یہ فتنہ …اور ایک مچھر

یہ فتنے کھڑا کرنے والے ہر صورت میں انسانیت کو آگ میں ڈال دینا چاہتے ہیں ۔


انیس منصوری June 14, 2015
[email protected]

یہ فتنے کھڑا کرنے والے ہر صورت میں انسانیت کو آگ میں ڈال دینا چاہتے ہیں ۔ یہ خود کو سب سے اعلیٰ ثابت کرنے کا فریب خود تو ڈبوتا ہے اپنے ساتھ ایک نسل کو بھی تباہ کر دیتا ہے ۔ ریاست کے سربراہ جب اشتعال دلانے لگ جائیں تو سمجھ جانا چاہیے کہ اب ان کی سوچ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ لڑائو اور حکومت کرو کا فیصلہ انھیں تاریخ میں ایک ہیرو کے طور پر پیش کرے گا تو وہ جان لیںکہ یہ ہی خواہش ہٹلر کی بھی تھی ۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ آپ نے اپنے اندر ہٹلرکو بسا تو لیا ہے مگر ہٹلر کے انجام سے واقف نہیں ۔

اس خطے میں بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ پاکستان نظریاتی طور پر خود کو بدل رہا ہے ۔ ریاست نے اپنی حکمت عملیاں تبدیل کی ہیں ایسے میں پڑوس سے ایک جاہل کابینہ ہمیں الجھا دینا چاہتی ہے ۔ وجہ چین سے ہمارا تعلق ہو یا پھر امریکا سے ہماری دوستی،روس سے ہماری شراکت یا پھر سری لنکا سے ہمارا رشتہ اگر بھارت کی موجودہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اشتعال دلا کر ہمیں کسی ایسے راستے پر لے جائے گی جہاں سے وہ سارا میٹھا میٹھا کھا سکے گی تو یہ اُن کی بھول ہوگی ۔

انڈیا نے دہشت گردی کا اُس طرح سے سامنا نہیں کیا جس طرح سے پاکستانی قوم نے مجموعی طور پر کیا ہے ۔ اُسے ابھی تک شاید اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ مداخلت کسے کہتے ہیں ۔ اگر ایک بار واقعی میں بھارت کے اندر صحیح معنوں میں مداخلت شروع ہو گئی تو وہ کشمیر کو تو بھول جائے گا ۔ نا اُس سے مائو نواز سنبھل سکے گے نا ہی آسام کی تحریک اور نہ ہی منی پور کے وہ لوگ جو اپنا حق مانگ رہے ہیں جن کے ساتھ وہ بندوق کی زبان میں بات کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

اس بات کو مان لینے میں ہی سب کی بھلائی ہے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے ۔ اپنی خود ساختہ کہانیوں کو بار بار دہرا کر یہ کہنے والے کہ ہندو''توا'' Hindutvaنافذ ہو جائے گا اور ''اکھنڈبھارت'' کا خواب پورا ہو جائے گا انھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ تاریخ ہمیشہ آگے کی جانب چلتی ہے وہ پیچھے کبھی نہیں چلتی ۔ اور اس حقیقت کو ماننے کے بعد اس خطے کے لوگوں کو اور خاص طور پر یہاں کے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ ہم سب کو ایک ساتھ یہی رہنا ہے ۔ وہ دور چلے گئے جب تلوار کی نوک پر لوگوں پر حکومت کی جاتی تھی ۔

انڈیا کے موجودہ حکمران نا جانے کیوں یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے ۔اس طرح کی اشتعال انگیزی پھیلا کر اگر وہ یہ سمجھتے کہ یہاں کی سرحدوں میں تبدیلی ہو جائے گی تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے معصوم لوگوں کو خیالی کہانیاں سنانا چھوڑ دیں ۔ اسی میں سب کا بھلا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ ماضی کے زخم کرید کر اگر یہ سمجھا جارہا ہے کہ آپ اپنے حال کی ناکامیوں کو چھپا سکے گے تو شاید یہ بھی خود سے ایک دھوکا ہو گا۔ دیکھ لیجیے کہ آپ کے آج کے وعدے کیا تھے ۔ آپ نے سب سے کہا تھا کہ انڈیا معاشی طور پر ترقی کرے گا لیکن وہاں آج بھی کروڑوں لوگوں کے پاس واش روم تک نہیں ہے ۔آپ نے کہا تھا کہ آپ دنیا بھر میں بھارت کا نام اونچا کریں گے لیکن دلی میں آپ کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر لڑکیوں کی عزت تک محفوظ نہیں ہے ۔

آپ بھارت کو ایک رکھنے کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں لیکن میں آپ کو شمال ، جنوب یا مغرب کے انڈیا میں نہیں لے جارہا ۔ آپ کے دلی میں ہی عیسائیوں کے گھروں اور چرچ پر حملے معمول کی بات ہے ۔ آپ کہتے تھے کہ ہر ایک تک تعلیم پہنچے گی لیکن آج بھی آدھے سے زیادہ انڈیا میں تعلیم کی شرح آگے نہیں بڑھ سکی ۔ آپ اپنی تمام ناکامیوں کو چھپا کر ماضی کا سہارا لینا چاہتے ہیں ۔ سرحد کے دونوں طرف کے لوگوں کے دل ماضی میں زخم کھائے ہوئے ہیں ۔

آپ اُن زخموں کو کرید کر اُس میں مرچیں ڈال کر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی تمام تر ناکامیوں پر پردہ ڈال دیں گے تو یہ یاد رکھیں کہ لوگ سب سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ روٹی کے چار حرف کے پیچھے آپ کا کھیل کتنا گندہ ہے ۔ پر آپ سے بہتر کون یہ جانتا ہے کہ گندے دھندے کا انجام بھی برا ہوتا ہے ۔

یہ جو چندکیڑے مکوڑے کانوں کے پاس آکر شور مچا رہے ہیں انھیں باز رکھیں ۔کیونکہ آپ کی ہی ایک فلم کا بہت خوبصورت ڈائیلاگ ہے کہ ایک مچھر انسان کو ... بنا دیتا ہے ۔ راجیہ وردھن سنگھ راٹھور کو یہ تو بتا دے کہ اتنا بڑا نام رکھ لینے سے کوئی جانور انسان نہیں بن جاتا ۔ انھیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جس وزارت کا قلم سنبھال کر بیٹھے ہیں وہاں سے ہتھیار چلانے کی باتیں زیب نہیں دیتی ۔ ہمیں معلوم ہے کہ برما میں آپ اندر بھی نہیں گھس سکے ۔

وہاں کی فوج ، وہاں کی حکومت نے سختی سے تردید کر دی ہے کہ بھارت نے ساری کارروائی اپنے علاقے میں ہی کی ہے ۔ رات کو خواب دیکھ کر اُسے صبح سچی کہانی کے طور پر پیش کرنا چھوڑ دیجیے۔ اس سے آپ وقتی طور پر تو جنگی ماحول بنا کر اپنے لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں مگر بعد میں آپ کو منہ کی کھانی پڑ جاتی ہے ۔ زیادہ دور نہیں جاتا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو آپ نے ایک کشتی کو جنگی محاذ بنا دیا تھا ۔ پھر کیا ہوا؟خودکو جدید ٹیکنالوجی میں آگے آگے پیش کرنے والا بھارت ایک کبوتر کو جاسوس بنا دیتا ہے ۔ اُسے یہ تک نہیں پتہ کہ اُس کے ملک میں بھی جب کبوتر کی بازی لگائی جاتی ہے تو اُس کے ساتھ نام اور علاقہ لکھا جاتا ہے۔

آپ نے جس آپریشن کی تصاویرکو دیکھ کر اُن لوگوں کو ہیرو بنایا وہ تمام کی تمام تصاویر جعلی نکلی ہے ۔اس لیے کہتے ہیں کہ بے وجہ کہانیاں بنانا چھوڑدیں۔ اور دوسری طرف ان کے وزیر دفاع منوہر پریکر ہے ۔ جو آج تک اپنا دفاع نہیں کر سکے وہ پورے بھارت کا دفاع کرنے کا باتیں کرتے ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ برما پر حملہ ہمیں کیوں برا لگا۔ تو جناب ہمیں بر الگتا اگر آپ واقعی میں برما کے اندر جاتے اور کسی ملک کی سرحد کو بغیر اجازت کے عبور کرتے ۔ لیکن آپ نے تو صرف ڈھول بجایا ہے اصل میں تو آپ گئے ہی نہیں اور یہ بات تو اب واضح بھی ہوگئی ہے ۔ اس لیے خوابوں کو سچا مت مان لیا کریں کیوں کہ خواب تو دھوکا دیتے ہیں ۔

اب آجائیے انڈیا کے وزیر اعظم مودی پر ۔ یہ صاحب ہر جگہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور بس اس بات کا انتظارکررہے ہوتے ہیں کہ جہاں موقعہ ملا وہاں اپنے نام کا جھنڈا اُس پر لگا دیا ۔ ان صاحب کو ہر جگہ بس اپنی واہ واہ کرانی ہوتی ہے ۔ اسی لیے اگر کوئی ان کا نام نہیں لیتا تو خود سے اپنے کپڑوں پر اپنا نام لکھوا دیتے ہیں ۔

بنگلہ دیش میں انھوں نے تقریرکر کے ہمارے لیے اور دنیا کے لیے ایک کام بہت آسان کردیا ہے ۔ اب ہمیں تاریخ میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس خطے میں ایک ملک کو توڑنے میں کس کس کا ہاتھ تھا ڈھونڈنا نہیں پڑے گا ۔ مجرم نے جب خود اقبال جرم کر لیا تو ساری کہانی ختم ہو جاتی ہے ۔ یہ سمجھ رہے تھے کہ بنگلہ دیش کے لوگ ان کی اس بات سے بہت خوش ہونگے ۔ مگر انھوں نے بنگالیوں کو اپنا ایجنٹ قرار دے دیا کہ اصل میں ساری کارروائی تو بھارت نے کی اور بیچارے بنگالی تو استعمال ہوئے اورمودی نے یہ بھی بتا دیا کہ ہم نے تم پر احسان کیا ہے ۔ اب اس کا جواب تو بنگلہ دیش کی حکومت دے۔

اب اس سب کا جواب بھی تو ہمیں دینا ہے تو کیا ہم بھی بھارتی وزیروں کی طرح رات کو خواب دیکھیں اور اُس پر شور مچانا شروع کر دیں ۔ بھارت یہ نہیں سمجھ پا رہا ہے کہ یہ 1971 نہیں ہے ۔ ہم تھوڑا سا ہوش سے جواب دے رہے ہیں وہاں اگر اوبامہ گیا تو یہاں چین کا صدر آیا ۔ وہ بنگلہ دیش گیا تو ہم بھی سری لنکا گئے ۔

سمجھ داروں کے لیے بس اتنا اشارہ ہے ہمیں معلوم ہے کہ وہ کس حد تک گر سکتا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر وہ اپنے حواریوں کو ساتھ ملائے گا تو ہمارے کون کون سے دوست کہاں کہاں موجود ہیں۔ پریشان نہ ہو ہم نے گزشتہ 25 سال امن اور معاش کے حوالے سے بہت برے گزارے ہیں۔ بس آگے آگے دیکھیے کہ مودی کوکتنے خواب آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں