پان کی پچکاری

اور یہ حکمران جنھیں نہ تو ہمارے پسینے کی قدر ہے اور نہ ہی ہمارے خون کی


انیس منصوری June 23, 2015
[email protected]

KARACHI: کوئی ہے جو اُن چار سو خاندان کو تسلی دینے کے لیے تیار ہو؟ یہ وہ چار سو لوگ ہیں جو آپ کے ظلم کا شکار بنیں۔ میں مان لیتا ہوں کہ آسمان پر آپ کا زور نہیں چل سکتا۔ آپ کے اختیار میں نہیں ہے کہ آپ سورج کو روک سکیں۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بادلوں پر آپ کا راج نہیں ہے۔ لیکن یہ زمین تو آپ کے پاس ہے۔ یہ زمین کا ٹکڑا جسے آپ پاکستان کہتے ہیں۔ یہ پاکستان جہاں کے آپ حکمران ہیں۔

اور یہ حکمران جنھیں نہ تو ہمارے پسینے کی قدر ہے اور نہ ہی ہمارے خون کی۔ آپ ہمیں بجلی دے سکتے تھے۔ لیکن آپ نے ہمارے جسموں کی بجلی بھی نکال لی۔ ایک دوسرے پر الزام ڈال کر آپ میں سے اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس بابرکت مہینے میں ہماری زبان سے نکلنے والی بدعائیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑیں گی تو یہ آپ کی بھول ہے۔ ایسے میں ہم جیسے بے کس، مجبور اور لاوارث لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ صرف ہاتھ اٹھا کر اپنے دل کی تمنا بتا سکتے ہیں۔

آپ یہ کہہ کر اپنا دامن کب تک بچائیں گے کہ گرمی پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں۔ ان کا کوئی بھروسہ نہیں یہ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دیکھے ہمارے یہاں تو صرف چار سو ہلاکتیں ہوئی ہیں، انڈیا میں تو 1700 لوگ گرمی برداشت نہیں کر سکے۔ ہمارا ریکارڈ انڈیا سے تو بہت بہتر ہے۔ ان کو یہ کہتے ہوئے ہرگز شرم نہیں آئے گی۔ یہ تو بتا دو آخر ان 20 کروڑ انسانوں کو کب تک تیل کا کنواں سمجھ کر خالی کرتے رہو گے۔

یہ سمجھنے کے لیے تمھیں کون سا آئن اسٹائن کا دماغ چاہیے کہ جب گرمی بڑھے گی تو بجلی کی ضرورت میں اضافہ ہو گا۔ کیا آپ کو یہ نہیں معلوم کہ ہر سال ان مہینوں میں بجلی کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کب تک آپ دوسروں کو اس کا الزام دے کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور روتے رہیں گے کہ سابق حکومت نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اب تو آپ کی بھی آدھی مدت پوری ہو چکی ہے۔

آپ ہی تو کہتے تھے کہ اگر ہم بجلی نہیں لائے تو میرا نام بدل لینا۔ آپ تو مظاہروں کی قیادت کرتے تھے اور ان مظاہروں کے دوران آپ کے پیروں کے چپل بھی غائب ہو جاتے تھے۔ تو آپ کو یاد ہے وہ زمانہ جب آپ کہتے تھے کہ میں بجلی نہ دینے والوں کو کھمبوں سے لٹکا دوں گا۔ اگر آپ کو ذرا ذرا سا یاد ہو کہ آپ نے تمبو (شامیانے) لگائے تھے اور کہا تھا کہ اب اجلاس یہاں ہوں گے۔

اب تو آپ کو بڑی جگہ مل سکتی ہے تو وہاں پر اگر آپ ہمارے ساتھ یکجہتی کے لیے پھر سے ہاتھوں میں پنکھے پکڑ لیں تو کتنا اچھا ہو گا۔ آپ کو حکومت کرتے کرتے عمر گزر گئی لیکن ہمارے مسئلہ ابھی تک وہی کھڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنا تجربہ ہونے کے باوجود آپ یہ کیوں نہیں سمجھ سکے کہ ہماری ضرورت کیا ہے اور آپ کی ذمے داری کیا ہے۔

میں کیسے تعریف کردوں کہ آپ نے معافی مانگ لی ہے۔ کیا آپ کی معافی سے وہ چار سو لوگ ایک بار پھر زندہ ہو کر ہمارے درمیان آ سکتے ہیں۔ کیا اس معافی کے بعد ان گھروں کا ماتم ختم ہو جائے گا جن کے گھر ایک پنکھا نہ چلنے کی وجہ سے ان کا پیارا اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ کیا اس معافی کے بعد اب میں یہ سمجھوں کہ کسی کے گھر کا پنکھا بند نہیں ہو گا۔ اس معافی کا مطلب کیا یہ ہو گا کہ اب آپ کسی اور پر الزام نہیں ڈالیں گے اور خود کو عدالت کے سامنے بھی پیش کریں گے۔ کیا اس معافی سے میں اپنی ماں کو یہ تسلی دے سکتا ہوں کہ اب تمھیں کسی کو بددعا دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ کاش ایسا ہو سکتا۔

ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ابھی تک کی معلومات کے مطابق موجود حکومت نے جتنے پراجیکٹ شروع کیے ہیں وہ ہماری ضرورت کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکتے۔ یہ پراجیکٹس اگر اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھی کام کرتے رہے تو شاید تین سال بعد لوڈشیڈنگ میں کمی ہو لیکن خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اور اس میں بھی کوئی جھوٹ نہیں ہے کہ حکومت کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں کہ وہ سرمایہ لگا سکے۔

تو سوال یہ ہے پھر میٹرو جیسے پراجیکٹ پر اتنی رقم کیوں لگائی گئی ہے؟ کیا عالمی سطح پر رقم لگانے کے لیے سب تیار بیٹھے ہیں؟ نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ تو آخر یہ معمہ حل کیسے ہو گا؟ کیا پورے ملک میں بجلی کے نظام کو پرائیوٹ کر دیا جائے؟ لیکن کراچی میں اس تجربے سے کس کو فائدہ پہنچا؟ کراچی کے شہری آج بھی روزانہ 7 سے 10 گھنٹے بجلی سے محروم ہوتے ہیں۔

اگر سخت گرمی پڑ جائے تو یہاں کا نظام بیٹھ جاتا ہے اور پھر بجلی دو دن تک نہیں ہوتی۔ اور بارش ہو جائے تو تین دن تک نہیں ہوتی۔ اگر ایسے ہی سب کو پورے ملک میں بجلی بانٹنی ہے تو پھر آپ تیار ہو جائیے کہ ہر جگہ ایک آگ سی لگ جائے گی۔ تو پھر آخر حل کیا ہے؟کچھ ادھر ادھر کی ہانکنے والے کیوں اس بات کا شور مچا رہے ہیں کہ کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی کا نظام فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ مگر کیا ماضی میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ ہم ہر جگہ ہر معاملے میں اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے گھمانے والا راستہ کیوں دیکھتے ہیں۔ جس کا جو کام ہے وہ اسے کرنے دیں۔ ہمارے یہاں بھی سیزن چلتا ہے کہ کبھی کوئی کہتا ہے کہ بس ایک چیف جسٹس آئے گا اور ہر طرف دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ کوئی کہتا ہے کہ ایک اور چیف ہر جگہ سے کرپشن ختم کر دے گا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا اور نا ہو سکا۔

کچھ لوگ بار بار یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہاں جمہوریت رہے یا آمریت بس عوام کے مسئلے حل ہونے چاہئیں۔ یہ کیوں بار بار ہمارے ذہنوں میں بٹھانے کی جستجو کیوں کی جاتی ہے۔ دنیا اس بات پر متفق ہے کہ جمہوریت بہتر نظام ہے۔ اور شاید ہم بھی یہ ہی سمجھتے ہیں اسی لیے ہر بار ہم سیاست دانوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔

کیوں کچھ لوگوں کا امیج خراب کیا جا رہا ہے اور کیوں کچھ لوگوں کو ہر مرض کی دوا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مجھے کوئی ہمدردی نہیں ان لوگوں سے جو کرپٹ ہیں، جو قاتل ہیں، مگر انتظامی معاملات میں دو متوازی حکومتیں کبھی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی۔ ایک ساتھ دو لوگ اگر دو علیحدہ علیحدہ فیصلے کر رہے ہو تو پھر صرف اور صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے، جیسے کہ ہو رہا ہے۔ لیکن کیا اس بحث کے بعد اب کسی کو معافی نہیں مانگنی پڑے گی۔ بجلی کا معاملہ حل ہو جائے گا، کرپشن ختم ہو جائے گی، اب کبھی بھی چار سو لوگ کسی آفت کی نذر نہیں ہوں گے۔

سب کو سب کچھ معلوم ہے لیکن ہم سب کے ہاتھوں میں موجود بندوق کا رخ ایک ہی طرف ہے۔ ہم سب نے سوچا ہوا ہے کہ بس ایک طرف سے ساری گندگی ہے اور شاید جو لوگ ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ سب لوگ ہماری طرح نہیں ہوتے جو کسی بھی تنخواہ میں کام کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس لیے گرمی بڑھ جائے یا بارش برسے ہمارے حالات یوں ہی رہیں گے۔ اور کچھ لوگ اپنے اپنے حصہ کے لیے ایک دوسرے کی طرف پان کی پچکاری مارتے رہیں گے۔ جس سے بس دیواریں گندی ہوں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں