’’مردہ ڈالر‘‘ کا پیدا کردہ عالمی معاشی بحران دوسرا حصہ
امریکا کے لیے مقروض ملکوں کا خام مال، ذرایع اور لیبر سستی ہوتی گئی۔
اسی کتاب کے صفحے 315 پر ڈنمارک کی حکومت نے جنوری 1925 کوامریکا کو 4 کروڑ ڈالر کے مساوی سونا (19 لاکھ 35 ہزار 17 اونس سونا) دیا، جس پر امریکا نے جو 6.009 Krone کا ایک ڈالر تھا سونے کی وصولی کے بعد وہی کرونی Krone جون 1925 کو 4.960 کرونی کا ایک ڈالر کا کردیا تھا۔
کتاب "Currencies After the war" by league of Nations London 1920 کے صفحے 167 پر لکھا ہے کہ ارجنٹائن کی حکومت نے مئی 1915 کو امریکا سے 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ یورپی ملکوں کے ''کرنسی ایکسچینج بحران'' کا فائدہ امریکا نے بھرپور اٹھایا۔ ان ملکوں سے سونا حاصل کیا۔ان ملکوں کو امریکی سر پلس اشیا مہنگی فروخت کیں۔ ان ملکوں کے مالیاتی سسٹم میں ''پونڈ'' کو ہٹا کر''ڈالر''کو داخل کردیا۔
یورپی ملکوں کے کرنسی ایکسچینج بحران اور یورپ کا سونے کے معیار سے ہٹنے کا امریکا نے یہ فائدہ اٹھایا کہ یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں جو پہلے ہی بحران کا شکار تھیں۔ ان کی قیمتیں قرضے دینے، تجارت اور نقد ڈالر سپلائی کرنے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم کرنا شروع کردیں۔ یورپی ملکوں کی بڑی کمزوری ان کی معیشت میں فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو کا داخل ہونا تھا۔ سرمایہ دارانہ سسٹم میں منڈی مقابلے میں صنعتکار زیادہ سے زیادہ معیاری اشیا اور سستی اشیا عوام کو فراہم کرتے ہیں۔ زیادہ اشیا پر کم نفع پھر زیادہ نفع بن جاتا ہے۔ برطانوی کیپٹلزم کے مقابلے میں امریکا نے نیا ''مالیاتی میکنزم'' استعمال کیا۔ یہ میکنزم معاشی و مالیاتی Currency Devaluation minus Economic Development کا میکنزم تھا۔
1921 میں ایک ملک کی کرنسی کی قیمت میں 10 فیصد کمی، 6 ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت میں 20 فیصد کمی، 1922 میں 8 ملکوں کی کرنسی میں 10 فیصد کمی، 15 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی، 1923 میں 11 ملکوں کی کرنسی میں 10فیصد کمی، 15 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی، 1924میں 12 ملکوں کی کرنسی میں 10 فیصد کمی، 22 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی، 1925 میں 21 ملکوں کی کرنسی میں 10 فیصد کمی، 26 ملکوں کی کرنسی میں 20 فیصد کمی ہوچکی تھی۔
کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی CDMEDکے نتیجے میں امریکا نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ڈالر کے مقابلے میں کمی والی کرنسی کے ملک میں صنعتی کلچر میں لاگتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکا سے آنے والی اشیا کے مقابلے میں مقامی اشیا کی قیمتیں زیادہ ہوتی گئیں۔ اس طرح کرنسی کی قیمتوں کے نتیجے میں امریکا کے مقروض ملکوں کا صنعتی کلچر تباہ ہوتا گیا جو پہلے ہی جنگ سے تباہ ہوچکا تھا۔
امریکا کے لیے مقروض ملکوں کا خام مال، ذرایع اور لیبر سستی ہوتی گئی۔ یاد رہے امریکی مالیاتی میکنزم سڈمڈCDMEDکے لگنے سے مقروض ملکوں کی معیشت منفی ہوتی گئی یعنی کرنسی کی قیمتوں میں کمی کی نسبت مقروض ملکوں کی مجموعی معیشت پر غیر ملکی امریکی غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ پڑتا گیا۔ CDMEDسڈ مڈ کی شکل میں امریکی ڈالر کے استعمال کرنے پر غیر اعلانیہ ریونیو ڈالر ٹیکس مقروض ملکوں کو امریکی ڈالر کے استعمال کرنے پر ادا کرنا پڑا۔ یعنی ان ملکوں کے صنعتی کلچر کی لاگتیں ڈالر CDMEDلگنے سے بڑھتی گئیں۔ باہر سے آنے والی امپورٹ سستی ہوتی گئی اور ملکی اشیا امپورٹ کی ہوئی اشیا سے مہنگی ہوتی گئیں۔ اس طرح معاشی بحرانی، بے روزگاری، صنعتی کلچر تباہ ہوتا گیا۔
امریکی قرضوں، سڈمڈ کے امریکی شکار ملکوں کا عوامی سرمایہ سامراج کی طرف زیادہ امپورٹ کی شکل میں اور ہر سال سود کی ادائیگی کا بوجھ بڑھتا گیا۔ جس سے عالمی سطح پر معاشی بحران بتدریج بڑھتا گیا۔ صرف جون 1931 کو امریکا نے مقروض ملکوں سے سود کی مد میں 2 ارب 80 کروڑ وصول کیے تھے۔ یاد رہے کہ فرانس نے امریکی مالیاتی سازش کو بھانپ لیا تھا اسی وجہ سے فرانس نے 1927 میں لین دین کے لیے سونا طلب کرنا شروع کردیا تھا۔ کتاب International Currency Experience by league of Nations 1944 کے صفحے 234 پر دیے گئے اعداد و شمارکے مطابق فرانس کے پاس 1927 میں ڈالر فارن ایکسچینج 850.0ملین ڈالر تھا اور گولڈ ریزرو 954.0 ملین ڈالر تھا۔ 1928میں فارن ایکسچینج ریزرو 287.0 ملین ڈالر تھا۔ گولڈ ریزرو 1254.0 ملین ڈالر تھا۔
1930 میں فارن ایکسچینج ریزرو 1027.0 ملین ڈالر اور گولڈ ریزرو2099.0 ملین ڈالر تھا۔ 1931 میں فرانس کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 842.0 ملین ڈالر اور گولڈ ریزرو 2699.0 ملین ڈالر تھا۔ 1932 میں فارن ایکسچینج ریزرو 176.0 ملین ڈالر رہ گیا تھا اور گولڈ ریزرو 3257.0 ملین ڈالر تک بڑھ گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی ڈالر عالمی مارکیٹ میں اعتماد کھو چکا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر امریکا کے قرضوں اور دوسرے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کرکے CDMED سڈ مڈ سے امریکا اپنے غیر پیداواری اخراجات متاثرہ ملکوں کی معیشت میں منتقل کر رہا تھا۔
ایک طرف CDMEDسڈمڈ لگا کر مجبور ملکوں کا صنعتی کلچر تباہ کرکے اپنی برآمدات بڑھا رہا تھا۔ دوسری طرف سڈمڈ لگا کر ان ملکوں کے وسائل سستے حاصل کر رہا تھا۔ تیسرا CDMEDکے ذریعے اپنے کم سے کم سرمائے ڈالر کے ذریعے مجبور ملکوں میں سرمایہ کاری کرکے مزید ان ملکوں کے صنعتی کلچر کو تباہ کرکے نفع امریکا منتقل کر رہا تھا۔ کیونکہ مقامی سرمایہ ''دستیاب وسائل'' کی حد تک ہی ''محدود گردش'' کرنے لگا تھا۔ زیادہ وسائل پر غیر ملکی ڈالر سرمایہ کاری کی شکل میں قابض ہوچکا تھا۔ جوں جوں غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری جس جس ملک میں جتنی بڑھتی گئی توں توں ایسے تمام ملکوں میں معاشی بحران بڑھتا گیا۔ اور پھر آخرکار ان ملکوں نے مردہ ڈالروں کو واپس امریکا کرنا شروع کردیا تھا۔
قابل غور بات ہے کہ جب غیر ملکی سرمایہ کاری سے وسائل مقامی صنعتکاروں کے لیے محدود اور مقابلے کی سکت نہیں پاتے، تو ملکی صنعتکار باہر کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جتنی بڑھتی ہے اتنی ہی ساتھ غیر یقینی بڑھاتی ہے۔چوتھا ان ملکوں کو ڈالر قرضے میں جکڑ کر ان سے سود در سود وصول کر رہا تھا۔
یہ تمام اسباب ''عالمی معاشی بحران'' کی بنیاد بنے تھے۔ جوں جوں ممالک معاشی بدحالی کا شکار ہوتے گئے توں توں ان ملکوں کا اعتماد امریکا سے اٹھتا گیا۔ کتاب The Course and Phases of the World Economic Depression league of Nations. Switzerland Geneva 1931 کے صفحے 313 پر درج ہے کہ معاشی بدحالی کے بڑھتے جانے کے بعد 19 ستمبر 1931 کو دوسرے ملکوں نے برطانیہ کو سونے کے بدلے 200.0 ملین پونڈ واپس کردیے۔ دباؤ کے مزید بڑھنے کے بعد 21 ستمبر 1931 کو برطانیہ نے پونڈ کے بدلے سونے کی ادائیگی بند کردی۔ اس کے ساتھ ہی Scandinavian Countries نے بھی سونے کی ادائیگیاں بند کردیں۔
(جاری ہے )