پانچ ہار

جیت کے مقابلے میں ہار کون قبول کرتا ہے؟ جب یہ ہار سونے یا ہیرے کا ہو تو دل ڈگمگا جاتے ہیں


[email protected]

KARACHI: جیت کے مقابلے میں ہار کون قبول کرتا ہے؟ جب یہ ہار سونے یا ہیرے کا ہو تو دل ڈگمگا جاتے ہیں۔ کمزور لوگوں کے لیکن مضبوط دل کے لوگ اپنے آپ کو سنبھال لیتے ہیں۔ آج ہم پانچ مختلف ہاروں کی بات کریں گے جنھوں نے انسانی نفسیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک ہار انتہائی، انتہائی، انتہائی متبرک ہستی کا۔ دوسرا ہار ایک خاتون کو شادی کے موقعے پر ملا تھا جب کہ تیسرا ہار ایک خاتون اول نے برادر اسلامی ملک کے مصیبت زدگان کے لیے تحفہ کردیا تھا۔ چوتھا ہار ایک سابق وزیراعظم کا اور پانچواں ایک فلمی ہار ہے۔

معرکہ بدر میں کچھ قیدی گرفتار ہوئے۔ یہ غزوہ اسلامی تاریخ کا اہم ترین غزوہ ہے۔ اس میں وہ کشمکش پیدا ہوئی کہ ہر موقعے پر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں،اگر دل سنگدل نہ ہو۔ یہ وہی جنگ تھی جس میں پڑھے لکھے کفارقیدیوں کو مدینے کے دس بچوں کو تعلیم دے کر رہائی کی پیشکش کی گئی تھی۔ ہم اس واقعے سے چند سال پیچھے چلتے ہیں۔ مدینے کے جنگی میدان سے مکے کے پہاڑی علاقوں کی جانب بڑھتے ہیں۔

سرور عالمؐ اپنے رب کی جانب سے سونپے گئے مشن کی تکمیل میں مصروف تھے۔ آپ کی بڑی صاحبزادی کے شوہرکا دل ابھی نرم نہیں ہوا تھا۔ دس نبوی آگیا جب دنیائے اسلام کی سب سے متبرک خاتون انتقال فرما گئیں۔ اس سے چند دن قبل وہ چچا بھی فوت ہوگئے تھے جو ہر موقعے پر ساتھ دیا کرتے تھے۔ تین برس اور گزرے تو ہجرت کا حکم نازل ہوا۔ مدینے میں دوسرا برس تھا کہ بدرکا معرکہ پیش آگیا۔ سترہ رمضان المبارک اور دو ہجری۔ اس جنگ میں مکے والوں کی جانب سے لڑتے ہوئے ابوالعاص گرفتار ہوکر آئے۔ فدیہ میں آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے مکے سے ماں کا شادی میں دیا ہوا ہار بھجوایا۔ یہ ہار دیکھ کر نبی مہربان کو اپنی صابر و شاکر اہلیہ حضرت خدیجہؓ یاد آگئیں۔آپؐ کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ وہ پندرہ سالہ رفاقت یاد آگئی جو اعلان نبوت سے قبل گزرے تھے۔ پرسکون اور بہتے دریا کی طرح وہ پندرہ سال۔ وہ نو برس یاد آگئے جوکشمکش اور تکالیف میں گزرے۔ غمگسار رفیقہ حیات کی یاد تازہ کردی اس ایک ہار نے۔

یہ دسمبر 2012 کی بات ہے۔ کراچی کے ہال میں نکاح کی ایک تقریب تھی۔ یہ شادی پاکستان کی سات بڑی پارٹیوں میں سے ایک کے سربراہ کے بیٹے کی شادی تھی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، اے این پی اور جمعیت علما اسلام۔ دس بارہ بڑی سیاسی شخصیات میں سے کوئی میزبان ہو تو سیکڑوں بڑے بڑے لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق تحفے، لفافے اور زیور دیتا ہے۔ لیڈرکی اپنی مالی حیثیت تو مستحکم نہ تھی لیکن بڑی پارٹی کے سربراہ ہونے کے سبب درجنوں ارب پتی اور سیکڑوں کروڑ پتی تو ہوں گے۔

جو نہیں آسکے ہوں گے انھوں نے بھی رسم دنیا نبھانے کے لیے کچھ نہ کچھ بھجوایا ہوگا۔ نکاح کی محفل ختم ہوئی تو وہ لیڈر تمام اہل خانہ کے ساتھ گھر پہنچے۔ بیٹا بھی خوش تھا اور بہو بھی۔ شریک مہمانوں کی شہرت اور مالی حیثیت میزبان کے بینک بیلنس سے کہیں بڑھ کر تھی۔ ان تحائف میں ایک ہار بھی تھا۔ تحفوں کے پیکٹ اور لفافوں میں کرنسی کا کوئی شمار نہ تھا۔ خاندان کے سربراہ نے جو اپنی پارٹی کا لیڈر بھی تھا، اس نے ایک کام کیا۔ اس نے تحائف کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔

ایک جانب وہ مال و متاع تھی جو دولہے کے چچا، ماموں، خالاؤں، عزیز و اقارب، انکلز، دوستوں اور رشتے داروں، دلہن کے بھائیوں، چچیوں، آنٹیوں اور سہیلیوں نے دیے تھے۔ دوسری جانب وہ تحائف تھے جو سیاسی اور سماجی شخصیات نے دیے تھے۔ اس شخص نے بڑے ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے بیٹے اور بہو سے پوچھا کہ یہ خاندان کے سربراہ کے سبب ملے ہیں یا پارٹی کے سربراہ ہونے کی وجہ سے۔ سب نے یک زبان کہا کہ یہ اس لیے ملے ہیں کہ آپ ایک جماعت کی قیادت کرتے ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ پھر یہ سب کچھ ہمارا تو نہ ہوا بلکہ یہ سب کچھ تو پارٹی امانت ہے۔

تیسرا ہارترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کی اہلیہ نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دیا۔ ٹنڈولکر کا بلا ہو یا محمدعلی کے گلوز، فٹ بالر پیلے کی ٹی شرٹ ہو یا بل گیٹس کا چشمہ، ان کی قیمت زیادہ اس لیے آتی ہے یہ مشہور شخصیات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یوں کم قیمت خرچ کرکے خدمت خلق کے بڑے کام ہوسکتے ہیں۔ پندرہ بیس لاکھ کا زیور نیلام ہوتا توکروڑ روپے میں نیلام ہوتا، یوں پچاس بیٹیوں کو بیاہا جاتا۔ 2010 میں نادرا کے چیئرمین نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو تجویز دی کہ ہمارا ادارہ اس ہار کو سولہ لاکھ روپے میں خرید لیتا ہے۔ یوں دادو کے سیلاب زدگان کی آٹھ بچیوں کے ہاتھ پیلے کردیے گئے۔ پھر اس ہار کو وزیر اعظم ہاؤس پہنچادیا گیا۔ جب یوسف رضاگیلانی رخصت ہوئے تو یہ ہار بھی اپنے ساتھ لیتے گئے۔ نادرا کی آڈٹ میں شور مچ گیا کہ ہار کہاں گیا تو یوسف گیلانی نے کہا کہ یہ تو میرے پاس ہے۔

بے نظیر بھٹو کا بھی ایک ہار تھا جو چوتھا ہار قرار پاتا ہے۔ اس پر دھند ہے کہ اس کا کیا ہوا؟ پھر بے نظیرکی شہادت کے بعد ہمدردی کی وہ لہر اٹھی کہ اس پر زیادہ بحث و مباحثہ نہ ہوا۔ ہم اس گفتگو کو یہیں ختم کرکے ایک فلمی ہار کی طرف آتے ہیں۔ مرد حضرات چاہیں تو کالم یہیں پر چھوڑ دیں۔ خواتین سے گزارش ہے کہ وہ ایک ماں کو دیکھیں۔ بے شک یہ فلمی ماں ہے لیکن جب بچوں کے ساتھ یہ فلم دیکھی تو ایک عورت کی چار خوبیاں نظر آئیں۔

سنجے دت اس فلم کے ہیرو ہیں۔ وہ ایک بے روزگار شخص ہے اور پاؤ بھاجی کا ٹھیلا اپنے والد سے رقم لے کر لگاتا ہے۔ وہاں اس کا جھگڑا کسی بگڑے رئیس کے لاڈلے بیٹے سے ہو جاتا ہے اور فلمی ہیرو برائی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔

ہم بات ہیرو کی نہیں کر رہے بلکہ ہماری چار خوبیوں والی آج کی ہیروئن ایک ماں ہے۔ جب سنجے کا بڑا بھائی اپنے والدین کا گھر چھوڑ جاتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ ''بیٹا! ہمیں تمہارے گھر میں نہیں بلکہ دل میں جگہ چاہیے۔'' ماں کی دوسری خوبی کو ہم سب سے آخر میں لیں گے کہ اس میں ایک ہار کا ذکر ہے، ہمارے کالم کے آخری ہار کا۔ جب سنجے کے پیچھے پولیس لگتی ہے تو پورے خاندان کو مصیبت اور پریشانیوں سے بچانے کے لیے ماں اپنے بیٹے کو گولی مار دیتی ہے۔ چوتھی خوبی اس وقت نظر آئی جب وہ اپنے پوتے سے کہتی ہے کہ ''ہر کوئی اپنی شکایت پر قانون ہاتھ میں لینے لگے تو معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔'' اب آتے ہیں اہم خوبی کی طرف۔ غریب عورت اکثر زیور پر مر مٹتی ہے کہ وہ اس کا اعزاز بھی ہوتا ہے اور تحفظ بھی۔ سنجے اپنی ماں کو ایک کلو وزن کا ہار دیتا ہے لیکن وہ قبول نہیں کرتی۔ ایک تولا نہیں بلکہ ایک کلو کا ہار۔ وہ کہتی ہے کہ یہ حرام کے پیسوں کا ہے۔

زیور، بینک بیلنس، گاڑیاں، بنگلے، کارخانے اور فیکٹریاں انسان کو سہولتیں اور آسانیاں عطا کرتی ہیں۔ جب اچھے خاصے خوشحال لوگ سب کچھ ہوتے ہوئے ناجائز پر مَر مٹیں اور کم حیثیت لوگ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں تو؟ بات سمجھ آتی ہے کہ کہاں تربیت و خاندانی وقار اور خوف خدا ہے اور کہاں ہائے دنیا ہائے دنیا ہے۔ ہم نے تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان سے ہوتے ہوئے ایک فلمی ہار کا تذکرہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ شاید ہمیں کچھ سبق سکھا جائیں یہ پانچ ہار۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں