اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا آخری حصہ
کیا ہم خود رستہ منتخب کرتے ہیں، خود اس پر چلتے ہیں۔ جو اللہ اس راستے پر ڈالتا، اس پر چلنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے
امی نے اپنے چند ڈبے زیورات ایک بڑے سے ٹرنک میں واپس رکھ لیے اور ابا جی حسب معمول اپنی تسبیح اٹھا کر چھت پر چلے گئے۔ ان کا معمول تھا کہ رات دیر گئے چھت پر بچھے ایک کھجور کے تنکوں والے مصّلے پر لیٹے تسبیح ہاتھ میں گھماتے اور ستاروں کی گردشوں میں کھوئے رہتے۔ کبھی کبھی میں نے اپنے والد کو طویل سجدوں میں روتے اور اللہ سے دیر تک گفتگو کرتے دیکھا۔ وہ اپنی دن بھر کی کہانیاں میری ماں کو آ کر سناتے جو اس دوران اسی چھوٹے سے صحن میں کبھی کپڑے دھو رہی ہوتی، کھانا پکانے میں مصروف ہوتی یا پھر ہمارے کپڑوں کی پیوندکاری میں مگن، مگر رات کو اللہ سے گفتگو میں ان کی باتیں کچھ اور ہوتیں جو میرے پلے نہ پڑتیں۔ میٹرک کے بعد کا یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے ہر قسم کی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ ایک تو فراغت اور دوسرا گھر کے نزدیک میونسپل کمیٹی کی کنگز لائبریری تھی۔
امام مسجد کے نواسے اور پوتے کے دل میں الحاد نے جنم لینا شروع کیا تو میری ماں پریشان ہو گئی۔ بارہ سال کی عمر، جو پڑھتا ذہن پہ نقش ہو جاتا اور امی کے سامنے آ کر اگل دیتا۔ وہ مجھے حیرت سے تکتی رہتیں۔ اسی دوران میں نے دیکھا امی پریشان سی رہنے لگی ہیں۔ تسبیح اب ان کے ہاتھ میں بھی آ گئی تھی۔ نہیں معلوم کیا کچھ پڑھتیں اور پھر ایک گلاس پانی پر پھونک مار کر مجھے پینے کو دیتیں۔ دہریت کا خمار چڑھے تو آدمی ایسی تمام چیزوں کے اثرات پر یقین کھو دیتا ہے۔ میں پانی پی لیتا اور مسکراتے ہوئے امی سے کہتا، امی آپ اتنی محنت کیوں کرتی ہیں، ان چیزوں کا کوئی اثر تھوڑا ہوتا ہے۔ امی سمجھتیں مجھ پر کوئی آسیب آ گیا ہے۔ کسی نے مجھ پر جادو کر دیا ہے۔
دیکھو اللہ کو ہی نہیں مانتا۔ والد سے شکوہ کرتیں تو وہ خاموشی سے مسکرا دیتے۔ بس اتنا کہتے، کہیں نہیں جاتا، بھاگنے دو اسے جتنا چاہے بھاگ لے، واپس آئے گا، میں نے اسے درود شریف کی لوریاں دے کر پالا ہے۔ لیکن ماں کے دل کو قرار کہاں۔ ایک دن مجھے ساتھ لیا، بس پر سوار ہوئیں اور گکھڑ کے قریب ایک گاؤں میں لے گئیں جہاں ایک بابا، جادو، نظر اور جنات کا علاج کرتا تھا۔ عورتوں کا ایک ہجوم اس کی چار پائی کے ارد گرد اور وہ چادر تان کر لیٹا ہوا۔ اچانک اس کے اندر کوئی روح حلول کرتی اور وہ موٹی موٹی آواز میں بولنے لگتا، ہر کوئی اپنی حاجت بیان کرتا، وہ ایک مہنگا سا نسخہ بتاتا، لوگ ساتھ کھڑے آدمی کو پیسے دیتے اور باہر چلے جاتے۔ میں نے دیکھا امی یقین و بے یقینی کے عالم میں آ گئیں ہیں۔ سب دیکھ کر باہر نکل آئیں، بس پر سوار ہوئیں اور مجھے لے کر گھر آ گئیں۔ سارا رستہ چپ۔ گھر آئیں اور بس اتنا کہا، ایسا مت ہو جانا کہ نانا دادا اپنی قبروں میں شرمندہ ہو جائیں۔
میں کالج داخل ہو گیا۔ ابا جی نے گجرات سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر وزیر آباد کے نزدیک ایک فیکٹری میں ملازمت کر لی۔ بڑھاپا، روزانہ دو بسیں بدل کر دفتر پہنچنا، بیمار ہوئے، میری صابر و شاکر ماں نے صرف اتنا کہا، ہمیں آپ کا سایہ سر پر چاہیے، رزق تو اللہ دیتا ہے۔ اللہ کچھ لوگوں کے فقرے عرش معلیٰ تک جانے سے پہلے ہی قبول کر لیتا ہے۔ میری ماں نے یہ فقرے منہ سے نکالے ہی تھے کہ درسی ادارہ گجرات کے یونس بٹ نے گھر کے دروازے پر دستک دی، ان کے ساتھ ان کے بڑے بھائی صادق بٹ بھی تھے۔ کہنے لگے ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ درسی ادارے کا اکاؤنٹنٹ چھوڑ کر چلا گیا ہے، آپ وہاں آ جائیں۔ یہ ادارہ میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ زندگی کسی حد تک ڈگر پر آ چکی تھی، لیکن پھر بھی تنخواہ قلیل تھی اور اب تو ہم آٹھوں بہن بھائی کالج اور اسکول جانے لگے تھے۔ گھروں کے کرائے بڑھنے لگے تھے اور ہر چند سالوں بعد جب کوئی مالک مکان کرایہ بڑھانے کو کہتا تو ہم مزید چھوٹے گھر میں منتقل ہو جاتے۔
ایک دفعہ ہم شاہدولہ روڈ پر منتقل ہوئے۔ یہ جگہ ذرا دور تھی۔ ہمارا سامان گدھا گاڑیوں پر منتقل ہوا۔ اس دوران وہ سارے برتن جو امی نے سوکھے ٹکڑے، پرانے جوتے اور کپڑے دے کر خریدے تھے، ٹوٹ گئے۔ برتنوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر پھینکتی جاتیں اور کہتیں، چونکہ اب ہمارے گھر کوئی مہمان ہی نہیں آتا، اس لیے اللہ نے یہ فالتو برتن بھی ہم سے لے لیے۔ تسلیم و رضا کی کونسی ایسی منزل ہے جو میں نے اپنی ماں سے نہ سیکھی ہو۔ ہر حال میں خوش رہنا، ہر بڑے سے بڑے نقصان میں اللہ کی جانب سے حکمت اور خیر کا پہلو نکالنا۔ دست سوال تو بہت دور کی بات ہے، بندوں کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار تک نہ کرنا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے وافر رزق اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ گزشتہ چھتیس سال سے میں نوکری کر رہا ہوں۔ ان چھتیس سالوں میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں کہ میری ماں نے کبھی مجھ سے کوئی فرمائش کی ہو، کسی لباس، آسائش کا سامان، یہاں تک کہ کسی موسم کے پھل کی بھی۔ یہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں، کسی بہن بھائی سے بھی انھوں نے کوئی فرمائش نہ کی۔
کالج کے موسم کی ہوا میں آوارہ گردی کے جراثیم ہوتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں شام ڈھلے منڈلیاں لگنا شروع ہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن نے یہ سب ختم کر دیا تھا لیکن ہمارے گھر میں تو ٹیلی ویژن تھا ہی نہیں۔ ایک ریڈیو تھا جو ابا جی کے پلنگ کے ساتھ طاق میں پڑا رہتا۔ شام کو چھت پر جا کر اس کا ایریل سیدھا کرنا میری ذمے داری ہوتی۔ میں نے رات دیر سے گھر آنا شروع کر دیا۔ والد ناراض تھے، لیکن امی مجھے ان کی ڈانٹ سے بچا لیتیں۔ ان کی ناراضگی کا اظہار یہ تھا کہ وہ خود اٹھ کر دروازہ نہ کھولتے، میرے دروازہ کھٹکھٹانے پر آواز آتی، آ گیا ہے تمہارا لاڈلا۔ امی دروازہ کھولتیں اور اس وقت چولہا جلا کر روٹی پکا کر دیتیں۔
کبھی ایسا نہ ہوا کہ میری لیے پکا کر رکھ دی ہوں۔ امی کی آنکھ سے میں نے ان تمام مصائب و آلام میں کبھی آنسو بہتے نہیں دیکھے۔ البتہ اتوار کی شام وہ اپنا تمام کام جلد سمیٹ کر میرے والد کی پائنتی آ کر بیٹھ جاتیں۔ ریڈیو سے بانو قدسیہ کا ڈرامہ آتا۔ امی پورے ڈرامے کے دوران آنسو بہاتی رہتیں۔ مجھے بانو قدسیہ پر بہت غصہ آتا کہ یہ کیسی عورت ہے جو میری ماں کو ہر ہفتے رلاتی ہے۔ جب بانو آپا سے ملاقات ہوئی تو میں نے یہ گلہ کیا۔ کہنے لگیں اگر تمہاری ماں میرے ڈراموں کے بہانے نہ روتیں تو تم لوگوں کو صبر اور شکر کے معنی کیسے پتہ چلتے۔
پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ ہاسٹل میں رہنا۔ اخراجات کا طوفان۔ میرے والد ہر ماہ لاہور آتے اور مجھے دو سو روپے دے جاتے۔ باقی میں اخبار میں مضامین لکھ کر پورا کرتا۔ مجھے حیرانی ہوتی جس شخص کی تنخواہ ڈھائی سو روپے ہے وہ دو سو روپے مجھے دے کر باقی بچوں کو کیسے پالتا ہے۔ لیکن میرے متوکل باپ نے کبھی یہ عقدہ مجھ پر نہ کھولا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں استاد ہو گیا۔ یونیورسٹی میں گھر ملا۔ میں نے امی سے کہا کہ سب بہن بھائیوں اور ابا جی کو ساتھ لے کر میرے پاس آ جائیں۔ بولیں یہ اولاد اللہ نے ہمیں پالنے کے لیے دی ہے، تمہیں نہیں۔ یہ ہمارا بوجھ ہے۔ سختی سے منع کر دیا اور اپنی روز مرہ معمولات میں مصروف ہو گئیں۔
سول سروس کا امتحان پاس کیا، اکیڈمی جانے سے پہلے گجرات ابا جی اور امی کے پاس گیا۔ ابا جی بہت خوش تھے۔ گلے ملے تو دیر تک درود پاک کا ورد کرتے رہے۔ امی ساتھ کھڑی تھیں۔ کہنے لگیں یہ نوکری صحیح ہے، لیکن مجھے تو تمہارے پیدا ہونے سے پہلے خواب میں کچھ اور دکھایا گیا تھا۔ میں نے کریدا۔ پورا خواب بیان کیا تو میں نے کہا، امی یہ تو بہت بڑی منزل ہے، بڑی آزمائش ہے، بہت کٹھن راستہ ہے۔ میری ماں نے زندگی کا نچوڑ میرے سامنے رکھ دیا۔ کہنے لگیں۔ کیا ہم خود رستہ منتخب کرتے ہیں، خود اس پر چلتے ہیں۔ جو اللہ اس راستے پر ڈالتا، اس پر چلنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے۔
اچھے دن آ گئے، امی کو بیٹیاں بھی ایسی ملیں کہ انھیں ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھتیں۔ خدمت میں حد سے گزر جانے والی۔ لیکن امی کے لباس سے سادگی گئی اور نہ رہن سہن میں بناوٹ آئی۔ 1999ء میں ابا جی چلے گئے۔ وہ ابا جی جن کی زندگی سے میں نے ایک عشق سیکھا اور وہ تھا عشق رسولؐ۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا نام آتا تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی، حالت غیر ہو جاتی، کبھی کبھی تو ہچکیوں کی آواز اتنی بلند ہوتی کہ امی آ کر سنبھالتیں اور کہتیں، پڑوس میں آواز جائے گی۔ مدینے جانے کی خواہش ان کے دل میں مچلتی تھی۔
ہمارے حالات بہتر ہوئے تو ان کی صحت نے وہاں جانے کی اجازت نہ دی۔ میں عمرے پر گیا، واپس آیا میں نے کہا کہ آپ کا سلام روضہ رسولؐ کے سامنے عرض کر دیا تھا، گھنٹوں روتے رہے اور اس دن کے بعد سے مجھے اوریا صاحب کہنے لگے کہ میں مدینے سے ہو کر آیا ہوں۔ 2010ء میں امی کو عمرے پر لے کر گیا۔ مکے سے مدینہ جانے سے پہلے مجھے ایک جانب لے گئیں اور کہنے لگیں تمہارے باپ کو مدینے جانے کا کتنا شوق تھا، ہر ماہ تھوڑے سے پیسے جمع کرتے، میں خرچ کروا دیتی۔ پنشن آئی، اکٹھے دس ہزار روپے ملے، بہت خوش تھے کہ اب تو مدینے سے بلاوا آ ہی گیا ہے لیکن میں نے سارے پیسے تیری پڑھائی پر لگوا دیے۔