بھارت کا جنگی جنون اور ہماری گفتار کی توپیں
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ طاقت کا نشہ کسی بھی قسم کے دوسرے نشہ کی نسبت سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے
بھارتی اخبار ''ٹائمز آف انڈیا'' نے تو بھارت کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور اسٹرٹیجک ماہرین کی آرا کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں میانمار (برما) جیسے فوجی آپریشن کے بارے میں سوچے بھی نہیں کیونکہ اگر بھارت نے پاکستان میں فوجی مہم جوئی کی تو اسے اس کا زبردست خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ طاقت کا نشہ کسی بھی قسم کے دوسرے نشہ کی نسبت سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے مگر اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہوتا ہے کہ اس کے تحت بعض اوقات سچی باتیں بھی نکل کر سامنے آ جاتی ہیں اور پھر ''تاریخی حقائق'' سامنے آتے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان توڑنے کی سازش اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کے مرکزی کردار کا جس ڈھٹائی سے اعتراف کیا وہ بظاہر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
کاش وہ ایسا بیان دینے سے قبل یہ سوچ لیتے کہ وہ اب گجرات کے وزیر اعلیٰ نہیں رہے بلکہ دنیا کے ایک بہت بڑے ملک کے ''پردھان منتری'' بن چکے ہیں، ان کے بڑے بول بولنے یا بڑھکیں مارنے سے علاقے میں مزید کشیدگی پیدا کرنے کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
زیادہ دن نہیں ہوئے جب ہمارے اور بھارتی وزیر اعظم ایک دوسرے سے گرم جوشی سے ملے تھے، نریندر مودی نے اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر نواز شریف کو پلائی تھی، لاکھوں روپے کے قیمتی تحفے، ساڑھیوں اور شالوں کا تبادلہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا گیا تھا، خیرسگالی کے پیغامات دیے گئے تھے، بڑی خوشیاں سفارتی سطح پر منائی گئی تھیں لیکن کیا ہے جب خوشیاں راس نہ آئیں تو بے معنی ہو جاتی ہیں اور ہم جن خوشیوں کو جگنو سمجھ کر پکڑتے ہیں وہ انگارہ بن کر ہماری ہتھیلیوں کو جلا دیتی ہیں۔
پاکستان کے دولخت ہونے کا سانحہ (سقوط مشرقی پاکستان) بہت ہی دلخراش ہے۔ اس قسم کے ''قومی حادثات'' سے دل برداشتہ ہو جانے والی قومیں نابود ہو جایا کرتی ہیں لیکن جو لوگ اپنی ناکامیوں سے کامیابیوں کی کرنیں کشید کر لیتے ہیں وہ زندہ رہ جاتے ہیں۔ سو اس حوالے سے ہم سب زندہ ہیں۔کون نہیں جانتا کہ قیام پاکستان کے پہلے دن سے ہی بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا، بھارت بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ اور نیپال کی طرح پاکستان کو بھی ایک بے دست و پا ریاست بنا کر رکھنا چاہتا ہے اور بھارت کی دیرینہ ہٹ دھرمی یہ بھی رہی ہے کہ وہ خطے کے دوسرے ممالک کی خودداری اور خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتا۔
یہ بات بھی کسی سے چھپی نہیں کہ بھارت کا بلوچستان کے علیحدگی پسندوں، طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے دہشت گرد گروپوں میں بہت گہرا اثر و رسوخ ہے، پشاور میں بھی تباہی بربادی میں بھارت کا ہاتھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی بڑھتی ہوئی لہر اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے بھارت اس قدر بوکھلا گیا ہے کہ براہ راست پاکستان کو جارحیت کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی پیشہ ور سیاست دان کے لیے الفاظ کا بہت زیادہ استعمال خطرناک بھی ہوتا ہے، ہمارے بعض بڑے سیاست داں (لیڈر) اور بیشتر وزرا کے بیانات دیکھ لیں کیمرے یا پریس کے سامنے آتے ہی وہ اعتدال اور عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بحری جہاز کو تباہ کرنے والا میزائل بحری جہاز جتنا بڑا نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں یہ بات کس کو سمجھائی جائے؟
انڈین وزیر اعظم یا ان کا کوئی اور وزیر چاہے جو بھی بیان بازی کرتے رہیں، اس سے ہمارا کیا نقصان؟ لفظی گولے کون سی فصلیں گراتے ہیں؟ دراصل پاکستان اور بھارت امریکا اور کینیڈا یا امریکا اور میکسیکو نہیں ہیں۔ ہمارے درمیان بہت سے مسائل ہیں، لیکن بات بات پر مرنے مارنے کی باتیں کرنے میں کوئی دانائی نہیں۔بہرحال وہ چاپلوسی بھی نقصان دہ ہے جس کا مظاہرہ ہمارے حکمرانوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھارت سے کیا۔
اور وہ خاموشی بھی مجرمانہ ہے جو حکمران بھارت کے سنگین اقدامات اور بیانات سے متعلق اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت میں ''وزارت خارجہ'' جیسے ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے اہم شعبے کی تنزلی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے اور کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ دو سال سے حکومت بغیر ''وزیر خارجہ'' کے چل رہی ہے۔ وزارت خارجہ کسی ملک کے چہرے کی ناک یا انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ادارہ ہوتا ہے اور پوری دنیا سے باہمی روابط اور اپنے ملک کے داخلی و خارجی معاملات کے پرچار میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
ایک زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر خارجہ کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی اور ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کو دنیا سے منوایا تھا، ان کے ساتھ ساتھ آغا شاہی اور صاحبزادہ یعقوب جیسی جید، تیز اور بہترین ڈپلومیٹ کے حوالے سے بھٹو جیسی ہی شہرت حاصل کی اور اس حوالے پاکستان کی اہمیت اور افادیت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔لیکن ان جیسی ہستیوں کے بعد ہماری وزارت خارجہ محض غریب کی جورو بن کر رہ گئی، اسے بھی وطن عزیز کی بدقسمتی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
لیکن حکومت میں وزارت خارجہ کی جو حالت ہو گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ کوئی انھیں کیسے بتائے کہ ریاستوں کا کام ''میٹرو یا گرین بسیں'' چلانا نہیں ہوتا یہ کام تو ادارے کرتے ہیں یا افراد۔ اور اصل ہم نے تاریخ کو اس قدر بدنما بنا دیا ہے کہ وہ اب اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہی، ہمارے ارباب اختیار کی ذمے داری ہے کہ وہ تاریخ کو اپنی صحیح حالت اور لوگوں کی روزمرہ زندگی میں واپس لانے کے لیے اپنا کردار دیانت داری سے ادا کریں۔ کیونکہ راستہ کوئی بھی ہو وہ مشکل نہیں ہوتا بس اس پر چلنے کا جواز اہمیت رکھتا ہے۔
''حمود الرحمن کمیشن رپورٹ'' تاریخ کا مشاہدہ کرنے والوں کے لیے بہرطور ایک عبرت انگیز، غور طلب اور فکر انگیز رپورٹ ہر دور میں رہے گی، ہر حساس دل جو وطن عزیز کی محبت سے معمور ہے وہ اسے پڑھے تو خون کے آنسو رو دے گا، جس طرح پاکستان کو دولخت کرنے میں ہم نے اپنے ساتھ جو زیادتیاں کیں اور ہمارا ہی ملک آدھے ٹکڑے میں بٹ کر ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا اور ''ذمے دار'' شراب اور شباب کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے وگرنہ کوئی کیا سوچ سکتا ہے کہ 90 ہزار فوج ہتھیار ڈال دے۔
جو ہماری اندرونی بیماریوں کے علاج کے لیے انتہائی ضروری تھیں۔ ہم نے تو بھارت کے خلاف بھی پاکستان توڑنے کی سازش میں اہم کردار ادا کرنے پر کوئی کارروائی نہ کی، جو ہندوستان نے کیا وہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی اور جسے بھارتی وزیر اعظم نے اب تسلیم بھی کر لیا ہے۔
اب کیا ہم اس مسئلے کو سیاسی، قانونی اور سفارتی سطح پر پوری دنیا میں اٹھانے کے بارے میں کوئی حکمت عملی بنانے میں سنجیدہ ہوں گے یا ماضی کی طرح سب کچھ بھلا کر ہندوستان سے دوستی کے خواب دیکھیں گے؟ اور اس سلسلے میں کرکٹ ڈپلومیسی اور مینگو ڈپلومیسی جیسی ٹوٹی بے ساکھیاں پھر سے استعمال کرنے لگیں گے؟ میاں نواز شریف کے سیاسی و سفارتی بیان تازہ کو دیکھ کہنا پڑے گا کہ وہ غیر ضروری درجہ حرارت بڑھانے سے گریز کر رہے ہیں۔لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جتنا جنگی جنون پیدا کر لیں وہ اچھی طرح یہ جان لیں کہ یہ نہ 1946ء ہے، نہ 1965ء اور نہ ہی 1971ء بلکہ یہ 2015ء ہے۔ آج کا پاکستان حد درجہ مشکلات کا لاکھ شکار سہی لیکن وہ بہرطور ایٹمی قوت کا حامل ہے۔