میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت

جس کا 80 سے زیادہ منظومات پر مشتمل یہ مجموعہ ’’میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت‘‘ اب کتابی شکل میں شایع ہوگیا ہے۔


Amjad Islam Amjad June 25, 2015
[email protected]

QUETTA: چند دن قبل جب عزیز دوست اور ہماری نسل کے ایک منفرد اور مقبول شاعر برادرم سلیم کوثر کا بھجوایا ہوا ان کا اولین مجموعۂ حمد و نعت موصول ہوا تو اس کے چند ہی صفحات پڑھنے کے بعد ہی میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس رمضان میں اس کتاب پر ایک پورا کالم لکھوں گا کہ یہ اس صنف ادب و ارادت میں لکھی گئی شاعری کا ایک غیر معمولی اور منفرد مجموعہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی سلیم کوثر کی صحت و سلامتی کے لیے دعا بھی کی کہ ہمارا یہ پیارا دوست ایک عرصے سے گلے کے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہے۔ قارئین سے بھی درخواست ہے کہ اسے اپنی دعائوں میں یاد رکھیں کہ مالک کون و مکاں دلوں سے نکلی ہوئی دعائوں کو رد نہیں کرتا اور سلیم کوثر کے اسی شعر کو اس کے لیے مجسم حقیقت بنا دے کہ

میں غرق ہوتا ہوا آدمی تہہ گریہ
پھر ایک لہر اٹھی اور مجھے بچایا گیا

کتاب کے دیباچے ''مرے سارے ہجر، وصال ہوئے'' میں سلیم کوثر نے اپنے پہلے سفر حرمین شریفین کی روداد بڑی تفصیل اور دل سوزی کے ساتھ لکھی ہے جس کی ایک ایک سطر اس کے دلی جذبات کی مظہر ہے کہ پہلی حاضری کا مزا ہی کچھ اور ہے۔

اس کے بعد اسے کئی بار عمرے اور حج کی سعادت نصیب ہوئی اور ہر بار وہ رب کریم کی رحمت اور رسول پاکؐ کی محبت سے سرشار اور شرابور ہوکے لوٹا اور یوں اس کے سرمایۂ حمد و نعت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

جس کا 80 سے زیادہ منظومات پر مشتمل یہ مجموعہ ''میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت'' اب کتابی شکل میں شایع ہوگیا ہے۔ ہر حمد یا نعت کے آخر میں سلیم کوثر نے اس کا سن تحریر بھی درج کردیا ہے اور کہیں کہیں وضاحتی نوٹ بھی دے دیے ہیں لیکن یہ سب باتیں تو ناقدوں اور محققوں کے دیکھنے کی ہیں جب کہ میں آپ کو اس روحانی لطف اور کیفیات میں شامل کرنا چاہتا ہوں جو مجھے اس کتاب کی صحبت میں حاصل ہوا ہے۔ سلیم کوثر نے بالکل آغاز میں صرف چھ مصرعوں پر مشتمل ایک نظم ''اے رب جہاں'' کے عنوان سے درج کی ہے جس کو اس روداد عقیدت کا سرنامہ بھی کہا جاسکتا ہے۔

میں جائوں مدینے اور وہاں
کوئی ایسا کام نکل آئے
جو صرف مجھے ہی آتا ہو
جو صرف مجھے ہی کرنا ہو
جسے کرتے کرتے جینا ہو
جسے کرتے کرتے مرنا ہو

اسی طرح انتساب میں شامل یہ شعر بھی ایک اپنی ہی کیفیت رکھتا ہے کہ

اُنہیںؐ سے عشق کرو اُنؐ کے راستے میں رہو
درود پڑھتے رہو اور رابطے میں رہو

بطور ایک غزل گو سلیم کوثر کا نام گزشتہ تین دہائیوں سے دور حاضر کے نمایندہ شاعروں میں ہوتا ہے۔ اس کی غزلوں کی لفظیات، قافیوں کا استعمال، مضامین کی تازگی اور پیرائیہ اظہار کی جدت طرازی اس کی پہچان بن چکی ہیں۔

عام طور پر حمد و نعت کے بازار میں یہ سکے بہت کم چلتے ہیں کہ وہاں پہنچ کر ہر چیز کے معانی بدل جاتے ہیں۔ سلیم کوثر کا شمار ان چند شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس مشکل کام کو آسان کردکھایا ہے اور ''حقیقت منتظر'' کو مجاز کا ایسا لباس پہنایا ہے کہ اس کی کاری گری پر رشک آتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے

میں جس کی روشنی میں نہایا ہوں عمر بھر
اپنا دیا ہوا وہ اُجالا قبول کر
میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو
جو ترا حکم ہو وہ میرا ارادہ کردے
کھنچا ہوا ہے جو اہل وفا کے چاروں طرف
اسی حصار میں، میں بھی ہوں، شکر ہے مرے رب
یہ وہ جگہ ہے کہ ہر پل جہاں مہ و خورشید
اتر رہے ہیں زمیں پر ستارا وار، اے یار
یہ ایک رنگ کے خیموں میں رنگ رنگ کے لوگ
سمیٹ لیتا ہے کس طرح جانے، کُوئے حرم!
یہی سفر مرے بچوں کا بھی مقدر ہو!
حرم سے سوئے مدینہ، وہاں سے سوئے حرم
میں ایک کاسۂ تاریک، ملتزم پہ کھڑا
درود پڑھتا گیا روشنی سے بھرتا گیا
شکستہ عکس یہاں ٹھیک ہونے آتے ہیں
یہ وہ جگہ ہے جہاں آئینے بدلتے ہیں
قسمت کو چمکانے والے کیسے ہوں گے!
آپؐ سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے!
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت
گردش وقت نے خود راستے ہموار کیے
اس کو معلوم تھا ہم کن کے بلائے ہوئے ہیں
کھلا یہ منزل ہستی کا مجھ پہ راز نہاں
نجات کا کوئی رستہ نہیں سوائے درود
سکون قلب، شعور یقیں ملا ہے مجھے
در حضور سے کیا کچھ نہیں ملا ہے مجھے

حیرت کی بات یہ ہے کہ سلیم کوثر کے یہاں نعت میں مناجات کا وہ رنگ نسبتاً بہت کم ہے جس میں دور حاضر کے مسائل اور غم و آلام کے حوالے سے آج کل بہت زیادہ اور براہ راست بات کی جاتی ہے۔ سلیم کوثر نے یہاں بھی اپنے مخصوص انداز کو قائم رکھا ہے اور شہر آشوب میں فرد آشوب کو اس طرح سے ہم آمیز کردیا ہے کہ دونوں یک رنگ سے ہوگئے ہیں۔

میرے باہر بھی ہوا ٹھیک نہیں چلتی ہے
میرے اندر بھی گھٹن ہے مرے مکی مدنیؐ
تمہیں خبر ہی نہیں ہے مرے مسیحائو
مرا علاج ہے آب و ہوا مدینے کی
بدلنا جس کا ضروری ہے وہ نظام ہوں میں
حضورؐ بگڑا ہوا کوئی انتظام ہوں میں

غرض یہ کہ 136 صفحات پر مشتمل حمد و نعت کے اس مختصر سے مجموعے میں سلیم کوثر نے عقیدت کے جو در وا کیے ہیں اور حب رسول کے حوالے سے جو محفل سجائی ہے اس نے اس کے فنی قد کے ساتھ ساتھ یقیناً روحانی درجات کی بلندی میں بھی اضافہ کیا ہے۔

نہ کالم میرا، نہ نام میرا، نہ علم میرا ہے اور پھر بھی
وہ مجھ میں پوشیدہ قوتوں کو عجب طرح سے ابھارتا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔