میں یہ کس کے نام لکھوں
عام شہری تو معصوم ہی ہوتے ہیں۔ انھیں کیا پتا ’’ٹی ٹی‘‘ کیا ہوتی ہے، ’’ماؤزر‘‘ کیسا ہوتا ہے
عام شہری تو معصوم ہی ہوتے ہیں۔ انھیں کیا پتا ''ٹی ٹی'' کیا ہوتی ہے، ''ماؤزر'' کیسا ہوتا ہے، ''نائن ایم ایم'' کس بلا کوکہتے ہیں، وہ تو صبح ''نور پیر کے ویلے'' اٹھتے ہیں، اللہ رسول کا نام لیتے ہیں اور اپنے اپنے کام دھندے پر نکل جاتے ہیں، ریڑھیوں والے، ٹھیلوں والے، چھابڑیوں والے، سرکاری و پرائیویٹ اداروں کے چھوٹے ملازمین یہی چپراسی،کلرک (بسوں اور ویگنوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح لد کر) اپنی اپنی پریشانیاں مسائل اٹھائے گھروں سے روانہ ہوجاتے ہیں۔
ویسے بھی ان بیچاروں کا مہینہ پورا نہیں ہوتا یہ ہزاروں روپوں والا اسلحہ کہاں خرید سکتے ہیں۔ دوسری طرف انھی غریبوں سے بھتہ ، چندہ لے کر درندے قاتل اسلحہ خریدتے ہیں، اور انھی پر استعمال کرلیتے ہیں۔ جب مرے نہتے غریب ہی مرے۔ جب جلی غریبوں کی بستیاں ہی جلیں۔کراچی کی علی گڑھ کالونی سے لاہور کے یوحنا آباد تک۔ بقول جالب:
کون سے قصر تم نے ڈھائے ہیں
جھونپڑے ہی سدا جلائے ہیں
یہ قتل و غارت گری محض خوف وہراس پھیلانے کے لیے کی گئی، ہم بیرونی ہاتھ بیرونی ہاتھ کہتے نہیں تھکتے، جب کہ یہ بربریت اندرونی ہاتھوں نے کی ہے۔لاکھوں خاموش کہانیاں ہیں جو بیان بھی نہیں ہوئیں ہزاروں ہیں جو ظلم کی داستانیں اپنے ساتھ لیے قبروں میں جا سوئے۔ آج بھی قتل وغارت گری کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ قاتلوں، ظالموں، لٹیروں کو قاتل ظالم لٹیرے نہیں مار سکتے،آسان شکار تو نہتے معصوم شہری ہوتے ہیں، بس وہی مارے جاتے ہیں۔
مذہب کے نام پر عقیدے کے نام پر علاقائیت کے نام پر زبانوں کے نام پر لاکھوں غریب ومعصوم لوگ مار دیے گئے اور اگر کوئی ان قاتلوں ظالموں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو یہ اسے بھی مار دیتے ہیں۔ عینی گواہ بھی مارا جاتا ہے۔ کوئٹہ کے ہزارہ برادری والوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا، کیا نقصان پہنچایا تھا؟ یوحنا آباد جوزف کالونی کے عیسائیوں سے کیا خطا سرزد ہوئی تھی۔ انسانوں کے مسیحا ڈاکٹروں کا کیا قصور، قانون دان، وکلا یہ کیوں مار دیے گئے۔ سنی شیعہ عالم، بس مارتے جاؤ۔
پاکستان کی شہ رگ کراچی کو بربادکیا جا رہا ہے۔ یہ تو کراچی کے عوام کا حوصلہ ہے کہ وہ شکست ماننے کو تیار نہیں، ورنہ دشمنوں نے تو انتہا ہی کردی ہے۔ کراچی کے ساتھ کون سا ظلم نہیں ہوا۔ لکھنے بیٹھوں تو میرا اور پڑھنے والوں کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ جالب کی پرانی غزل کا ایک شعر یاد آگیا ہے:
جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہنستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں
اور اسی غزل کا مقطع بہت مشہور ہے:
کوئی تو پرچم لے کر نکلے' اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے' دیوانے یاد آتے ہیں
کراچی میں بڑا ٹھیک ٹھاک آپریشن جاری ہے۔ رینجرز اور پولیس ڈیڑھ سال سے دہشت گردوں کے صفائے میں لگے ہوئے ہیں، شہر میں خاصا صفایا ہوگیا ہے۔ مگر ابھی بھی بہت کچھ صفایا ہونا باقی ہے۔ سرکاری اہلکار چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔
ملک دشمن کئی قسم کے ہیں، اپنے بھی ہیں، غیر بھی ہیں، بکے ہوئے بھی ہیں، پھنسے ہوئے بھی ہیں۔ پھنسے ہوئے وہ ہیں جو اتنا آگے جاچکے ہیں کہ جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ پھر وہ معصوم کم عمر بچے ہیں جنھیں اسلام کا بالکل غلط چہرہ دکھایا جاتا ہے اور پھر انھیں جنت کا پروانہ دے کر خودکش بمبار بنا دیا جاتا ہے۔
پشاور میں اسکول کے بچوں کو کس سنگدلی اور بربریت کے ساتھ مارا گیا، کیا اسلام میں کہیں ایسی مثال ہے کہ ضرب عضب کا بدلہ اسکول کے بچوں سے لیا جائے؟ رحمت عالمؐ نے تو فتح مکہ کے وقت اسلام کے بدترین دشمن ابو سفیان (اس وقت وہ ایمان نہیں لائے تھے) کے گھر کو امان عطا کرتے ہوئے اعلان کیا ''جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اسے امان ہے۔'' بچوں اور عورتوں کو تو اسلام کی طرح تمام مذاہب میں امان حاصل ہے۔ اسلام کے بانی کا تو یہ عمل تھا۔ تو پھر ''یہ'' کون ہیں؟
کراچی پر پھر قیامت گزرگئی۔ امن و امان، محبت اور پیار کرنیوالے جن کے بزرگ آغا خان سوئم بانیانِ پاکستان میں شامل تھے، تحریک پاکستان کے لیے ان کی بے شمار اور لازوال قربانیاں ہیں۔ ایسے بے ضرر لوگوں کو قاتلوں، درندوں، دہشتگردوں، جہنمیوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ کراچی لرزکر رہ گیا۔ شہر یوں بظاہر خاموش ہیں، لڑائی چومکھی ہے اور شہری منتظر ہیں کہ معاملات کھل کر سامنے آجائیں۔
وزیر اعظم، آرمی چیف، ڈی جی رینجرز، آئی ایس آئی، وزیر دفاع سمیت سب نے وزیر اعلیٰ گورنر اور کابینہ سندھ سے جواب طلب کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی گورنر ہاؤس پہنچے۔ ایک علیحدہ اجلاس رینجرز ہیڈکوارٹر میں بھی ہوا۔ آپریشن مزید تیز ہوچکا ہے۔ پورے شہر میں گرفتاریاں ہو رہی ہیں، وزیر داخلہ بھی بعد میں کراچی آئے جو بوجوہ شروع میں نہیں آسکے تھے۔ اسماعیلیوں پر حملہ 47 جانوں کا ضیاع اور حملے کی نوعیت، معاملہ سنگین ہے۔ کراچی کے شہری منتظر ہیں کہ تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ شہر بہت کچھ برداشت کیے بیٹھا ہے۔ ہر چیزکی ایک حد ہوتی ہے۔
اب مصلحتیں نہیں چلیں گی۔یہ جو گنتی کے چند درندے، چھپ کر نہتے لوگوں کو مارتے ہیں، گولیاں چلاتے ہیں، ان کی بھول ہے کہ یہ اپنی بزدلانہ حرکتوں میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بار انھوں نے پاکستان کے محسنوں کو نشانہ بنایا ہے۔ آغا خانی ہمیشہ سے نہایت امن پسند لوگ رہے ہیں۔ ایسے اچھے انسانوں پر گولیاں چلا کر انھیں قتل کرکے ان قاتلوں نے پاکستان کی بنیادوں پر حملہ کیا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے کراچی کے شہریوں کو مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ایک سازش ہے کہ اس شہرکے رہنے والے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، غریب بستیوں میں کئی دن گزر گئے پانی نہیں ہے۔ پانی جیسی بنیادی ضرورت سے شہریوں کو محروم رکھا جا رہا ہے۔ پانی میں کلورین کی مقدار ضرورت کیمطابق نہیں، جس کی وجہ سے ایک ہفتے میں دو افراد نگلیریا کی بھینٹ چڑھ گئے۔
سندھ کے حکمرانوں کو کچھ کہا جائے تو جواب ملتا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے حکمرانوں نے استعفے دیے تھے؟ او بھائی! اگر کوئی برا کام کر رہا ہے تو آپ بھی وہی بری مثال بنیں گے؟ آپ اپنے صوبے کے معاملات کے ذمے دار ہیں۔ آپ سندھ کے حکمران ہیں۔ آپ خود کو سندھ تک محدود رکھیں۔ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں، روزانہ ایک دوکبھی تین چار انسان مارے جا رہے ہیں۔ پانی کا شدید بحران ہے۔ ''تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔''نگلیریا کی فکر کرو۔ واٹر بورڈ کی خبر لو۔ کلورین کی مقدار چیک کرو۔ عبیداللہ علیم کے شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
میں یہ کس کے نام لکھوں جو عذاب اتر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں' مرے لوگ مر رہے ہیں