ایک طرف اُس کا گھر اور

کبھی سوچا ہے کہ یہ حکومتیں جو دعویٰ کرتی ہے اُس سے عوام کتنی مطمئن ہوتی ہے۔


انیس منصوری May 31, 2015
[email protected]

ضروری تو نہیں کہ اگر خاندان دولت مند ہو تو اُس کا ہر فرد خوش ہو ۔ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ برسات کی بوند سے ہر دل میں ہریالی آجائے ۔یہ بھی کوئی اتنی یقینی بات نہیں ہے کہ بہار کے موسم میں ہر شاخ پر پھول لہرا رہے ہوں۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ اگر ملک دولت کے انبار پر کھڑا ہو جائے تو قوم کے سارے دکھ ختم ہو جائینگے ۔

کبھی سوچا ہے کہ یہ حکومتیں جو دعویٰ کرتی ہے اُس سے عوام کتنی مطمئن ہوتی ہے۔ بڑے فخر سے پرویز مشرف کے دور میں یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ ہماری ترقی ہر ایک کی زبان پر ہے لیکن کیوں اُن کی حمایت کرنے والے امیدوار ہار گئے ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل دے دیا لیکن کیا سب کے دل جیت لیے گئے ۔

وہ کہتے تھے کہ اس وقت پاکستان دنیا کے لیے مثال ہے جہاں پر فی کس آمدنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے ۔مگر وہ اس بات کو دیکھنے سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایک طرف دولت کے انبار لگ رہے تھے اور دوسری طرف غربت اپنی انتہا کو چھو رہی تھی ۔ برابری کا عنصر غائب ہو چکا تھا ۔ ترقیاتی کاموں کی ایک لمبی فہرست اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نے پیش کی تھی لیکن کیا ہوا ۔ عوام نے انھیں منتخب کیا ۔ آخر کیوں اس کی ایک تازہ مثال حالیہ پولینڈ ہے ۔

پولینڈ وسطی یورپ کا ایک ایسا ملک ہے جس کے ایک طرف اگر روس ہے تو دوسری طرف جرمنی ہے ۔ اس لیے یہاں بھی ہمیشہ ہماری طرح عالمی طاقتوں کی نگاہ رہی ہے ۔ جس طرح ہم سرد جنگ میں استعمال ہوئے اسی طرح پولینڈ بھی ٹھنڈی اور گرم ہوائوں کی لپیٹ میں رہا ۔ خاص طور پر اُس وقت جب ایک طرف جرمنی میں ہٹلر کی حکومت تھی اور دوسری طرف سوویت یونین کمیونزم کی لاٹھی اٹھائے ہوا تھا ۔ اب آپ خود سمجھ لیجیے کہ ایک طرف محبوبہ کا گھر تھا اور دوسری طرف مے خانہ ۔ یوں تو یہاں ایک اور محاورہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی ۔ خیر قبضہ کی جنگ جاری تھی اور سب کی نگاہیں پولینڈ پر تھی ۔

جرمنی چاہتا تھا کہ وہ اُس پر اپنا جھنڈا لگائے، روس اور دیگر اتحادی چاہتے تھے کہ پولینڈ اُن کی ملکیت میں آجائے ۔ یہ یکم ستمبر 1939کا دن تھا جب ہٹلر کے فوجیوں نے پولینڈ پر حملہ کر دیا ۔ ماحول خراب ہو چکا تھا جس چنگاری کو تیل کی ضرورت تھی وہ فراہم ہو چکا تھا ۔ پوری دنیا اس کا حصہ بن چکی تھی یا بننے والی تھی۔ اور پھر 17 دن بعد سوویت یونین بھی پولینڈ میں داخل ہو چکا اب پولینڈ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا ایک پر جرمنی اور دوسرے پر سوویت یونین تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت پولینڈ کی آبادی میں تقریبا تین فیصد کے قریب یہودی آباد تھے جن میں سے اکثر کو اُس وقت قتل کر دیا گیا ۔ اس حوالے سے پولینڈ میں اُس وقت کے قتل عام کو کبھی بھولا نہیں جاتا ۔ اس بات کا ہمیشہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں پولینڈ میں تقریبا ساٹھ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے ۔

دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی شکست کے بعد اتحادیوں نے قبضوں اور بندر بانٹ کا آغاز کر دیا ۔ جس کا زور جہاں چلا اُس نے وہاں اپنا قبضہ جمایا اور جس جگہ اختلاف تھا وہاں ایک اور جنگ شروع ہو گئی ۔ سوویت یونین نے پڑوسی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پولینڈ کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کرنے لگا ۔ لفظی طور پر اُس نے کہہ دیا کہ پولینڈ میں جمہوریت کا خیال رکھا جائیگا اور عوامی رائے کو اہمیت دی جائے گی ۔ لیکن اُس کے برعکس پولینڈ سوویت یونین کی ہی ایک کالونی بن گئی ۔ یہاں تک کہ اُس کا نام بھی تبدیل کر دیا ۔ سرد جنگ کا آغاز ہوا ۔دو عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی ۔

ایسے میں پولینڈ پر قبضہ تو بلواسطہ طور پر سوویت یونین کا تھا ۔ لیکن اُس کے اندر امریکا نے اپنی مداخلت جاری رکھی ۔ کئی تحریکوں کا آغاز ہوا ۔ ہر اٹھنے والی آواز کو امریکا کی سازش قرار دیا جاتا ۔ اور پھر دنیا بدلنے لگی جب سوویت یونین ٹوٹ کر روس کی شکل میں سامنے آنے لگا ۔ ان کا پولینڈ پر اثر کم ہونے لگا وہ لوگ جو روپوش تھے یا زیر زمین تحریک چلا رہے تھے وہ منظر پر آنے لگے ۔ اور 1989 میں ایک بار پھر پولینڈ کی پالیسی بالکل گھوم گئی ۔

نیا آئین لایا گیا ۔ کمیونزم سے توبہ کی گئی اور اپنے سارے گناہوں کی معافی مانگ کر لبرل پالیسی کو اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پولینڈ نے اس حوالے سے بہت پھرتیاں دکھائیں ۔ وہ تمام ریاستیں جو سوویت یونین کے تسلط سے آزاد ہوئی تھیں اُن سب کی بہ نسبت بہت تیزی سے معاشی ترقی کی ۔ اُس کے اردگرد کے ملک آج بھی پولینڈ کی معاشی ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ پولینڈ میں سب لوگ بہت خوش ہیں ؟

اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پولینڈ کی تھوڑی اور پرانی تاریخ کو بھی سمجھا جائے ۔ یہ وہ ملک تھا جس نے سب سے پہلے اٹھارویں صدی میں تعلیم کی وزارت قائم کی ۔ یعنی ایک ریاست کو تعلیم کی ذمے داری کیسے ادا کرنی چاہیے اُس کا پہلا تجربہ انھوں نے ہی کیا ۔ بارہویں صدی میں پورے یورپ پر پولینڈ کے دانشوروں کا راج تھا ۔ اس لیے ان کے اندر سائنسی سوچ اور حساسیت پہلے سے ہی موجود ہے ۔ وہی پولینڈ کے لوگ شروع سے ہی مذہب کے معاملہ میں لبرل رہے ہیں ۔ یہاں لبرل سے مراد ہر گز بھی لادینیت یا خدا کے تصور کو نہ ماننے والے نہیں جو تصور ہمارے یہاں دیا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پولینڈ کی 96 فیصد آبادی مذہبی سوچ رکھتی ہے ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ اُن کی پالیسی مذہب کے بارے میں لبرل تھی یعنی وہاں کسی بھی مذہب کو روکا نہیں گیا ۔

بات بہت طویل ہو گئی لیکن جو بات کرنی تھی وہ یہ کہ گزشتہ 25 سالوں میں پولینڈ نے معاشی طور پر بہت ترقی کی۔ 2010 میں روس کے اندر ایک جہاز تباہ ہونے سے پولینڈ کے صدر سمیت 89اہم لوگ ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد وہاں صدارت کے فرائض Bronislaw ادا کر رہے ہیں ۔ انھوں نے معاشی ترقی میں اپنے تمام ریکارڈ توڑ دیے یورپی یونین میں اپنے قدم مضبوط کیے ۔ عالمی سطح پر جاری ہونے والے تمام اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے پولینڈ کو نہ صرف یورپ میں بلکہ دنیا بھر میں مضبوط کیا ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات ہوئی اور وہ یہ کہ گزشتہ ہفتے وہاں ہونے والے الیکشن کے پہلے مرحلے میں وہ ہار گئے ۔

اب آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ملک ترقی کر رہا ہے ۔ دنیا اس کی گواہی دے رہی ہے لیکن پولینڈ کے لوگ ناراض ہیں آخر کیوں ؟ نہ ہی وہاں کے لوگ زیادہ شدت پسند ہیں کہ وہ کوئی مذہبی معاملے کی وجہ سے خلاف ہوں ۔ میرا خیال ہے آپ بھی یہ ہی سوچ رہے ہونگے کہ سب اچھا ہے تو پھر آخر کیا ہوا۔میں نے اوپر درج کیا کہ اول وہاں کے لوگ شعور رکھتے ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ پولینڈ نے معاشی ترقی تو بہت کی ہے لیکن عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہو سکا ۔اور معاشرے میں دولت کا پھیلائو برابری کے مطابق نہیں ہے ۔ یہ لوگ کمیونزم والی برابری کی بات نہیں کر رہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ سہولت ہر شخص تک پہنچنی چاہیے ۔

ہر ایک کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقعہ برابری کی بنیاد پر ملنا چاہیے ۔ اب آئیے ہماری طرف ۔ مشرف حکومت ہو یا پھر پیپلز پارٹی کی حکومت یا پھر حالیہ دور یا پھر صوبے میں تحریک انصاف کی سونامی ۔ کیا ہماری حکومتیں عوام کو اس بات کا یقین دلانے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ یہاں ہر شخص کو برابری کے حقوق حاصل ہیں ۔ کیا ہم یہ بتانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ خیبرپختونخواہ کے اندر ہر شخص کو صحت کی برابر سہولت حاصل ہے ۔

کیا ہم یہ سندھ میں سب کو سمجھا سکتے ہیں کہ تعلیم ہر بچہ کو مساوی بنیاد پر دی جارہی ہے ۔ کیا ہم پنجاب میں اس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ کوئی زمیندار کسی کسان کا حق نہیں مار رہا ۔ جب نہیں ہے تو آپ جتنی معاشی ترقی کا دعویٰ کرے اگر یہ نیچے منتقل نہیں ہو رہا تو پھر سارے راستے ہار کی طرف ہی جائیں گے ۔ اتنا سنجیدہ ہو کر مت سوچیں، یہ بتائیں کہ نئی فلم کون سی آنے والی ہے جو بہت مشہور ہو ۔جس کا ٹریلر جلد آنے والا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں