آگسٹو سیزرسان ڈینو

18مئی 1895کو پیدا ہوا اور21 فروری 1934کو جب اس کی عمر صرف 38 سال تھی اسےامریکی ایجنٹوں نے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا


Aihfazur Rehman June 21, 2015
چے گویرا، فیڈل کاسترو اور ہوگوچاویز بھی اس عظیم چھاپامار جنگجوکے مداح تھے ۔ فوٹو : فائل

آگسٹو سیزر سان ڈینو۔۔۔۔۔۔۔ یہ لاطینی امریکا کے ایک ایسے ہیرو کا نام ہے جس کے مداحین میں چے گویرا، فیڈل کاسترو اور ہوگوچاویز جیسی بلندقامت شخصیات شامل ہیں۔ وہ نکاراگوا کی آزادی کا نقیب اور امریکی سام راج کا دشمن تھا۔ اس نے نکاراگوا میں امریکی میرین دستوں اور امریکا کی پٹھو حکومت کی فوج کے خلاف جس طرز کی گوریلا جنگ کا آغاز کیا، بعد میں فیڈل کاسترو اور چے گویرا نے اسی انداز میں کیوبا کی آزادی کے لیے چھاپا مار کارروائیوں کی بنیاد ڈالی، اور آخر کار اپنے مقصد میں کام یاب رہے۔ وہ 18مئی 1895کو پیدا ہوا، اور21 فروری1934کو، جب اس کی عمر صرف 38 سال تھی، اسے امریکی ایجنٹوں نے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا۔



انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا میں لکھا ہے۔۔۔۔ ''نکاراگوا کا ایک گوریلا لیڈر، بیسویں صدی میں وسطی امریکا کی تاریخ کی سب سے متنازع شخصیتوں میں سے ایک، وہ نکاراگوا کا مقبول عوامی ہیرو تھا، اسی کے نام سے Sandinistas نامی مشہور انقلابی گروپ قائم ہوا، جس نے 1979 سے 1990 تک نکاراگوا پر حکومت کی۔'' یہ وہی ملک ہے، جس میں امریکی حکومت بار بار فوجی مداخلت کے ذریعے اپنے حلیف مقامی فوجی ڈکٹیٹروں کی حمایت میں سرگرم عمل رہی۔ اس ملک میں اس کے فوجیوں نے اس قدر مظالم کیے کہ عالمی عدالت انصاف نے اس کے خلاف مشہور مقدمے کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا کہ ''امریکا جنگی مجرم ہے!''

وسطی امریکا کے اس چھوٹے سے ملک میں جس کی اس وقت آبادی 60 لاکھ ہے، امریکا کی فوجی مداخلت کا سلسلہ 1912 کی خانہ جنگی سے شروع ہوا، جس کے بعد اگلے بیس سال تک امریکی فوج وہاں ڈیرا ڈالے رہی۔ اس طرح نکاراگوا صحیح معنوں میں امریکی ''پروٹیکٹوریٹ'' (طفیلی ریاست) میں تبدیل ہوگیا، اور اس کی خودمختاری کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اس ملک کی آبادی صرف ایک لاکھ 20 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ ناداری یہاں کا دیرینہ مسئلہ تھی۔ سیاسی عمل غیرمستحکم تھا۔ غیرجمہوری حکومتوں نے مسائل میں اور اضافہ کیا۔ پھر امریکی حکومتوں کی مداخلت کے باعث اندرونی خلفشار میں اور اضافہ ہوا، اور معاشرہ متعدد ایسے گروہوں میں تقسیم ہوگیا، جو خوں ریزی کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے تھے۔



نکاراگوا پر 1529 سے 1821 تک اسپین کا قبضہ رہا۔ اس کے بعد انتشار، خانہ جنگی اور آمر حکومتوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث بدامنی کا دور دورہ رہا۔ آخر میں امریکی لٹیروں نے اس ملک کا رُخ کیا، اور یہاں کے وسائل سے فیض یاب ہونے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے لگے۔ نکاراگوا کی زمین زرخیز ہے بلکہ یہاں معدنی ذخائر بھی وافر مقدار میں موجود ہیں، جن میں سونے، چاندی، خام لوہے، تانبے، جپسم اور جست کی کانیں شامل ہیں۔ اگرچہ اب تک صرف سونے کی کانوں میں کان کنی ہوتی رہی ہے۔ امریکا کی وال اسٹریٹ کے حریص تاجروں کی نظریں سونے کی ان ہی کانوں پر تھیں، چناں چہ رفتہ رفتہ انھوں نے پاؤں پھیلاتے ہوئے اس ملک کے تجارتی اور معدنی وسائل پر کنٹرول قائم کرنا شروع کردیا۔

بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی حکومت نے یہاں اپنے فوجی دستے بھیج دیے، تاکہ مقامی سیاسی پارٹیوں پر مکمل تسلط قائم کرکے اپنے اقتصادی مفادات کی تکمیل کرسکے۔ وہ اس مقصد میں کام یاب رہی اور یہاں اس کی پٹھو حکومت قائم ہوگئی۔ اس کی حکمت عملی کام یاب رہی۔ لیکن پھر ایک طلسماتی شخصیت نمودار ہوئی۔

جس نے غریب کسانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی فوج بنائی، اور اس نعرے کے ساتھ لڑائی کا آغاز کیا کہ ''یانکی امپیریلزم (Yankee Imperialism) کی فوج نکاراگوا سے فوراً چلی جائے۔ یہ جنرل آگسٹو سی سان ڈینو تھا، آزادی کے متوالوں کا ہیرو۔۔۔۔۔جو بہت جلد پورے لاطینی امریکا کا ہیرو بن گیا۔ حسبِ دستور امریکی سیاست دانوں نے اسے ڈاکو قرار دے کر اسے مطعون کرنا چاہا، لیکن سان ڈینو کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔



اپنی اس انقلابی مہم سے پہلے سان ڈینو لبرل پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کی باہمی لڑائی میں لبرل پارٹی کا حامی تھا۔ 1925 میں عام انتخابات میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد لبرل پارٹی نے اپنی حکومت قائم کی، جس کا صدر کارلوس سولورزانو اور نائب صدر جوان باتستا ساکاسا تھا۔



لیکن قدامت پسند پارٹی کے حامی جنرل ایمالیانو کیمورو نے طاقت کے ذریعے اس حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ بنانا شروع کردیا۔ اس طرح لبرل پارٹی صرف ایک سال تک حکومت کرسکی۔ فوجی مداخلت کے سبب صدر سولورزانو کو استعفیٰ دینا پڑا، نائب صدر ساکاسا نے فرار ہوکر میکسیکو میں پناہ لی، اور جنرل کیمورو نے ''عبوری صدر'' کی حیثیت سے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

آخر کار میکسیکو میں لبرل پارٹی کے جلاوطن کارکنوں نے اپنے وسائل مجتمع کرکے نکاراگوا واپس پہنچنے کا منصوبہ بنایا۔ انھوں نے ہتھیار جمع کیے اور فوجی دستے تشکیل دیے جو نکاراگوا کے ساحل پر جا اُترے۔ اس مُہم کی کمان لبرل جنرل جوزے ماریا مون کاڈا کے ہاتھ میں تھی۔ لبرل دستوں کے خلاف مزاحمت ہوئی، اور بعض مقامات پر اسے پس پائی بھی اختیار کرنی پڑی لیکن مجموعی طور پر اس کی حمایت میں اضافہ ہوتا گیا اور اس نے متعدد شہروں پر قبضہ کرلیا۔ گویا فیصلہ کن مرحلہ آ چکا تھا۔



ایسے میں خدائی فوج دار امریکا کے بحری جنگی جہاز مسلح دستوں کے ساتھ نکاراگوا کے ساحل پر جا اُترے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نکاراگوا میں مقیم امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ انھوں نے فریقین پر زور دیا کہ اگر وہ امریکا کی حمایت چاہتے ہیں تو کسی حل پر متفق ہوجائیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں اڈولفوڈیاز کو کیمورو کے ساتھ نکاراگوا کا صدر مقرر کردیا گیا۔ اس کے باوجود لبرل دستوں کے سربراہ مون کاڈا کی کمان میں جدوجہد کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی اثناء میں لبرل پارٹی کا سربراہ جوان باتستا ساکاسا جلاوطنی ترک کرکے شہر پیورٹو کابیزاس میں وارد ہوا۔ وہ بجا طور پر آئینی صدر ہونے کا دعوے دار تھا۔ اس لیے اس جنگ کو ''آئینی جنگ'' کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے برسراقتدار ٹولے کے خلاف جنگ آزما فوج بھی ''آئینی فوج'' کے نام سے مشہور ہوئی۔



آگسٹو سان ڈینو اس وقت تک محض مقامی سطح پر ایک اہم لیڈر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ ساکاسا کی آمد کی خبر سن کر وہ بھی پیورٹوکابیزاس جا پہنچا تاکہ ''آئینی جنگ'' میں اپنا حصہ ادا کرسکے۔ تاہم، جنرل مون کاڈا نے اسے فوجی فرائض اور ہتھیار دینے سے انکار کردیا۔ اس دوران امریکی حکومت نے سرکاری طور پر ڈیاز کو نکاراگوا کا صدر تسلیم کرلیا تھا۔

پھر امریکی دستے پیورٹو کابیزاس جا پہنچے اور انھوں نے لبرل فوجی دستوں کو ''نیوٹرل زون'' کے نام پر غیرمسلح کردیا۔ دو ہفتے بعد 6 جنوری 1927 کو امریکی بری فوج کے دستے بھی نکاراگوا میں داخل ہوگئے۔ جواز پھر یہی پیش کیا گیا کہ انہیں امریکی شہریوں کی جانوں کا تحفظ کرنا مقصود ہے۔ لیکن وہ مسلسل قدامت پسند فوجی دستوں کی معاونت کرتے رہے۔ دس ہفتے کے بعد امریکی بحری فوج کے نمائندوں نے رپورٹ دی کہ بیش تر لبرل دستوں کو شکست سے دوچار کردیا گیا ہے۔



پھر دنیا نے ایک حیرت انگیز خبر سنی۔ عالمی میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ لبرل فوج نے ایک کم معروف جنرل سان ڈینو کی کمان میں لڑتے ہوئے جینوشیگا شہر پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ جنرل مون کاڈا کو کنزرویٹو دستوں کے محاصرے سے چھڑانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔

اس طرح عالمی میڈیا میں سان ڈینو کا نام پہلی بار ایک چونکا دینے والی خبر کے ساتھ گونجا۔ تاہم، سان ڈینو کی فتوحات کے باوجود چند دنوں کے بعد ''آئینی جنگ'' کا اختتام شرم ناک صورت میں سامنے آیا۔ لبرل جنرل مون کاڈا کی ٹپٹاٹا شہر میں کنزرویٹو اور امریکی بحری دستوں کے کمانڈروں سے ملاقات ہوئی اور اس کی ''آئینی فوج'' نے ہتھیار ڈال دیے۔ طے پایا کہ شفاف انتخابات کرائے جائیں گے، جس میں جنرل مون کاڈا بھی امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے سکے گا۔ اس طرح لبرل فوجی دستوں کو غیر مسلح کردیا گیا اور ساکاسا نے فرار ہوکر کوسٹاریکا میں پناہ لی۔

یہاں سے سان ڈینو کا ایک نیا کردار شروع ہوتا ہے۔ سان ڈینو نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اس نے اعلان کردیا کہ جب تک نکاراگوا کی سرزمین پر حملہ آور امریکی فوجی موجود ہیں، وہ اور اس کے ساتھی غدار اڈولفوڈیاز کی حکومت کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے۔

سان ڈینو نے پیورٹوکابیزاس میں جنرل مون کاڈا سے ملاقات کی اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے جنگی اسلحہ فراہم کرے، اور ہدایت دے کہ اس جنگ کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ اس نے خود تجویز دی کہ وہ شمالی محاذ سے پیش قدمی کرے، جب کہ مون کاڈا لاس سیگودیاس کے علاقے سے دارالحکومت کی جانب حرکت کرے ۔

تاہم مون کاڈا نے حقارت سے یہ تجویز ٹھکرادی، اور سان ڈینو کو ہتھیار فراہم کرنے سے بھی انکار کردیا۔ اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر امریکی بحری دستوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے پیورٹوکابیزاس پر قبضہ کرکے ''اسے غیر جانب دار خطہ'' بنانے کا اعلان کردیا اور اس خطے میں تمام لبرل فوجیوں کے ہتھیار ضبط کرکے دریا مین پھینک دیے۔ اسی رات سان ڈینو نے تیزی سے حرکت کرتے ہوئے تمام چھپے ہوئے ہتھیار دریا سے برآمد کرلیے۔ اس ایکشن میں چند طوائفوں نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا، جنھیں سان ڈینو نے سیاسی آئینی جدوجہد کی ضرورت کا قائل کرلیا تھا۔ اس کے بعد اپنے دستوں کے ساتھ اس نے شمالی پہاڑی علاقے کی راہ لی۔

حالاں کہ اس علاقے میں مون کاڈا محض نیم دلی کے ساتھ اس کی موجودگی برداشت کرتا رہا۔ راستے میں سان ڈینو کو ایک محاذ پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ مقابل فوج بڑی تھی، تاہم وہ اس سے بچ نکلنے میں کام یاب رہا، اور اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھا۔ یوں وہ سان رافیل کے شہر میں پہنچ گیا جو اس کا ہیڈ کوارٹر بنا۔ یہاں سے اس نے اِرد گِرد کے علاقوں پر حملے شروع کیے، اور متواتر فتح حاصل کرتا رہا۔ یہیں اس کی ملاقات ایک ٹیلی گراف آپریٹر لڑکی بلانکا آروز سے ہوئی، جو اس کی دوست بن گئی۔

تاہم، دوسرے تمام علاقوں میں ''آئینی فوج'' کو مسلسل شکست ہو رہی تھی۔ امریکی فوجیوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ امداد کے طفیل کنزرویٹو فوج نے مون کاڈا کی فوج کو پیورٹوکابیزاس اور دارالحکومت ماناگوا کے درمیانی علاقے میں گھیر لیا۔ مون کاڈا نے گھبرا کر سان ڈینو کو پیغام بھیجا کہ وہ اس کی کمک کو پہنچے ورنہ '' آئینی فوج'' کی شکست کا ذمے دار اسے ٹھہرایا جائے گا۔

سان ڈینو نے مون کاڈا کی مدد کے لیے رضاکاروں کا ایک دستہ روانہ کردیا اور یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن کی توجہ شمالی خطے پر مرکوز ہے، جینوٹاگا شہر پر حملہ کردیا۔ یہ اپریل 1927 کا واقعہ ہے۔

آخری لڑائی میں فتح مند ہونے کے بعد شہر کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں آگیا۔ یہیں اس کی ملاقات بعض ایسے ''آئینی جرنیلوں'' سے ہوئی جو ملک کے دوسرے علاقوں سے شکست کھا کر وہاں جمع ہوگئے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد دوسرے جرنیلوں کے ساتھ سان ڈینو کے دوستوں نے مون کاڈا کی مدد کے لیے کونٹیلز نامی شہر کا رُخ کیا۔ اس کے دستے برق رفتاری سے پہلے پہنچے اور انھوں نے دشمن کی ایک مضبوط بٹالین کو شکست سے دوچار کیا جس نے مون کاڈا کو گھیر رکھا تھا۔ اس حملے سے گھبرا کر کنزرویٹو فوج دارالحکومت ماناگوا کی طرف فرار ہوگئی۔ مون کاڈا کو دم لینے کا موقع ملا تو اس نے اس راستے سے جسے سان ڈینو آزاد کرا چکا تھا۔

دارالحکومت کی طرف پیش قدمی اختیار کی۔ اس نے سان ڈینو کو حکم دیا کہ وہ یہیں رہ کر اس پڑاؤ کی حفاظت کرے۔ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ''لاس سیگوویاز کے جنرل'' (سان ڈینو) نے اپنے دستے منظم کیے اور باؤکو شہر پر حملہ کردیا۔ اس موقع پر اسے بتایا گیا کہ فریقین کے درمیان 48 گھنٹے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا ہے، اور اس دوران امریکیوں کی ثالثی پر مون کاڈا دشمن کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔

سان ڈینو نے جنگ بندی کے حکم پر عمل کیا، لیکن وہ جینوٹیگا کو لوٹ گیا تاکہ وہ وہاں اپنے دستوں کو دوبارہ منظم کرسکے۔ جینوٹیگا میں اسے خبر ملی کہ مون کاڈا نے ''آئینی جنگ'' سے دست بردار ہوکر دشمن کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے تحت اس نے نکاراگوا کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کی موجودگی کو قبول کرلیا۔

یہ مئی 1927 کا واقعہ ہے۔ اسی ماہ سان ڈینو نے اپنی سال گرہ منائی اور بلانکا آروز سے شادی کرلی۔ اور پھر یہیں سے آزاد اور خودمختار نکاراگوا کے لیے امریکی مداخلت کے خلاف اس کی شان دار جدو جہد کا دوسرا باب شروع ہوا، جو اس نے تن تنہا منظم کی۔

سمجھوتا طے ہونے کے باوجود سان ڈینو نے اپنے دستوں کو دوبارہ منظم کیا، اور ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ مون کاڈا اور امریکی فوجی نمائندوں نے اس سے جنگ آزمائی سے باز رہنے کا مطالبہ کیا، لیکن سان ڈینو نے کہا کہ اس کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی، کیوں کہ یہ سمجھوتا ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ یوں اس نے دوبارہ سان رافیل کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔

امریکی پریس نے نکاراگوا میں جنگ ختم ہونے کے بارے میں خبر جاری کی اور اعلان کیا کہ تمام لبرل لیڈروں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، سوائے ایک آدمی کے، جس کا نام سان ڈینو ہے۔ بہت جلد حریت پسندوں کے اس جرنیل نے نئے سرے سے اپنے ایکشن کا آغاز کیا۔ اس نے سان البینو کی مشہور کان پر قبضہ کرلیا اور اوکوٹال کے شہر پر دھاوا بول دیا۔ اگرچہ اپنے پہلے خودمختارانہ معرکے میں اسے امریکی بم بار طیاروں کی مداخلت کے باعث شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اب اس کا نام تیزی سے چاروں طرف گونجنے لگا۔ اس لڑائی کے ساتھ اس نے ایک دستاویز بھی جاری کی، جس میں اعلان کیا کہ وہ کیوں لڑ رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی فوج منظم ہے، مجرموں کے گروہوں پر مشتمل نہیں ہے اور وہ فرماں بردار شہری بننے کے بجائے موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے لکھا ''میں پہاڑوں پر اپنے ہتھیاروں کے ساتھ غداروں اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار بیٹھا ہوں۔''

سان ڈینو کی چھاپامار کارروائیوں کا دائرہ پھیلتا چلا گیا، اور نکاراگوا کے عوام کے اندر اس کی مقبولیت میں اور تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ نگاراکوا کی حکومت اور امریکی حکومت نے کہنا شروع کیا کہ وہ ایک ڈاکو ہے اور اسمگلنگ کا دھندا کرتا ہے۔ عالمی پریس میں اس کے بارے میں یہی خبر گردش کر رہی تھی۔ لیکن 8 ستمبر 1927 کو سان ڈینو کی ملاقات ہنڈورس سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر فروئے لان ٹرکیوس سے ہوئی، جو ایک رسالے کا مدیر اور سان ڈینو کا بڑا مداح تھا۔ یوں ٹرکیوس اس کا نمائندہ بن گیا اور اس نے اس کے خلاف بے بنیاد افواہوں کا منہ توڑ جواب دینا شروع کیا۔ ٹرکیوس پورے لاطینی امریکا کا محبوب شاعر تھا۔ اس لیے اسے کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔

امریکی فوجیوں نے سان ڈینو کا خاتمہ کرنے کے لیے بار بار حملے کیے، لیکن بہت جلد جان گئے کہ ان لوگوں کی بہادری اتنی ہی سخت جان ہے، جتنے کہ وہ پہاڑ، جہاں سے وہ چھاپا مار کارروائیاں کرتے تھے۔ امریکی طیارے بم باری کرتے تھے تو زیادہ تر اس کا نشانہ عام شہری بنتے تھے، اس طرح ان کے خلاف نفرت اور تیزی سے بڑھنے لگی۔ بہت جلد میکسیکو، کولمبیا، ارجنٹینا اور برازیل کے اخبارات میں زوروشور سے اس کا چرچا ہونے لگا، بلکہ خود شمالی امریکا (ریاست ہائے متحدہ، امریکا) کے اخبارات میں ایسے مضامین چھپنے لگے، جن میں سان ڈینو اور اس کے ساتھیوں کی حمایت کی جاتی تھی۔

دوسری طرف وائٹ ہاؤس اپنی صفائی اس طرح پیش کرتا رہا کہ نکاراگوا میں صاف ستھرے الیکشن کے لیے وہاں اس کی فوجوں کی موجودگی ضروری ہے۔ اگرچہ امریکی حکومت سان ڈینو کو ''غیراہم شخص'' قرار دینے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن بہت جلد سان ڈینو کی چھاپا مار کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے مزید فوجی، مزید ہتھیار اور لڑاکا طیارے بھیجنے پڑے۔ امریکا نے مقامی فوج کی تربیت کا سلسلہ بھی شروع کردیا، جو اس کے ایسے افسر انجام دیتے تھے، جو بعد میں ''نیشنل گارڈز'' کے نام سے مشہور ہوئے، اور انہوں نے نکارا گوا میں قتل عام کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔

سال کے اختتام تک لڑائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ سان ڈینو کے فوجی نہ تو زیادہ تربیت یافتہ تھے، اور نہ ہی ان کے پاس اچھے ہتھیار تھے، اس کے باوجود اسے مقامی آبادی کی حمایت حاصل تھی اس لیے انھیں کچلنا آسان نہ تھا۔ ڈائنامائٹ کی طاقت سے انھوں نے دشمن فوجوں، نیشنل گارڈ اور امریکی فوجیوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا۔

لاطینی امریکا کے بہت سارے ادیب، بہت ساری تنظیمیں سان ڈینو اور اس کے ساتھیوں کے گُن گانے لگیں۔ سان ڈینو کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا کہ ''وہ شمالی امریکا کے سام راجیوں کے خلاف لاطینی امریکا کے وقار کو سربلند رکھنے کی جنگ میں ہمارا ہیرو ہے۔''امریکی جنگ بازوں نے جب سان ڈینو کے سامنے سوال رکھا کہ لڑائی بند کرنے کے لیے اس کی شرائط کیا ہیں، تو سان ڈینو نے تین مطالبات پیش کیے:

(1) بیرونی مداخلت کار فوجیں فوراً نکاراگوا کی حدود سے نکل جائیں۔ (2) اڈولفوڈیاز کی جگہ عبوری طور پر نکاراگوا کے کسی ایسے شہری کی تقرری کی جائے، جو الیکشن میں صدارتی امیدوار نہ ہو۔ (3) اگلے الیکشن امریکی فوجیوں کی نگرانی میں نہیں، بلکہ لاطینی امریکی ممالک کے نمائندوں کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ یہ سادہ سے مطالبات امریکیوں کے لیے قابل قبول نہ تھے، اس لیے جنگ جاری رہی۔ سان ڈینو نے اپنی فوج کو ''قومی خودمختاری کا دفاع کرنے والی فوج'' کا نام دیا، اور اس کا نعرہ تھا۔۔۔۔۔ ''مادروطن کی آزادی''

1928 میں بھی جدید اسلحے سے لیس نیشنل گارڈز اور امریکی فوجیوں اور سینڈینسٹا دستوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی رہی۔ سان ڈینو اچانک برق رفتاری سے حملہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل کرتا رہا، اور دشمن دستے اسے پکڑنے میں ناکام رہے۔ 1928 کے اواخر میں عام انتخابات ہوئے، جس کی نگرانی امریکی نمائندوں نے کی۔ اس کے نتیجے میں سان ڈینوکا پرانا باس، غدار جرنیل جوزے ماریا مون کاڈا منتخب صدر قرار پایا۔ ایک اور حیران کن مظہر یہ تھا کہ ''آئینی جدوجہد'' کے مرکزی لیڈر جوان باتستا ساکاسا نے امریکا میں مون کاڈا کے سفیر کی حیثیت سے اپنی تقرری قبول کرلی۔ اس وقت تک دونوں لیڈر امریکی مداخلت کے ثناخواں بن چکے تھے کہ اس کے طفیل نکاراگوا میں جمہوریت بحال ہوسکی۔

اسی دوران سان ڈینو نے میکسیکو جانے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہاں سے اپنی جدوجہد کے لیے تعاون اور امداد حاصل کرسکے۔ ہنڈورس، گوائے مالا اور میکسیکو کے لوگوں نے بڑی گرم جوشی سے اس کا خیر مقدم کیا، اور ضروری امداد بھی فراہم کی۔

ادھر امریکا کی فوجیں نکاراگوا میں مقیم رہیں اور مون کاڈا نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس پر سان ڈینو کی ہدایت پر اس کے دستوں نے اپنی چھاپا مار کارروائیاں جاری رکھیں۔ سان ڈینو ایک سال تک میکسیکو میں مقیم رہا۔ میکسیکن حکومت اسے امداد فراہم کرنے سے گریز کرتی رہی۔ لیکن اسے صاف جواب بھی نہیں دیا۔ بہ ظاہر، یہ سب کچھ امریکی حکومت سے ساز باز کا نتیجہ تھا، جس کا مقصد سان ڈینو کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک نکاراگوا سے دور رکھنا تھا۔ لیکن سان ڈینو کسی طرح اپنی سیکیورٹی پر مامور میکسیکن سپاہیوں کو جُل دینے میں کام یاب رہا، اور جیسے تیسے سرحد عبور کرکے نکارا گوا میں اپنے ہیڈ کوارٹر جا پہنچا۔

اس کی گوریلا کارروائیاں جاری رہیں۔ اس دوران سان ڈینو اکثر اپنے اڈے سے غائب ہوجاتا۔ امریکی افواہ پھیلاتے کہ وہ فرار ہوگیا ہے، لیکن وہ اچانک منظر عام پر آتا اور دشمن فوج پر کاری ضرب لگا کر واپس چلا جاتا۔ یہ گوریلا جنگ کی ایک کلاسیکی مثال تھی، جس کا مظاہرہ وہ اکثر کرتا تھا۔ وہ اتنا پھُرتیلا تھا کہ نیشنل گارڈز اور امریکی فوجی بار بار اس کا تعاقب کرتے رہے لیکن اسے پکڑنے میں ناکام رہے۔

1933 میں اگلا الیکشن جیتنے کے بعد جوان باتستا ساکاسا نے صدر کی حیثیت سے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی، آٹھ سال پہلے وہ اس منصب پر فائز ہونے کا مستحق تھا، جس کے بعد ہی ''آئینی جنگ'' کا آغاز ہوا تھا۔ اسی سال 2 فروری کو امریکی فوج کا نکاراگوا سے انخلا کا عمل مکمل ہوگیا۔ اب جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ صدر ساکاسا نے سان ڈینو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ سان ڈینو اور اس کے سپاہیوں کو سیگوویا نامی علاقے میں زمین فراہم کی گئی اور اس طرح سان ڈینو اور اس کے ساتھی ہتھیار ڈال کر وہاں کھیتی باڑی کے کام میں مصروف ہوگئے۔



یہاں نکاراگوا کی تاریخ کا ایک اور جلادصفت کردار منظر عام پر آتا ہے۔ ایک سال پہلے یعنی 1932 میں پہلی بار نیشنل گارڈز کا سربراہ نکاراگوا کے ایک باشندے، اناستا سوموزا گارسیا کو بنایا گیا تھا۔ یہ وہی سوموزا ہے جس نے بعد میں امریکی پٹھو کی حیثیت سے نکاراگوا کی حکومت پر قبضہ کیا، اور نکاراگوا میں خوں ریزی کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔

وہ اور اس کا خاندان چالیس برس تک امریکا کی حمایت کے طفیل نکارا گوا میں اقتدار پر قابض رہا۔ اس درندہ صفت فوجی جرنیل نے سینڈینسٹا فوجیوں کے قتل کی مہم شروع کی۔ انھیں بلاوجہ گرفتار کرلیا جاتا، شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، اور اکثر کو ہلاک کردیا جاتا۔ (آخر کار، 1979 میں سان ڈینو کے نام پر بننے والی پارٹی، سینڈینسٹانیشنل لبریشن فرنٹ (FSLN) سوموزا جونیر کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ور یوں نکارا گوا میَں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز ہوا)

اس صورت حال میں سان ڈینو دارالحکومت ماناگوا پہنچا تاکہ صدر ساکاسا سے احتجاج کرسکے۔ اسے ایک شان دار پارٹی میں مدعو کیا گیا، جس کے میزبان صدر ساکاسا اور سوموزا تھے۔ گفتگو کے درمیان یہ سمجھوتا طے پایا کہ اس کے آدمیوں پر اب حملے نہیں کیے جائیں گے اور اس کے لوگ بھی کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گے۔

وہ صدارتی محل سے باہر نکلا تو اس کی کار، جس میں اس کے والد اور بھائی کے علاوہ اس کے دو جرنیل بھی سوار تھے، کا نیشنل گارڈز نے تعاقب کیا، اور راستے میں ایک ویران مقام پر اسے اور اس کے دو جرنیلوں اور بھائی کو اتار کر گولی مار کر ہلاک کردیا۔

یہاں لاطینی امریکا کی تاریخ کے ایک شان دار کردار کے کارناموں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ سوموزا نے پابندی لگادی کہ سان ڈینو کا تذکرہ کسی بھی مقام پر نہیں کیا جائے گا۔ آخر کار نصف صدی گزرنے کے بعد ایک بار پھر سان ڈینو کے حامی برسراقتدار آئے، اور پھر سے اس کا نام چاروں طرف گونجنے لگا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام سنہری الفاظ سے جگمگا رہا ہے۔

2010 میں نکارا گوا کی پارلیمینٹ نے دوسری بار اسے ''قومی ہیرو'' قرار دیا۔ نکاراگوا کے مرکزی ایئرپورٹ کا نام اس کے نام پر ''آگسٹو سان ڈینو انٹر نیشنل ایر پورٹ'' ہے، اور مختلف شہروں، بلکہ لاطینی امریکا کے بعض دوسرے ممالک میں بھی اس کے مجسمے نصب ہیں، جس میں وہ اپنا مخصوص طرز کا چوڑے حاشیے والا ہیٹ پہنے ہوئے ہے۔ دارالحکومت ماناگوا میں اس کے سب سے بڑے مجسمے کی اونچائی 59 فیٹ ہے۔

ابتدائی حالات
سان ڈینو کا باپ، گریگوریو سان ڈینو ایک اسپینی نژاد زمیں دار تھا، ماں، مارگریٹا کالڈیرون اس کے گھر میں خادمہ کی حیثیت سے کام کرتی تھی۔ دونوں کے درمیان رسمی شادی نہیں ہوئی۔ وہ نو سال تک ماں کے ساتھ رہا۔ اس کے بعد باپ اس کی تعلیم کا بندوبست کرنے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔

1926میں جب وہ 26 سال کا تھا، اس نے ایک مشہور امیر آدمی کے بیٹے پر قاتلانہ حملہ کیا، کیوں کہ اس نے اس کی ماں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ حملے کے بعد وہ ہنڈورس بھاگ گیا، اور وہاں سے گواٹے مالا اور پھر میکسیکو پہنچا۔ میکسیکو میں اس نے ایک آئل ریفائنری میں ملازمت کی اور میکسیکو میں جاری انقلابی لہر کا مطالعہ کرتا رہا۔ یہاں اس کی انارکسٹوں کے علاوہ بعض مشہور انقلابیوں، کمیونسٹوں اور سام راج دشمنوں سے رابطہ ہوا جس سے اس کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا۔ِ

1926 میں وہ نکارا گوا واپس آگیا اور سان البینو کی سونے کی کان میں جو سیگو ویاس پہاڑوں میں واقع تھی، کلرک کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اس کی واپسی کے کچھ عرصے بعد ''آئینی جنگ'' کا آغاز ہوا۔ شروعات اڈولفو ڈیاز کے خلاف جدوجہد سے ہوئی جو امریکا کی مدد سے آئینی صدر جوان باتستا ساکاس کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ ساکاسا اس فوجی بغاوت کے بعد فرار ہو کر میکسیکو میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ اس کی حامی ''لبرل'' فوج نے جنرل جوزے ماریا مون کاڈا کی سربراہی میں مسلح مزاحمت کا آغاز کی تو ساکاسا جلاوطنی ترک کرکے واپس آگیا۔

یہی وہ وقت تھا جب سان ڈینو نے سان البینو کان کے مزدوروں کو منظم کیا اور یوں اس کی ''کنزرویٹو'' دستوں پر چھاپا مار کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس نے آگے چل کر جنرل مون کاڈا کے ساتھ کام کرنا چاہا، لیکن مون کاڈا اسے ٹالتا رہا۔ چناںچہ سان ڈینو خودمختارانہ طور پر اپنی گوریلا کارروائیوں میں مصروف رہا۔

امریکی صدر ہربرٹ ہوور کے نام سان ڈینو کا ایک کھُلا خط

6 مارچ1929
بنام ہربرٹ کلارک ہوور
صدر ریاست ہا ئے متحدہ امریکا
محترم،
تمہیں اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے مسرت ہورہی ہے کہ اپنے فوجیوں کی کوششوں سے ہم متحدہ امریکا کے سابق راہ نما کیلون کولائیڈ اور اس کے سیکریٹری آف اسٹیٹ، فرینکلین بی کیلوگ کی چال سے بچ چکے ہیں۔ یہ دو بدطینت افراد کی جوڑی ہے جن کے حکم پر بڑی بے حیائی سے میری قوم کے لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے، ہمارے کھیتوں کو آگ لگا کر اُجاڑا جا رہا ہے، ہماری خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور مکر و فریب کے ذریعے ہمیں ہمارے آزادی کے مقدس حق سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہیں جتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ملکی امور میں مداخلت پر ریاست متحدہ ہائے امریکا کو اُس کے ہر جُرم کی سخت سے سخت سزا دینے کے لیے تیار ہیں۔ نکاراگوا امریکا کی ایک پینی کا بھی مقروض نہیں ہے، لیکن تم 1909سے ہمارے امن کو تباہ کرنے کے مقروض ہو، جب وال اسٹریٹ نے نکاراگوا میں ڈالر میں رشوت متعارف کروائی۔ جب امریکی بینک کار ایک ہزار ڈالر میرے ملک میں استعمال کرتے ہیں، تو نکاراگوا کے ایک شہری کی جان اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اور ہماری مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹے اُن کے غم میں آنسو بہاتے ہیں۔

اگست1909میں جعلی اڈولفو ڈیاز شمالی امریکا کی ایک مائننگ کمپنی لا لوز میں دو ڈالر 65 سینٹ یومیہ اُجرت پر کام کرنے والا ایک چوتھے درجے کا ملازم تھا۔ وال اسٹریٹ کے بینک کاروں نے اڈولفو ڈیاز کو نکاراگوا میں اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ انہوں نے ڈیاز کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اُن باغیوں کے ساتھ کام کرے جوآن جے اسٹراڈا کے ساتھ مل کر آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کر رہے تھے۔ اُس وقت جے اسٹراڈا بلیو فیلڈ کے گورنر کے عہدے پر براجمان تھا۔

وال اسٹریٹ کے بینک کاروں نے اُن بدقماش باغیوں کی مدد کے لیے اڈولفو ڈیاز کو 8لاکھ ڈالر فراہم کیے۔ اُس الم ناک لمحے کے بعد سے سوگ کی لہر میرے پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ نکاراگوا کے تمام لوگ ان لفظوں کی سچائی سے مکمل طور پر واقف ہیں جن کا میں نے اظہار کیا ہے۔

وال اسٹریٹ کے بینک کاروں نے ڈالر کی کشش سے اڈولفو ڈیاز اور نکاراگوا کے دیگر بدعنوان افراد کو آلۂ کار بنا کر نکاراگوا کے اُن شہریوں کو بھی قرض لینے پر آمادہ کیا جس کی انہیں ضرورت نہیں تھی۔ ان بینک کاروں نے نکاراگوا کے غداروں کو منتخب کر کے اُن کے ساتھ معاہدوں کو ایک قانونی شکل دی ۔ امریکی قزاق سمجھ گئے تھے کہ نکاراگوا کے عوام نے حقارت سے ان معاہدوں کو مسترد کردیا ہے۔ اسی لیے امریکی حکومت ہمارے ملک میں اقتدار میں رہنے کے لیے ہر ممکن چال چلنے پر تُلی ہوئی ہے۔

1923 میں اسی وجہ سے امریکی حکومت کے حکم پر وسطی امریکا کی حکومتوں نے امریکا سے باہر خلیج فونسیکا میں موجود جہاز 'ٹیکوما' پر ان معاہدوں کا جشن منایا۔ اسی حکومت نے اُن حکومتوں سے کچھ شرائط پر متفق ہونے کی تجویز بھی پیش کی۔ ان معاہدوں میں ہونے والی شرائط کے مابین اس بات کو بھی معین کیا گیا کہ وسطی امریکا کی کوئی حکومت بغاوت سے برسراقتدار نہیں آئے گی اور اس بات کو امریکی حکومت اور وسطی امریکا کی دیگر حکومتوں کی طرف سے تسلیم کیا گیا۔

امریکیوں کو امید تھی کہ ان معاہدوں کے حصول کے بعد وہ اقتدار اُن افراد کو دیں گے جونکاراگوا کی خود مختاری کو بیچ چکے ہیں، کیوں کہ غداروں کے ساتھ معاہدوں کی مدت ننانوے سال تھی جسے امریکی خواہش کے مطابق مزید طول دیا جاسکتا تھا۔ اس وقت وال اسٹریٹ کے بینک کار خود کو نکاراگوا کا مالک سمجھتے تھے۔ وہ اپنے آہنی صندوقوں کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتے اور اپنے ہاتھ اور بھنویں آسمان کی طرف کر کے خدا کا شکر ادا کرتے جس نے انہیں ایک عظیم معجزے کی شکل میں 'سونا'دیا (اسی مردود ڈالر نے دیمک کی طرح امریکا سام راجیت کی بنیادوں کو کم زور کیا اور یہی اس کے زوال کا سبب بنیں گے) ۔



یہی اطوار نکاراگوا کے غداروں کے تھے جو امریکی سنگینوں کی بدولت اُس وقت طاقت ور تھے۔ خدا نے انصاف کیا اور اُس وقت 'ٹاکو مو' پر ہونے والے معاہدے سے اتفاق کرنے والے نکاراگوا کے صدر ڈان ڈیاگو مینوئیل کیمورو کی زندگی کا اختتام ہوا۔ نکاراگوا کے عوام جو یہ سمجھتے تھے کہ اُن کا آزادیِ اظہار کا حق ہمیشہ کے لیے چھن چکا ہے، انہیں ڈان ڈیاگو کے مرنے کے بعد نکارا گوا کی خودمختاری کے لیے بہتری کا امکان نظر آیا۔ ایک سیاست داں Bartolomé Martínez کو ڈان کی صدارت کی میعاد پوری کرنے کے لیے صدر بنا دیا گیا۔ انتخابات کے بعد کارلوس سولور زانو کو صدر اور جوآن باتستا ساکاسا کو نائب صدر منتخب کرلیا گیا۔

سابق امریکی صدر کیلون کولائیڈ اور سیکریڑی آف اسٹیٹ فرانک بی کیلوگ ہمارے عوام کو انصاف ملتا دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہوگئے، ایک شیطانی منصوبہ اڈولفو ڈیاز، ایمی لیانوکیمورواور اُن کے پیش روئوں کے ذہنوں میں مچلنے لگا، اور 24اکتوبر1925کو وہ اپنا مشہور مکروہ منصوبہ لائے اب جسے مہذب دنیا اچھی طرح جانتی ہے۔

پھر انہوں نے ڈان کارلوس کو پاگل قرار دے کر صدارت سے دست بردار ہونے کا مطالبہ کردیا اور نائب صدر ڈاکٹر ساکاسا کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے انہیں زچ کر کے ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ لیانوکیمورو خود صدر بن گیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا نے مہذب دنیا کے سامنے سیاسی شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیموروکو بہ طور صدر تسلیم نہیں کیا۔ تاہم اس کی جگہ اس کے شریکِ جُرم اڈولفو ڈیاز کو تسلیم کرلیا۔ اُس وقت ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ سب کولائیڈ اور کیلوگ نے وال اسٹریٹ کے ایماء پر کیا ہے۔

ہوورصاحب، اگر تمہارے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں ہیں تو دیکھو، سننے کے لیے کان ہیں تو سنو۔ اپنے لیے نہیں تو اُن لوگوں کے لیے جن کی تم نمائندگی کرتے ہیں۔ کولائیڈ اور کیلوگ شمالی امریکا کے دو ایسے سیاست داں ہیں جن کی سرگرمیوں نے واشنگٹن کی ساکھ کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ یہ میرے وطن میں بہنے والے آنسوئوں اور خون کی ندیوں کا سبب ہیں، انہوں نے بہت سے امریکی گھرانوں کو غم اور آنسوئوں کی بارش میں دھکیل دیا ہے۔ آج امریکا کی جمہوریت خود کو ایک تنگ غار کے دہانے پر دیکھتی ہے۔ تم چاہو تو اسے غار میں دھکا دے دو یا اسے گرنے سے روک لو۔ تمہاری حکومت کا کردار اب تمہارے ملک کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

ڈان ڈیاگو مینوئیل کیمورو کی موت کے بعد میرے وطن میں امریکی پالیسی بے نقاب ہوچکی ہے۔ میرے ملک میں کولائیڈ اور کیلوگ کے طرز عمل سے تمہارے لیے نفرت اور بداعتمادی کی فضا بن چکی ہے، اور تقریباً پوری دنیا میں یہی فضا پائی جاتی ہے۔ نکاراگوا میں تمہارا کوئی دوست نہیں، ماسوائے اُن چند ضمیر فروشوں کے جو نکاراگوا کے عوام کے جذبات کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے۔ میں اپنی فوج کے میرے ہم وطنوں کے لیے موجود حقیقی احساس کی نمائندگی کرتا ہوں۔

میں نہیں جانتا کہ تمہاری قوم کے پاس مادی ذرایع کیا ہیں۔ در حقیقت تمہارے پاس سب کچھ ہے سوائے 'خدا' کے۔

ڈاکٹر ساکاسا وہ شخص تھا جس کا مْقصدکولائیڈ کے اُس ظلم کو مسترد کرنا تھا جو وہ نکارگوا کے شہریوں کی خودمختاری کے خلاف بزورِ کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ وہ خوف زدہ تھا، تم نے اُس کی تذلیل کی اور اسے اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھنے پر مجبور کیا۔ یہ تمہاری غلطی تھی جو تم یہ سمجھ رہے تھے کہ تم ہر شخص کی اُسی طرح تذلیل کروگے جیسی ساکاسا کی کی تھی۔ جب تک کولائیڈ اور کیلوگ کی پالیسیاں جاری رکھو گے، اُس وقت تک تمہیں سان ڈینوز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

تمہیں دیکھنا چاہیے کہ یہاں خدائی انصاف کی ہوائیں ہیں جو ہمیں سہارا دے رہی ہیں، لیکن یہی ہوا اُن کے لیے آندھی ہے جو شیطانی کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف اور حق کی جستجو میں مجھے تمہاری اُن پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہونا پڑا، جو تم نے میرے ملک کے خلاف بنائی ہیں۔

مادر وطن کی آزادی زندہ باد!!
آگسٹو سیزر سان ڈینو
(ترجمہ: بابر علی)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں