جینا تو ہے بھائی

کراچی شہر کو اب آفت زدہ قرار دے کر ہر طرح کی مدد سے، ترقی سے فراموش کر دیا گیا ہے۔


[email protected]

SUKKUR: اس قدر آگ، شدید گرمی، جھلسا دینے والی دھوپ، الامان، ﷲ اپنی پناہ اور حفظ وامان میں رکھے۔ (آمین) جس طرف دیکھو ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ملک میں بحران پہلے بھی کم نہیں تھے لیکن جو اب ہیں، جب ماہ رمضان بھی ہے۔ میرا خیال نہیں کہ کوئی بحران باقی رہ گیا ہو، بجلی، گیس، پانی تو پرانے بحران ہیں جو ملک بننے کے فوری بعد سے کسی قدر لاحق رہے اور اب تو پاکستانی قوم کے ہمراہ ملک میں بڑی عزت و احترام سے رہ رہے ہیں۔

ان تین بڑے بحرانوں کی خدمت ہر حکومت نے بڑی جانفشانی سے کی۔ ان کا بہت چرچا بھی کیا لیکن میں تو آج دیگر بحرانوں کی بات کر رہا ہوں۔ جن میں سے کچھ آفاقی و قدرتی ہوں گے باقی سب ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ مثلاً سورج کا آگ برسانا عین فطری ہے لیکن اس سے حفاظت کے لیے سائبان کا نہ ہونا غلطی ہے، رمضان ہمارا مقدس ترین مہینہ ہے، اس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور اﷲ رحمان و رحیم نے اس مہینے کو ہمارے لیے رحمت، مغفرت اور بخشش کا ذریعہ قرار دیا ہے لیکن ہم بجائے احترامِ رمضان کرتے۔

ہم نے اشیائے خور و نوش سمیت استعمال کی تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ اگر باہر سے کوئی ہمارا جائزہ لینے آ جائے تو شرطیہ نہیں کہے گا کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے۔ البتہ کچھ مدت یہاں گزار لے تو ہمیں خطۂ انسانی کی منافق ترین قوم کا خطاب ضرور دے دے گا۔ ایک ایسی قوم جن کی زبانیں ہمہ وقت احادیث مبارکہ بیان کرتی ہیں۔ آیات قرآنی کی تلاوت و ترجمے میں مصروف ہیں۔ دینی اذکار کا تبادلہ کرتی ہیں لیکن جن کے ہاتھ رشوت لینے سے، رزق حرام کمانے سے، کسی کو اذیت دینے سے، کسی کا مال ہڑپنے سے، کسی کمزور کو دبا لینے سے، کبھی نہیں چوکتے۔

کبھی نہیں کانپتے اور مقام حیرت و افسوس یہ ذکر خیر کرتے ہوئے۔ ﷲ کا نام لے کر یا اس کی قسم کھا کر بے ایمانی کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایسی وضع قطع بنا لی جاتی ہے کہ گاہک متاثر ہو جائے اور سوچے کہ دکاندار باریش ہے۔ چہرے پر سنت کا اہتمام ہے، پائنچے، ٹخنوں سے اوپر ہیں۔ لہٰذا ناپ تول پورا کرے گا۔ دام مناسب رکھے گا۔ بحیثیت قوم ہم تعصب کی بد ترین راہ چن کر اپنے ہم قوم کا ساتھ ہر ظلم و جبر میں دیتے ہیں۔

زبان کی بنیاد پر اسے اپنا نمایندہ چنتے ہیں اور پھر فخریہ کہتے ہیں کہ قوم تو بھائی آپؐ کو بھی پیاری تھی۔ لا حولہ و لا قوۃ الا باﷲ۔ یعنی قول و فعل کے تضاد میں ہر اس کام کا دعویٰ کرنا یا وعدہ کرنا جو انھیں کرنا۔ ہر اس بات کو اپنا ایمان ماننا جس کا کوئی عملی اظہار نہیں دینی احکامات پر عمل صفر لیکن دین میں نت نئے فرقے بنانا، ایسے فرقے جو اس کی اساس تک کو ہلا دیں، مساجد میں حاضری نہ ہو۔ لیکن مسلک کے لحاظ سے اس پر قبضے میں پیش پیش۔ ایسے ہی حکمران ہیں یا وہ حکمران جنھیں یہ قوم چنتی ہے۔ لہٰذا ایک دن تو یہ مقدر تھا۔

مقدور تھا کہ سورج نیچے آئے گا۔ قدرت انسان کو ہر پل متنبہ کرتی ہے لیکن سدھار کی صورت صفر ہو تو سزا کا کچھ حصہ نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ سندھ، کراچی اور ملک بھر میں ہوا۔ 1100 لوگ جو موسم گرما سے پہلے تھے نہ رہے۔ پانی نہیں ہے، پانی نہیں، چیخ و پکار تو جاری تھی بجلی 14 گھنٹے تک غائب رہتی ہے۔ کراچی جل رہا ہے، جھلس رہا ہے، نہ پانی ہے نہ بجلی، اخبار میں چھپ رہا تھا، غالباً حکومت نے بھی یہی فیصلہ کیا۔

''اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی ہے'' بہر حال صورت حال انتہائی گمبھیر ہے۔ بالخصوص کراچی میں دو کروڑ آبادی کا یہ شہر۔ جسے وزیر اعظم بھی عروس البلاد کہتے ہیں۔ صدر پاکستان بھی روشنیوں کا شہر مانتے ہیں اور ہر سیاسی، دینی جماعت کا رہنما تسلیم کرتا ہے کہ صرف کراچی سے 67% ریونیو مرکز میں جاتا ہے۔

یہ شہر جہاں اب مردہ خانوں میں جگہ نہیں، سرکاری اسپتالوں میں کوئی بیڈ خالی نہیں، قبرستانوں میں گورکن نہیں مل رہے، ہر طرف ہاہا کار ہے سسکیاں ہیں، ماتم ہے، آنسو ہیں، شور مچاتی ہوئی ایدھی کی ایمبولینس ہیں بچائو ارے کوئی ہے جو مدد کرے۔ ایمبولینس منگوا دے، میرا بیٹا شوہر، بھائی، والد مر رہا ہے یا اﷲ کوئی نہیں سنتا سب کو اپنی پڑی ہے تو ہی رحم کر دے یہ کراچی ہے۔

جس کے ورثا بے شمار ہیں، جس کے دعوے دار ان گنت، ہر قوم قبیلے، صوبے کا شخص اسے اپنی میراث کہتا ہے اور عملاً یہاں پورا ملک آباد ہے لیکن اس کی حقیقت یہی ہے جو آپ سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، اس حقیقت سے بھی اب انکار نہیں، کم از کم مجھے نہیں کہ اس شہر کو اب آفت زدہ قرار دے کر ہر طرح کی مدد سے، ترقی سے فراموش کر دیا گیا یہ کہہ کر کہ یہاں ایک مخصوص طبقے کے کالے پیلے لوگ رہتے ہیں جو بولتے کم ٹرٹر زیادہ کرتے ہیں۔ لہٰذا بس اعلانات کرتے رہو ہم کراچی کو پیرس بنا دیں گے۔

لندن بنا دیں گے، دبئی بنا دیںگے، ارے بھئی ووٹ تو لینا ہے نہ یہاں سے تو کچھ تو کہنا پڑے گا اور چلو کیا ہوا جو 1000 آدمی بھوک پیاس سے مر گئے۔ ایک تو بقول وزیر اعلیٰ شکر ہے زیادہ تر غریب و مزدور تھے۔ دوسرے بھیا دو کروڑ ہیں کیا فرق پڑ جائے گا۔ ارے اتنے تو مر ہی جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں۔ افسوس صد افسوس اس رویے کے بعد کہ لاکھوں نوکریاں تقسیم ہوں اور چند سو ان لوگوں کو نہ ملیں جو صوبے کی آدھی آبادی ہیں!! نوجوان پڑھ لکھ کر ڈگری بغل میں دبائے سالوں تک اداروں کے چکر کاٹیں اور پھر بھی کچھ نہ ملے تو وہ پھلوں کا ٹھیلا لگا لیں یا پرچون کی دکان کھول لیں تو پھر مدد کس سے مانگیں؟ جینا تو ہے بھائی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں