سب ’’جوکر‘‘ لگتے ہیں

پر انسان کو خدا نے عقل و شعور زندگی دی ہے مسئلہ دولت کا ہے فرق بھی دولت کا ہے۔



ISLAMABAD: است اور نیست کا سلسلہ بہت عجیب اور دلچسپ ہے آپ کسی کی بات کررہے ہیں کہ وہ صبح مجھ سے کہہ رہا تھا کہ کوئی آپ کو ٹوکتا ہے کہ ان کا تو انتقال ہوگیا،آپ حیرت سے اس شخص کو دیکھتے ہیں نا اعتباری کے لہجے میں کہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، ابھی دو گھنٹے پہلے تو وہ میرے ساتھ تھا مجھ سے بات کر رہاتھا اور پھر آپ کو بتایاجاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے ایک گھنٹے پہلے ان کا انتقال ہوگیا آپ حیرت اور افسوس میں سوچتے ہیں یار وہ تو کہہ رہا تھا کہ ان ہی جملوں میں جواب تک ہم نے پڑھے ہیں، فلسفہ حیات اور موت موجود ہے، شعر تو پرانا ہے جن کا مصرعہ ہے کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ''پل'' A moment ایک لمحہ، موجود ، ناموجود مشینری نے کام چھوڑ نہیں دیا، مشینری کو حکام مل گیا کہ بس اب رج جاؤ، تمہارا کام ختم ہوگیا۔کیا ہے حیات کیا ہے موت؟ اگر کیا ہے حیات بعد الموت اس کے لیے کسی ضخیم کتاب کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے زندگی کی کتاب کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔

پر انسان کو خدا نے عقل و شعور زندگی دی ہے مسئلہ دولت کا ہے فرق بھی دولت کا ہے۔ دولت کے حصول کے ذرائع، ملازمت، کاروبار ہمیشہ سے رہے اور ایک ذریعہ زراعت ہے جسے ہم کاروبار ہی کہیںگے کیوں کہ اس میں بھی محنت اور Investment دونوں ہیں کیا کمال ہے آپ فصل لگاکر کہہ نہیں سکتے کہ آپ یہ فصل خدا کے فضل کے بغیر کاٹ بھی سکیںگے یا نہیں۔ رات سوئے ہیں کل نوکری پر جانے کو آنکھ کھلے گی یا نہیں؟ ہے نا کمال کہ ایک ہے وہ جو سارے نظام کے کل پرزوں کو چلارہا ہے، ہر ایک پرزہ، ہر ذی حیات وہ سب کچھ حاصل کررہاہے جو اس کی ضرورت ہے۔

مگر اس زمین پر انسانوں نے اپنے خدا بنائے ہوئے ہیں، یہ امریکا ہے، یہ یورپ ہے یہ عرب بلاک ہے یہ عجم ہے ان زمینی خداؤں نے زمین پر کیا فسادات پھیلائے ہوئے ہیں یہ آپ آج کل تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ یہ سارے جھوٹے خدا آج کل میدان میں ہیں۔

خیر بات ہم کررہے تھے اس ''پل''Moment کی جس کے اس طرف سب کچھ ہے اور اس طرف تاریکی یا روشنی یہ تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اس کا کیا وژن مقرر کیا ہے اور کس طرح آنے والے وقت کو اس وقت دیکھا ہے جب آپ ''بہت کچھ'' بلکہ اپنے غلط انداز کے مطابق ''سب کچھ تھے'' پر ''بہت کچھ'' اور ''سب کچھ '' کا انجام بھی لاش ہے اور ''جو کچھ نہیں'' اس کا انجام بھی لاش ہے ہر لاش دفن کردی جاتی ہے بندہ کتنا بھی V.V.V.V.I.P ہو انجام تو لاش کا قبر ہے اور یہ انجام ہر لاش کا ہو ہی جاتا ہے اور کیونکہ زمین کے نیچے بندے کا زور نہیں چلتا لہٰذا وہاں تیرے دربار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے یعنی محض ایک لاش! اب اس کے بعد کے مراحل پر مذہب کے اور عقیدے کے مطابق جو بھی ہوں وہ ان کو مبارک ہوں ہم تو صرف بندے کے لاش بننے کے مرحلے تک کی بات کرتے ہیں آگے خدا جانے۔جانتا تو خدا یہاں بھی ہے! ہم جاننے کی کوشش نہیں کرتے، سچ کو چھپانے کی عادت نہیں جاتی ہماری، جرم کرتے ہیں اوپر سے VIP کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں سچ پوچھیے اور کوئی پرانا زمانہ میری بات کا یہ سرمایہ پرست مجھے سب ''جوکر'' لگتے ہیں جیسے جوکر ایک شو میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے ناک، کان اور چہرے کے خدوخال ایسے بنالیتا ہے کہ لوگوں کو دلچسپ لگے بس یہی کچھ سرمایہ رپست لوگ کرتے ہیں۔ بڑا بنگلہ، بڑی کار، سونا، زمین، جہاز اور بڑے جوکر بھی جب بھوک لگے تو روٹی ہی کھاتے ہیں بڑا جوکر سونا نہیں کھاتا، روٹی ہی کھاتا ہے۔

روٹی کھانے کے لیے ساری دنیا کا جھوٹ بولنا، ساری دنیا کو دھوکا دینا اور آخر میں روٹی؟ بس اے انسان تیری اوقات دو روٹیاں ہی تو ہیں ان کے لیے کیا کیا تماشے تو کرتا ہے۔ انسانوں پر بم برسارہا ہے۔ انسانوں کو خون میں نہلارہا ہے زمین کو تنگ کررہاہے بندوں پر اور پھر دو روٹی شاید یہ دو روٹی پوری غریب اچھی طرح کھالیتا ہے کیوں کہ اسے اگلی دو روٹیوں کے لیے پھر سے محنت کرنی ہوتی ہے مگر یہ بڑے جوکر ان سے تو دو روٹی بھی ہضم نہیں ہوتیں ان کو ہضم کرنے کے لیے دوا کھانی پڑتی ہے یہ دوا اب غذا کا حصہ ہے یعنی جسم کو بھی ناکارہ کردیا ہے کہ وہ بھی اپنا کام چھوڑ رہا ہے۔

جب کوئی کسی کو قتل کررہاہوتا ہے تو وہ بس ایک لمحہ ہوتا ہے کہ اگر فیصلہ درست ہوجائے تو ایک انسان بچ جاتا ہے بچنے والے کے پاس بھی ایک عمر ہے مارنے والے کے پاس بھی ایک لمحہ، سوچتا ہوں کہ ساری زندگی سب کچھ کرکے واپسی کو لوگ کس قدر مشکل سمجھتے ہیں ، واپسی کا سفر ایسا کیوں ہے؟ ہم افسردہ کیوں ہیں؟ یہ دنیا تو ایک کرائے کی سائیکل تھی نا، گھنٹہ پورا ہوگیا تو سائیکل تو سائیکل والے کو واپس کرنی ہے نا۔یہ زندگی بھی ایک سائیکل تھی یا ہے، کرائے پر ہے واپس کرنی ہے، مالک نے کچھ کام بتائے ہیں اور کرائے کی سائیکل زندگی دی ہے ، جاؤ یہ کام کرکے آؤ، میں کوئی علامہ مولوی یا اس قسم کے کسی رتبے کا نہ حق دار ہوں ، میں ایک انسان ہوں جس کے پاس زندگی، کرائے کی سائیکل زندگی ہے بات کررہاہے۔

تو ہم نے کچھ کام کرنے تھے کرنے ہیں عبادت ہر مذہب میں ہے عبادت کا مقصد Real Super Powers کو تسلیم کرنا اور اس کے سامنے یہ اعتراف کرنا ہے کہ اس سائیکل کا تو مالک ہے میں محض اسے اپنے کاموں میں استعمال کررہاہوں تاکہ خود بھی خوش ہو جاؤں اور تیری سائیکل کا کرایہ بھی ادا ہوجائے۔جب سجدہ ادا کرتے ہیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ یہ سب کچھ میں انسانوں کے بارے میں لکھ رہا ہوں صرف مسلمانوں کے بارے میں نہیں تو ہماری پیشانی کو ایک ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے یہ موسم کی ٹھنڈک نہیں ہے یہ اندر کے موسم کی ٹھنڈک ہے ہر انسان کے اندر ایک موسم ہے۔

سائنس اور مذہب کے جھمیلے میں پڑنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے جن کے پاس اچھی کوالٹی کے سائیکل ہیں وہ یہ کام کرتے ہیں کرتے رہیں کچھ نہیں ہونا ہوگا تو اس وقت جب انسان مطمئن ہوجاتے اور مطمئن وہ نہیں جو حکمران ہوتے ہیں سرمایہ دار ہوتے ہیں دولت پر مرنے والے ہوتے ہیں ،ہوتے ہیں؟ نہیں ہوتے! ہوتے تو اسے بڑھانے اور خود کو مٹانے پر نہ لگ جاتے کرائے کی سائیکل کو دو نمبر کے کاموں میں استعمال نہ کرتے اس سے وہی کام لیتے جس سے مالک اور سائیکل استعمال کرنے والا دونوں خوش ہوتے، یہ میں سب کے خدا کی بات کررہاہوں۔

دنیا بھر میں لوگ جسے Real Super Powers مانتے ہوں وہ ایک ہی ہے خدا، سب کا خدا، اﷲ یوں نہیں لکھا کہ بہت سے لوگوں قوموں کی بات کررہاہوں ان کے یہاں خدا ہے GODہم اﷲ کہتے ہیں کیوں کہ ہمارے خیال میں اس نام میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو Real Super Powers میں ہونی چاہیے یہ ہمارا معاملہ ہے مسلمانوں کا، دوسری اقوام کا تصور کچھ اور ہوسکتا ہے وہ خدا ہی جانے اور وہ جانیں،تو است اور نیست کے درمیان ہے زندگی موجود، ناموجود ''موجود'' کیا ہے Power of Action ''عمل کی قوت'' اور ناموجود کیا ہے۔

Failure of Action عمل کی ناکامی کیوں؟ Power نہیں ہے USBکو دیکھ کر بھی یہی احساس ہوتا ہے چھوٹا سا ٹکڑا کیا کچھ اپنے اندر چھپائے ہوئے PC میں لگاؤ OPENکرو سب کچھ سامنے، سائنس نے بہت مدد کی ہے مذاہب کو سمجھنے میں، مذہب کے ٹھیکیداروں نے دنیا بھر کے سائنس کو Condemedیوں کیا کہ وہ ان سے بھی زیادہ روشن دلیل کی صورت رکھتی ہے تو وہاں وہی کرائے کی سائیکل نے اسے رد کردیا پر اب نہیں، سائنس مذہب کی گواہ ہے تجربہ گاہ ہے مذہب کی شرط یہ ہے کہ کرائے کی سائیکل درست استعمال کی جائے۔تماشے ہورہے ہیں بین الاقوامی سیاست نے اب مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیوں کہ ان کو اسرائیل کا درد ختم نہیں ہوتا پے در پے شکستوں نے اسرائیل کو ایک بھیڑیا بنادیا ہے اور اقوام عالم کا بڑا حصہ اس بھیڑیے کا رکھوالا، پر سب یہ بھول جاتے ہیں کچھ بھی کرلو وہ کرائے کی سائیکل دیتا رہے گا۔

دنیا میں انسان آتے رہیںگے نہ تم موت کسی کو دے سکتے نہ زندگی پر سارے اختیار Real Super Power کے ہیں تم جنھیں موت دے رہے در اصل انھیں زندگی بخش رہے ہو کھیل کے اصول تمہارے طے کردہ نہیں ہیں۔ سائیکل کے مالک کے ہیں فیصلہ ان پر ہی ہوگا ان سے ہی ہوگا سب اپنا اپنا گھنٹہ پورا کرکے چلے جائیںگے آتے رہیںگے جاتے رہیںگے آپ بھی ہم بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں