ہماری خوشیوں کی عمر کیا ہے

زمبابوے کی کرکٹ ٹیم آئی بھی اور چلی بھی گئی دس دن لاہور میں خوب گہما گہمی رہی


Amjad Islam Amjad June 08, 2015
[email protected]

زمبابوے کی کرکٹ ٹیم آئی بھی اور چلی بھی گئی دس دن لاہور میں خوب گہما گہمی رہی اور اگرچہ سیکیورٹی کی وجہ سے شاہراہ قائداعظم کا وہ حصہ جس کے ایک پنچ ستارہ ہوٹل میں مہمان اور میزبان کھلاڑیوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس عرصے میں عام شہریوں کے لیے ایک ممنوعہ علاقہ بنا رہا کہ اس کے چاروں طرف کم و بیش آدھے میل کے دائرے میں ٹریفک کو متبادل راستوں سے گزارا جاتا رہا مگر اس کے باوجود مجھ سمیت بہت کم لوگ حرف شکایت لب پر لائے کہ یہ قربانی گویا ایک طرح سے اس خوشی کا صدقہ تھی جو کھیل کے میدان آباد ہونے سے لوگوں کو حاصل ہوئی۔

ورلڈ کپ اور بنگلہ دیش میں ٹیم کی کارکردگی کے پیش نظر اس بات کا بہت شدید اندیشہ تھا کہ ہم زیادہ نہیں تو ایک دو میچ زمبابوے سے بھی ہار جاتے کہ درجہ بندی کے اعتبار سے دونوں ٹیمیں الٹی گنتی کے حساب سے پہلے اور دوسرے نمبر پر تھیں جو سولہ کھلاڑی اناؤنس کیے گئے ان میں بھی بیماری' ڈسپلن' فارم کے مسائل اور کچھ نا معلوم وجوہات کے باعث سعید اجمل' صہیب مقصود' عمر اکمل' محمد عرفان' راحت علی' سہیل خان' عمر گل' ذوالفقار بابر' عمر امین' فواد عالم' عمران خان اور سہیل تنویر جیسے آزمودہ اور تجربہ کار کھلاڑی شامل نہیں تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ٹیم دو ٹی ٹوئنٹی اور دو ون ڈے میچز جیتنے میں کامیاب ہوئی جب کہ آخری میچ بارش کی وجہ سے بے نتیجہ رہا بظاہر اس سے ہماری ٹیم کی مضبوطی اور بنچ فورس کا اظہار ہوتا ہے لیکن جس رفتار سے اور جس تعداد میں زمبابوے نے ہر میچ میں اسکور بنائے اور کم و بیش ہمارے ہر بولر کی یکساں پٹائی کی وہ اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر ہم نے سری لنکا کو وائٹ واش نہ کیا تو ہم چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالی فائی بھی نہیں کر سکیں گے۔

کرکٹ بورڈ اور اس کے چیئرمین کا اس دورے کی کامیابی پر اظہار حسرت اپنی جگہ یہ بھی تسلیم کہ اس دورے سے مستقبل قریب میں کچھ اور ٹیموں کے پاکستان میں آ کر کھیلنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں کہ عمدہ سیکیورٹی انتظامات اور عوامی جوش و خروش کی وجہ سے جو پیغام دنیا کو ملا وہ بھی بہت مثبت اور حوصلہ افزا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ٹیم اپنے اندر کسی بڑے مخالف مثلاً آسٹریلیا' ساؤتھ افریقہ' انڈیا یا نیوزی لینڈ کو بھی ہرانے کی استعداد رکھتی ہے میری ذاتی رائے میں ایسا نہیں ہے ورلڈ کپ سے پہلے ماہرین کے خیال میں پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ' سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ پانچویں سے آٹھویں نمبر کے درمیان تھی اور اس کے فائنل فور یعنی سیمی فائنلز میں پہنچنے کے امکانات 20% سے زیادہ نہیں تھے جب کہ آخری دو ٹیمیں یعنی بنگلہ دیش اور زمبابوے اس دوڑ سے باہر شمار کی جاتی تھیں اور ورلڈ کپ کے بعد ہم نویں نمبر پر آ چکے ہیں جب کہ بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل گیا ہے۔

اب اگر 1975ء سے لے کر 2003ء تک کے آٹھ ورلڈ کپ مقابلوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری ٹیم کا شمار ہمیشہ پہلی چار ٹیموں میں ہوتا تھا اس دوران میں ہم نے دو بار فائنلز تک رسائی حاصل کی اور ایک بار ورلڈ چیمپیئن بھی بنے اگرچہ وسیم اکرم' وقار یونس اور ثقلین مشتاق کے دور کے بعد ہماری بالنگ میں وہ دم خم نہیں رہا جو مخالف ٹیموں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیتا تھا مگر اس کے باوجود سزا سے پہلے کے محمد عامر اور محمد آصف اور بالنگ ایکشن میں اصلاح سے قبل کے سعید اجمل کی وجہ سے کچھ نہ کچھ بھرم قائم رہا اب بدقسمتی سے فاسٹ اور اسپن بالرز کے جمعہ بازار کے باوجود ہمارے پاس ایک بھی ایسا بالر نہیں جو تن تنہا میچ کا پانسہ پلٹ سکتا ہو اور نہ ہی کوئی کمبی نیشن ایسا ہے جو مخالفین کے لیے خطرہ بن سکے جس سہولت اور فراوانی سے زمبابوین کھلاڑیوں نے چھکوں اور چوکوں کی بارش کی اس پر ٹیسٹ ٹیم نے تو کیا کسی اچھی کلب الیون کا شرمندہ ہونا بھی بنتا تھا۔

آج کل بھارت کے مجوزہ دورے کے بارے میں مختلف نوع کی خبریں گرم ہیں فرض کیجیے کسی طرح سے یہ دورہ طے پا جاتا ہے تو کیا اس طرح کی ٹیم اس کا مقابلہ کر سکے گی؟ یاد رہے کہ آئی پی ایل کی تربیت اور عالمی مقابلوں میں بھارت کی مسلسل اچھی کارکردگی کی وجہ سے اب اس کے پاس بہترین کھلاڑیوں کی ایک ایسی زرخیز فصل تیار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اسے ہر ٹورنامنٹ میں ''فیورٹ'' کی حیثیت حاصل ہوتی ہے بغور دیکھا جائے تو 1952ء سے لے کر اب تک دونوں ٹیموں کی مجموعی صلاحیت کا درمیانی فاصلہ کبھی اتنا زیادہ نہیں رہا جتنا کہ اب ہے ہماری ٹیسٹ ٹیم میں فی الوقت یونس خان اور مصباح الحق کے سوا کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جسے اعتماد کے ساتھ ورلڈ کلاس کہا جا سکے اور وہ دونوں بھی اپنے کیرئیرز کے آخری حصے میں ہیں بیٹنگ' بالنگ' آل راؤنڈرز' وکٹ کیپر اور کپتان ہر حوالے سے ان کا پلہ بھاری ہے وہ چاہیں تو اس Win Win صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنے کئی پرانے قرضے چکا سکتے ہیں۔

سو بہتر ہو گا کہ فی الوقت انھیں نخرے کرنے دیا جائے اور اس دوران میں نئے اور پرانے کھلاڑیوں کا ایک ایسا دستہ تیار کیا جائے جو جوابی پنچ مارنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو اور ہر کھلاڑی کے دائیں بائیں ایک دو ایسے کھلاڑی موجود ہوں جو کسی بھی وقت اس کی جگہ لے سکتے ہوں سینئر کھلاڑیوں کی عمر کے بجائے ان کی فٹنس اور پرفارمنس پر نظر رکھی جائے آسٹریلیا نے حال ہی میں ووگس کو 36 برس کی عمر میں ٹیسٹ کیپ دی ہے جب کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق ذوالفقار بابر اور شعیب ملک پر اتنی ہی عمر کی وجہ سے کرکٹ کے دروازے بند کرنے کی بات کی جا رہی ہے جب کہ اس کا اطلاق محمد سمیع پر ہونا چاہیے کہ جو بار بار موقع ملنے کے باوجود اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا عمر اکمل اور احمد شہزاد کا مسئلہ اگر کھیل سے زیادہ ان کا طرز عمل ہے تو ان ٹیموں سے سبق لیجیے جنہوں نے اپنے باصلاحیت کھلاڑیوں پر مسلسل اور خصوصی توجہ دے کر ان کے ڈسپلن کا مسئلہ حل کیا ہے خود ماضی میں ہمارا بھی بورڈ وسیم اکرم' وقار یونس' شعیب اختر' سرفراز نواز اور کئی دوسرے کھلاڑیوں کے ضمن میں ایسا کر چکا ہے۔

ہوم کراؤڈ کے سامنے اور اپنے ملک کے گراؤنڈز میں کھیلنے کے فوائد اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے جس کی وجہ سے یا تو ہمیں باصلاحیت کھلاڑی مطلوبہ تعداد میں حاصل نہیں ہوتے یا وہ شعلہ مستعجمل کی طرح آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو جاتے ہیں اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر بالعموم اور فرسٹ کلاس کرکٹ کی سطح پر بالخصوص کچھ بڑے فیصلے کرنے ہوں گے آسٹریلیا کی طرح ان مقابلوں میں شریک کھلاڑیوں کی تعداد کو آٹھ سو سے کم کر کے زیادہ سے زیادہ دو سو تک محدود کرنا ہو گا تا کہ یہ لوگ سخت ترین مقابلوں کی بھٹی سے تپ کر اس طرح سے نکلیں کہ ان کے قدموں کی آہٹ ملکی اور قومی نمایندگی کے دروازوں پر مسلسل سنائی دیتی رہے چاہے اس کے لیے انھیں کرس روجرز ایڈم گل کرسٹ مائیکل ہمسی اور ایڈم ووگس کی طرح کئی کئی برس تک بلاوے کا انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں