کی عزت سے کھیلتے ہیں، لیکن اس میں سے کتنے ملزمان پکڑے جاتے ہیں کتنے مجرموں کو سزا ہوتی ہے؟

حد یہ ہے کہ اس میں سے نصف ایسے بچے ہیں جن کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد انھیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے خود قاتل ہیں۔ کیا حکومتی سطح پر کبھی اس کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے گئے؟ ہر گز نہیں وہ اپنا دامن یہ کہہ کر بچا لیتے ہیں کہ ہم نے اس حوالے سے ٹھوس قانون سازی کی ہوئی ہے، لیکن یہاں قانون کہاں کہاں کام کرتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ معاشرے کے سدھار کے لیے کون سی ایسی حکمت عملی بنائی گئی کہ ایسے درندے سر عام نہ پھیرتے رہیں۔ اس کا بچوں پر کتنا اثر پڑتا ہے کیا ہم نے کبھی ایسے بچوں کی نشاندہی کی جنھیں ہماری ضرورت ہے۔ ذرایع کے مطابق یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن ماں باپ اپنی عزت بچانے کی خاطر اس میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کیا یہ خاموشی مجرموں کی حمایت نہیں ہے۔ ہم اپنا بدنما چہرہ اس لیے دھونا بھی نہیں چاہتے کہ کہی ہماری عزت خراب نا ہو جائے ۔

ہماری عزت کیا ہے؟ اس بات کا جواب بھی اسی رپورٹ میں موجود ہے صرف ایک سال میں ہمارے اس وطن میں 200 سے زائد بچوں کو عزت کے نام پر قتل کیا گیا۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر آپ میں سے کوئی عقل مند شخص مجھے یہ بتا دے کہ بھائی یہ کون سی عزت ہے کہ جس میں ہم اپنے بچوں کو قتل کر دیتے ہیں۔

کیا یہ دہشت گردی نہیں۔ جو معصوم بچوں کو عزت کے نام پر قتل کر کے خود کو بہت بڑا ہیرو سمجھتے ہیں۔ ہماری کون سی سیاسی جماعت نے اس پر کوئی منظم مہم چلائی ہے۔ مان لیتے ہیں کہ حکومت نااہل ہے وہ کوئی کام نہیں کر سکتی ہے لیکن ہمارے یہاں ہر گلی میں ایک مسجد موجود ہے۔ کیوں ہم ان کے ذریعے ایک منظم مہم نہیں چلا سکتے۔ اگر گرمی کی شدت سے لوگ مر رہے تھے تو کیوں حکومت نے ان مساجد کی مدد نہیں لی۔ ہم نے والدین کو کیوں یہ سوچ نہیں دی کہ خدارا اپنے بچوں کو قتل مت کریں۔

آہ! افسوس لیکن والدین بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ سوچیں تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ یہ تو سمجھ آ سکتا ہے خود کو بڑا کہنے والے تو روزگار، غربت اور گھریلو معاملات کی وجہ سے خود کشی کر سکتے ہیں لیکن جب بچے خود کشی کر رہے ہوں تو پھر یہ سوچنا ہو گا کہ ماں باپ بھی کیا اپنے بچوں کو نہیں سمجھ پاتے۔

مددگار کی اسی رپورٹ میں درج ہے کہ اس ملک میں ہر روز ایک بچہ خود کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ ہمارا معاشرہ کس جگہ پہنچ چکا ہے کہ بچے بھی خود کشی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ لیکن یہاں پر بھی ہمارا معاملہ سیاسی ہے۔ ہم معاشرے کو الزام دے دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ٹھیک نہیں ہے۔ کیا ایسے میں والدین کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ جس طرح سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام ڈال کر یہ سمجھتی ہیں کہ اُن کا کوئی قصور نہیں ہے اسی طرح والدین اساتذہ کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ اساتذہ معاشرے پر بوجھ ڈال دیتے ہیں اور معاشرہ حکومت کے گلے میں ہار پہنا دیتا ہے۔

ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ والدین، اساتذہ سے لے کر ہر فرد مل کر معاشرہ بناتا ہے اگر ہمارے یہاں برائیاں موجود ہے تو اس کا ذمے دار ایک شخص نہیں ہے بلکہ ہم سب اس کے ذمے دار ہیں۔ ہم اپنی ذمے داریوں سے آنکھیں چُرا کر یہ سمجھتے ہیں کہ طوفان نہیں آئے گا تو یہ ہم سب کی غلط فہمی ہے۔ بہت شور سنتے رہتے ہیں آپ یہاں پر کہ لوگ اغواء ہو گئے۔ مگر یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ماں یا باپ کو بلیک میل کرنے کے لیے بچوں کو اغواء کیا جاتا ہے۔ صرف پچھلے ایک سال میں ساڑھے چار سو سے زیادہ بچے اغواء ہوئے۔ مگر ہم سب نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ مختلف شہر میں بچوں کے اغواء کی نت نئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، لیکن ہم سب نے بے حسی کی چادر پہن کر خود کو گہری نیند میں ڈال دیا ہے۔

کسی ماں کا لال اگر اُس سے چھن جائے تو ماں جیتے جی مر جاتی ہے۔ ایک خاندان زندہ لاش میں بدل جاتا ہے۔ لیکن مجرم اپنی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اُسے کوئی ڈر نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے اُسے معلوم ہے کہ خوف کے سائے اتنے گہرے ہیں کہ کوئی اُس کے خلاف نہیں اٹھے گا اور حکومت جب تک جاگے گی تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اگر مجھے اور آپ کو اپنے بچوں کا تحفظ کرنا ہے تو یہ نہیں سوچنا ہو گا کہ یہ کسی اور کا بچہ ہے۔ ہمیں سب بچوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھنا ہو گا۔ جو آگ آج کسی اور کے گھر میں لگی ہے وہ آپ کے اور میرے طرف بھی آ سکتی ہے۔ اس لیے قدم بڑھائیں اس سے پہلے کہ ہمارے دروازے پر بد بختی دستک دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں