تم چُپ ہی رہو

اسے میں بدقسمتی کہوں یا پھرکم عقلی کہ یہاں پر ہر روزکیلنڈر پر ایک تاریخ کا اضافہ ہوجاتا ہے


انیس منصوری June 28, 2015
[email protected]

اسے میں بدقسمتی کہوں یا پھرکم عقلی کہ یہاں پر ہر روزکیلنڈر پر ایک تاریخ کا اضافہ ہوجاتا ہے لیکن یہ ملک اپنے کل سے نکل ہی نہیں پاتا ۔ یہاں گھڑی دیکھ کر دن بدل جاتا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ ہمیشہ گھڑی کی سوئیاں12 نمبروں سے آگے ہی نہیں بڑھ سکتی ۔ اس زمین پر کوئی بے وقوف جتنی محنت کر لے آخر میں فصل صرف کانٹوں کی ہی ہوتی ہے ۔

وہ لاکھ کوشش کرے کہ زمین زرخیز ہوجائے وہ اپنا خون پسینہ ایک کردے اور پھر اپنی ساری عمرکی محنت کو مٹی میں ڈال دے وہ آسمانوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر لاکھ بار اپنی آرزو بتائے لیکن ہونا وہ ہی ہے جو اس زمین کے خود ساختہ خدا چاہتے ہیں ۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا پر ناجانے کیوں وہ اپنی تھوڑی دیرکی بادشاہت میں اتنے مغرورہوجاتے ہیں کہ انھیں ہم جیسے عام انسان کیٹرے مکوڑے سے زیادہ نہیں لگتے ۔آخرکیا وجہ ہے کہ ہم نے آج تک دوسروں کی تاریخ تو دور کی بات اپنے ماضی کے تجربوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا؟ یا ہم سیکھنا ہی نہیں چاہتے اور جو ہم نے سیکھا ہے وہ بھی صرف اپنی بادشاہت کو قائم رکھنے کا ہنر سیکھا ہے ۔

آپ مجھے بتا دیجیے کہ ایم کیو ایم کے متعلق آنے والی پرانی طرزکی نئی خبروں میں کتنی جان ہے ۔ اور اس میں سے کون سا ایسا نیا پہلو ہے جو پاکستان کے لوگوں کو پہلے سے معلوم نہیں ہے؟ پچھلے 25 سالوں سے یہ خبریں سُن سُن کر ہمارے کان پک چکے ہیں لیکن اس سے متحدہ کی حمایت میں کیا فرق پڑا ہے ؟ کبھی اس بارے میں سوچا ہے کہ آخر اس سے زیادہ مضبوط انداز میں خبریں لائی گئیں یا پھر اُن کے خلاف پراوپیگینڈا کیا گیا مگر سب نے دیکھ لیا کہ NA246 کے الیکشن میں کیا ہوا ۔

حالیہ دنوں زیر بحث رہنے والی خبر میں اتنی طاقت نہیں جنتی طاقت سے میڈیا اور کئی حلقے یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ اب متحدہ کے گھر سے اُس کو شکست ہوگی ۔ صرف سوچنا یہ ہے کہ ان سب خبروں کی بھرپورتشہیر کے باوجود ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگ اب بھی متحدہ کی حمایت میں لاکھوں ووٹ ڈال دیتے ہیں ؟ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے ۔اس کے متعلق یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اس کے کئی اعلیٰ سطح کے لوگ مالی کرپشن میں ملوث ہیں ۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ آج بھی ''دلا تیر بجاں...'' کے گانے پر لوگ رقص کرنے لگ جاتے ہیں ۔ کیوں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ لیاری سے پیپلز پارٹی کو نکالا نہیں جاسکتا ؟ کیا عوام بے وقوف ہے جو انھیں ووٹ دیتے ہیں یا پھر وہ سمجھتی ہے کہ یہ ساری مہم کسی سازش کا حصہ ہے؟ کیا یہ سب کچھ اس بھونڈے انداز سے کیا جاتا ہے کہ اس میں اتنے شکوک پیدا ہوجاتے ہیں کہ ووٹ دینے والا بھی سمجھتا ہے کہ کس کا کہاں قصور ہے اورکون کیا سازش کررہا ہے ۔

مان لیتے ہیں کہ متحدہ پر لگائے گئے تمام الزامات ٹھیک ہیِں ۔ تو آپ مجھے سمجھا دیجیے کہ یہ ہی الزامات تو اُس کے قیام کے پہلے دن سے جاری ہیں تو پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ نواز شریف نے انھیں دو بار اپنے ساتھ حکومت میں شریک کیا ؟ یہ الزامات اگر ٹھیک ہیں تو پھر یہ بتایا جائے کہ وہ مشرف دور میں حکومت میں کس طرح شریک ہوئے ۔

کیونکہ اُس وقت تو تمام محب وطنوں کو حکومت میں جگہ دی جارہی تھی ۔ مان لیجیے کہ بھٹو کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی پرکرپشن کے الزامات تھے تو اُسے پاکستان کے لوگوں نے بار بار منتخب کیوں کیا ؟ اور اگر آپ کو شروع سے ہی معلوم تھا کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیں تو پھر اُن سے معاہدے کیوں کیے ؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو ایک عام آدمی پوچھ رہا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ اُن کا کہنا یہ بھی ہے کہ جب ان دونوں جماعتوں سے کوئی کام ہوتا ہے تو یہ محب وطن اورکرپشن سے پاک ہوجاتی ہیں لیکن جیسے ہی کام ختم ہوجاتا ہے تو اُن پر وہی الزامات لگا دیے جاتے ہیں جس کا لیبل ان کے ساتھ چسپاں کردیا گیا ہے ۔ایک بار یہ فیصلہ کیوں نہیں ہو جاتا کہ ہماری پالیسی کیا ہے ؟

ایک اور پرانی گولی کو نئے پیکٹ میں ڈال کردیا جاتا ہے ۔ جس زمانے میں بھٹو کے خلاف تحریک زور پر تھی تو کہا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی تو بہت اچھی ہے بس اُس میں سے بھٹوکو نکال دیا جائے تو ہمیں سب منظور ہیں۔ یہ ہی فارمولہ امیر مملکت ضیاء الحق بھی فرمایا کرتے تھے اور انھوں نے ہٹا بھی دیا لیکن نتیجہ کیا نکلا ۔ جب بینظیر حکومت میں آئی تو کہا جانے لگا کہ جناب صرف بینظیر کو ہٹا دیا جائے اُس کے بعد ہمیں سب منظور ہے ۔ پرویز مشرف دور میں یہ کہا گیا کہ جناب باقی پوری مسلم لیگ ہمیں قبول ہے بس نواز شریف کو ہٹا دیا جائے ، ہمیں تو شہباز شریف بھی منظور ہے ۔ اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ جناب آصف علی زرداری کو ہٹا دیا جائے تو پوری پیپلز پارٹی قبول ہے ۔

ایسی طرح متحدہ کے متعلق ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ آپ الطاف حسین سے جان چھڑا لیں تو ہمیں پوری پڑھی لکھی ایم کیوایم قبول ہے ۔ بات صرف اتنی سی ہے آخر یہ مائینس ون فارمولہ کیوں لایا جاتا ہے ۔ جب کہ سب کو معلوم ہے کہ اس خطے کی سیاست ہی شخصیت اور جماعت کے گرد گھومتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کانگریس سونیا گاندھی کے بغیر قدم بڑھا سکے ۔کیا بنگلہ دیش آپ کے سامنے نہیں ہے ۔ یا پاکستان کے اندر سیاسی جماعتوں کے قائدین اُس جماعت کی مرضی سے نہیں بلکہ کچھ اعلیٰ حلقوں کی خواہش کے مطابق ہونے چاہییں ؟ سوال آسان سا ہے لیکن اس کا جواب بہت ہی مشکل ہے ۔

ہر خاندان کا اپنا نظام ہوتا ہے ۔ ہر ملک کے دستور مختلف ہوتے ہیں جو اُس کے علاقے ، تاریخ اور لوگوں کی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ایسے ہی جیسے کہ امریکا میں صدارتی جمہوری نظام ہے اور برطانیہ میں وزیر اعظم ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہر سیاسی جماعت کا اپنا اسٹرکچر ہوتا ہے اور وہ اپنے ووٹرز،اپنے نظریات اور اپنی حکمت عملی کے تحت ہوتا ہے ۔

اس جماعت کے نظام کوکوئی بھی شخص باہر سے بیٹھ کر نہیں سمجھ سکتا ۔ وہ سُنی سنائی باتوں پر رائے تو دے سکتا ہے لیکن اُس شخص کو کیا معلوم کہ جس نے دریا میں اترکر نہیں دیکھا ، مگر دریا کے متعلق باتیں اتنی بڑی بڑی کرتا ہے کہ دریا خود بھی اُس کی باتیں سُن سُن کر ہنس رہا ہو گا ۔ اس وقت جو لوگ متحدہ کے تنظیمی معاملات اور پیپلز پارٹی کی وراثتی سیاست پر تنقید کر رہے ہیں انھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمارے زمینی حقائق کس طرح کے ہیں ۔

یہ وہ لو گ ہیں جنھیں برطانیہ کے وزیر اعظم اور جرمنی کی چانسلر تو پسند ہے لیکن ہمارے یہاں کے عوام نہیں ۔ انھیں سمجھ ہی نہیں کہ عوام کس طرح سے سوچتے ہیں ۔کچھ لوگ نے طوفان کھڑا کردیا تھا کہ متحدہ کی مقبولیت ختم ہوگئی لیکن ان کے میڈیا پر بیٹھ کر اسی طرح کے تبصروں نے ایم کیو ایم کے ووٹرزکوگھروں سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکالا ، یہ سوچ کا فرق ہے ۔

اسی طرح جس زمانے میں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی اور پیپلز پارٹی کے پاس صرف چند نشستیں تھی تو اُس وقت کے اخبار گواہ ہیں کہ لوگ کہتے تھے پیپلزپارٹی ختم ہوگئی لیکن اُس کے بعد وہ ایک بار پھر اقتدار میں آئی ۔یہ ہی بات نواز شریف کے متعلق پرویز مشرف دور میں کہی جاتی رہی۔ مگر آج کی حقیقت آپ کے سامنے ہے ۔

تو برائے مہربانی سیاسی جماعتوں کو معلوم ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے ۔دریا کے باہر سے بیٹھ کر اپنے قیمتی تبصرے مت کریں ۔ جنھوں نے لیاری نہیں دیکھا وہ لیاری پر ایک گھنٹے بولتے ہیں ۔جو مُکا چورنگی کو مکہ چورنگی کہتے ہیں وہ رہی سہی کسر پوری کررہے ہیں ۔ اس لیے برائے مہربانی جس گھاٹ کا پانی نہیں پیا اُس پر خاموشی ہی بہتر ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں