ملالہ بیٹی کے لیے
خواتین کی پامالی کی آڑ میں ایسے اہداف پر گولہ باری کی جاتی ہے جن کی ترتیب اور تفصیل ’’کہیں اور‘‘ طے ہوتی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکڑوں ڈرون حملوں میں اب تک اس بچی ملالہ یوسف زئی کی عمر کے بہت سے بچے جان سے جا چکے ہیں
اور ان سے بھی زیادہ مختلف جسمانی اعضاء کے ضایع ہو جانے کی وجہ سے معذوری اور اپاہج پن کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور جو لوگ عوام' میڈیا اور حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی طرف بھی عزیزہ ملالہ جیسی ہی توجہ دینی چاہیے، ان کی بات بھی اپنی جگہ پر صحیح اور با وزن ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر اتنی ہی صحیح اور با وزن ہے کہ یہ وقت اس ''فرق'' کو مسئلہ بنانے کا نہیں بلکہ اس غیر معمولی اور مبارک اجماعِ امت کے ذریعے ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کا ہے کہ ساری قوم اس طرح کی معصوم زندگیوں کے تحفظ کے بارے میں یک دل' یک جان اور یک آواز ہو کر صف آراء ہو جائے اور بیک وقت اس طرح کی سفاکانہ اور انسان دشمن کارروائیاں کرنے والوں اور قیام امن کے نام پر ڈرون حملوں کے ذریعے (بیشتر بے گناہ اور معصوم) شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو یہ پیغام دے کہ قتل ناحق کا مرتکب کوئی بھی ہو، وہ یکساں طور پر انسانیت کا دشمن اور قابل نفرت ٹھہرے گا۔
ملالہ بیٹی کے ساتھ پیش آنے والے اس ہولناک اور افسوسناک واقعے پر گزشتہ چند دنوں میں بہت کچھ لکھا' پڑھا' دیکھا' بولا اور سنا گیا ہے جس کا مجموعی اور عمومی تاثر یہی ہے کہ جو لوگ بھی اس کارروائی میں ملوث ہیں وہ مہذب تو کیا سرے سے انسان کہلانے کے ہی مستحق نہیں لیکن دبے دبے لفظوں میں اس معاملے کے دو اور پہلوؤں پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ عوام کی اجتماعی رائے اور مزاج سے ہٹ کر بات کرنا وطن عزیز کی حد تک ایک ناممکن کی حد تک مشکل کام ہے لیکن مہذب قومیں اور معاشرے اس غیر معمولی صلاحیت سے بہرہ مند ہوتے ہیں کہ وہ ان مختلف آراء کو بھی صبر اور تحمل سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں تا کہ انصاف اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔
بعض مذہبی حلقوں اور لیڈروں کی طرف سے اس واقعے کی بھرپور مذمت کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ دینے کے لیے کہا گیا ہے کہ کہیں اس المناک سانحے کے رد عمل کی آڑ میں کچھ مفاد پرست اور گماشتہ قسم کے لوگ اپنے کسی مخصوص ایجنڈے کی تبلیغ اور تکمیل تو نہیں کر رہے؟
استدلال یہ دیا گیا ہے کہ غیرملکی امداد پر چلنے والی کچھ این جی اوز بالخصوص خواتین کے حقوق سے متعلق ادارے ہر ایسے موقع پر اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر ایک ایسا پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں جس سے متذکرہ معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھتا چلا جاتا ہے اور خواتین اور انسانی حقوق کی پامالی کی آڑ میں ایسے اہداف پر گولہ باری کی جاتی ہے جن کی ترتیب اور تفصیل ''کہیں اور'' طے ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ الزام ''بر موقع'' ہے یا نہیں، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بعض این جی اوز ''خاص خاص'' موقعوں پر ہی سامنے یا سڑکوں پر آتی ہیں اور انھی سے ملتے جلتے بے شمار مواقع پر ان کی طرف سے کوئی رسمی بیان بھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آتا۔
اب یہ الزام یا ردعمل ایسا ہے جو ہر اس معاملے میں کسی ایک طرف (اور بعض اوقات دونوں طرف سے) دہرایا جاتا ہے جسے میڈیا میں شہرت مل جائے یا جس پر عوام کی اکثریت ایک دوسرے کی ہم خیال ہو جائے۔ میری ذاتی رائے میں آخری تجزیے کے اعتبار سے یہ دونوں باتیں اگر غلط نہیں تو بے موقع ضرور ہیں کہ ان سے عمومی صورت حال تو اپنی جگہ برقرار رہتی ہے مگر یہ کبھی کبھی قائم ہونے والی اعتبار اور اتحاد کی فضا بجائے بڑھنے کے اپنی شدت اور وسعت کھونا شروع کر دیتی ہے۔
ملالہ بیٹی کے حوالے سے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اس طرح کی کسی بحث میں پڑنے کے بجائے مولانا حالی کے اس مصرعے کو یاد کرنے کی کوشش کریں کہ ''فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص۔'' تو اب یہ قبیلے کی نمایندگی کا فخر جس کو بھی مل جائے آپ باقی قبیلے کو اس سے تنہا یا الگ نہیں کر سکتے، سو اگر میڈیا یا حکومت نے ملالہ بیٹی کے ساتھ زخمی ہونے والی دو بیٹیوں پر وہ توجہ نہیں دی جو بوجوہ اس عزیزہ کو ملی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز صحیح اور مناسب نہیں کہ ہم ملالہ بیٹی کی بہادری اور حملہ آوروں کی درندگی اور اس کے پس پردہ کارفرما عوامل کو بھول کر اس توجہ طلب مگر بے موقع بحث میں پڑ جائیں اور یوں اس بے مثال قومی اتحاد کی تاریخ ساز قوت کو ضایع کر دیں جو کبھی کبھی ہی ایسے منظم اور پرجوش انداز میں صورت پذیر ہوتی ہے۔ بلاشبہ وہ تمام بچے اور پچیاں جو کسی بھی ظالم کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں ہم سب کی توجہ اور محبت کے متقاضی ہیں لیکن ان سے متعلق توجہ کی کمی بیشی کو کسی بھی طرح ''متنازعہ مسئلہ'' نہیں بنانا چاہیے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملالہ بیٹی کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے' اﷲ کرے ایسا ہی ہو اور ملالہ سمیت تینوں زخمی بچیاں جلد از جلد مکمل صحت یاب ہو کر نہ صرف اپنے گھروں کو لوٹیں بلکہ ایک ایسے معاشرے میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکیں جہاں آیندہ کوئی ان سے ان کا یہ بنیادی انسانی حق نہ چھین سکے۔
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح شاعروں نے بھی ملالہ بیٹی کی جرأت اور استقامت کے حوالے سے نظمیں لکھی ہیں جن میں اس کی صحت کے لیے دعا بھی شامل ہے۔ ٹی وی کے کسی پروگرام میں کشور ناہید کو ایک بہت موثر اور خیال افروز نظم پڑھتے دکھایا گیا جس کی پہلی لائن ہی پوری نظم کی نمایندہ ہے کہ ''وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے'' یہاں مجھے محترمہ زہرہ نگاہ کی وہ نظم بھی یاد آئی جو ایک ڈرون حملے کے شکار بچے پر لکھی گئی ہے۔ ان کے علاوہ جن دو نظموں نے مجھے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں سے ایک برادرم احفاظ الرحمن کی نظم ''پھول تیرے ہیں'' کے عنوان سے روزنامہ ایکسپریس میں 12 اکتوبر کو شایع ہوئی ہے جس کے چند شعر کچھ اس طرح ہیں:
فصل کانٹوں کی جو اگاتے ہیں
پھول کے دل کا حال کیا جانیں
خون جن کی غذا ہے وہ وحشی
پیار کی بول چال کیا جانیں
بچیوں پر جو وار کرتے ہیں
مامتا کا ملال کیا جانیں!
دستِ قدرت کے مہرباں تارے
دے رہے ہیں تجھے یہی پیغام
اے ملالہ' ہماری نورِ نظر
ہم ترے ساتھ جیتے مرتے ہیں
تارے تیرے ہیں' پھول تیرے ہیں
جیت تیری ہے' ہار ان کی ہے
دوسری نظم عاطف جاوید عاطف کی ہے جو مجھے ایس ایم ایس پر موصول ہوئی ہے اور جس کا عنوان ''بابا مجھ کو ڈر لگتا ہے'' رکھا گیا ہے۔ اس نظم کو ملالہ بیٹی کے ساتھ ساتھ اگر اس کی عمر کی اسی صورت حال میں مبتلا سب بچیوں کی مشترکہ آواز سمجھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔
بابا میری مس کہتی ہیں... کل سے سب بچوں کو اپنے گھر رہنا ہے... گھر پڑھنا ہے... میں نے سنا ہے ایک بڑے سے کالی مونچھوں والے انکل... بم لگا کر آئیں گے... بچے مر جائیں گے... بھول گئی میں نام بھلا تھا... شائد دہشت گرد کہا تھا... بابا' کیوں ماریں گے ہم کو... ہم سے کوئی بھول ہوئی کیا؟ ہم سے کیوں ناراض ہیں انکل؟ بابا ان کو گڑیا دے دوں؟ یا پھر میری رنگوں والی... یاد ہے نا وہ نیلی ڈبیا' میری پچھلی سال گرہ پر مجھ کو آپ نے لا کر دی تھی... اور میری وہ پیاری پونی' ریڈ کلر کی تتلی والی... وہ بھی دے دوں؟ پھر تو نہ ماریں گے مجھ کو؟... بابا مجھ کو ڈر لگتا ہے۔