یہ لوگ ٹارزن نہیں پہلاحصہ

’’بول‘‘ کے قابل احترام جغادری صحافی ’’ٹروجن ہارس‘‘ تھے، ایگزیکٹ میں لا کر کسی خاص مقصد کے تحت بٹھائے گئے



جعلی ڈگریوں اور فرضی عالمی جامعات کے دلدل میں پھنسی سافٹ ویئر کمپنی کے چینل اور مجوزہ اخبار ''بول'' سے وابستہ ہونے اور پھر پلٹ کر واپس جانے والے بعض اہل ثروت صحافیوں کے حوالے سے جاوید چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ ''آئیے اس دن کا انتظار کرتے ہیں ، ان دن کا انتظار جب میڈیا کے ٹارزن اپنے پرانے اداروں میں واپس آئیں گے، جب یہ لوگ دوبارہ ٹیلی ویژن پر بیٹھیں گے، قوم کو ایک بار پھر نیکی اور ایمانداری کا درس دیں گے ، یہ حکمرانوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے، اور سیاسی لوٹوں کا احتساب کریں۔'' حقیقت بیان کی گئی ہے تاہم ٹارزن شکست ، بزدلی اور گھناؤنے حربوں کا استعارہ نہیں ہے۔

''بول'' کے قابل احترام جغادری صحافی ''ٹروجن ہارس'' تھے، ایگزیکٹ میں لا کر کسی خاص مقصد کے تحت بٹھائے گئے ۔ٹروجن گھوڑا لکڑی کا بنا ہوا دیو ہیکل کھلونا تھا جو یونانی دیومالائی کہانی کا خوں آشام باب ہے جس میں یونانی لاتعداد فوجیوں کو اسلحہ سمیت چھپا کر ٹرائے شہر کے ساحل پر چھوڑ دیا گیا تھا، کیونکہ ٹرائے کا دس سالہ محاصرے کا نتیجہ نہ نکلنے کے بعد یونانی فوج واپس ہوئی مگر اس عظیم سازش کے ساتھ کہ گھوڑا وہیں رہ گیا۔ یہ ٹارزن کی روایات کے امین ہوتے تو ایگزیکٹ اور بول کی فتح کی ٹہنی سے لٹکتے ، جھولتے، لپکتے ، پلٹتے اور جھپٹتے رہتے ۔

انھیں اپنے ادارہ کی آخری قانونی لڑائی تک اپنے مورچے میں ڈٹے رہنا چاہیے تھا ، شعیب شیخ ، وقاص عتیق اور سیکڑوں صحافی و ملازمین کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا ، ٹارزن شاہیں صفت گردانا جاتا ہے جب کہ مقابل آنیوالے نئے صحافتی گلیڈی ایٹرز محض ایک نئے ادارہ سے پیشہ ورانہ اور تخلیقی وابستگی کا ارادہ کر کے نہیں آئے تھے ، انھوں نے در اصل طبقاتی کردار بدل کے نو افلاطونوں کا بسنتی چولا رنگنے کی تقریب میں شمولیت اختیار کی اور تماشا دکھا کر مداری گیا والی بات سچ کر دکھائی۔

یہ محض روٹی روزگار کا بھی مسئلہ نہیں تھا، اگر انھیں ٹارزن سمجھ لیا جائے تو پورا کوچۂ صحافت ''جنگل بک'' بن جائے گا۔ ٹارزن نے تو اپنے پیچھے بچوں ، نوجوانوں اور بوڑھے لوگوں کی ایک نہیں کئی نسلیں قاری بناکر ورثے میںچھوڑی ہیں ، گستاخی معاف کیا یہ پیمانہ بکف اور میخانہ بدوش بولستانی ٹولہ تلاش روزگار میں ایگزیکٹ انتظامیہ سے ملا تھا۔جی نہیں۔یہ دوست کوچۂ صحافت سے بے آبروہوکر اس لیے نکلے کہ وہ صید ہوس بنے ، دولت کے پجاری تھے۔ رعونت اور تکبر کا عالم یہ تھا کہ بول نے اپنا پاکستان ہی الگ کرلیا، یعنی بول کا پاکستان۔کیا دوسرے میڈیا گروپس پاکستان سے لاتعلق تھے، اورر پلے کا بھی نشہ چھا گیا تھا۔

ٹارزن کی اسٹرٹیجی کچھ اور ہوا کرتی تھی۔ فکشن کی دلچسپ ، نرالی اور انوکھی دنیا کے لیے ٹارزن کا کردار ایڈورڈ رائس بارو نے تخلیق کیا۔ اس کے بعد سیکڑوں رائٹرز نے ٹارزن کہانی کی روایت کو آگے بڑھایا، مگر ٹارزن کی جین تبدیل نہیں کی، وہ آزادی اظہار و عمل اور جبر وستم کے خاتمہ کے لیے عدل وانصاف کا میزان ثابت ہوا۔ اخبارات و رسائل کے تفریحی اور فرضی کرداروں میں'' ٹارزن'' ایک عجیب کردار ہے۔ امریکا یورپ ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کو چھوڑیئے اپنے برصغیر کے صحافتی افق پر ٹارزن کی کہانیاں اور انگریزی ، اردو اور ہندی روزناموں میں ٹارزن کے کومکس اسٹرپس پر مبنی سیریز پر نظر ڈالیے جو زبردست تفریح اور مطالعہ کا ذوق وشوق پیدا کرنے کا ریکارڈ توڑ ثابت ہوئیں ۔

کتنے فنکاروں اور السٹریشنسٹس نے خاکوں کے انبار لگا دیے، وہ کون سے صحافی تھے جو سینیارٹی کے باعث ان قسط وار کہانیوں کے دلچسپ ترجمے کرتے تھے۔ہم جب چوتھی پانچویں جماعت کے طالب علم تھے تو لیاری کے ابا سومار ہوٹل میں جا کر اخبار میں ٹارزن کی کہانی پڑھ لیتے یا چاکیواڑہ ٹرام جنکشن پر غلام محمد خان کی کتابوں کی دکان سے ٹارزن کی کہانیاں چونی اٹھنی دے کر لے لیتے تھے۔

ٹارزن کی روزانہ سلسلہ وار باتصویر کہانیوں کو دنیا بھر میں جتنی مقبولیت نصیب ہوئی اوراردو و انگریزی صحافت نے اس کردار سے جتنی سرکولیشن حاصل کی اور پیسے بنائے وہ فکشن کی صحافتی و ادبی تاریخ کا ایک تحیر خیز باب ہے۔ بول کے ''اسٹال وارٹ'' صحافی ٹارزن اس لیے نہیں بن سکے کہ ٹارزن تو لٹیروں سے لڑتا غریب قبائل کی مدد کرتا تھا ۔اس نے کبھی مالیاتی پیکیج پر سائن نہیں کیے ، جنگل کو بدنام نہیں کیا۔ وہ گوریلا خاندان کا جنگل بوائے تھا ، مشہور ادیب و شاعر رڈیارڈ کپلنگ کے مشہور ناول ''جنگل بک'' کا موگلی نامی کردار اس کی ایک کڑی ہے، جس کی جبلت اور مشن بھی استحصال، زر اندوزی اور قارونی طاقت کے خلاف جدوجہد پر مبنی تھی۔

بڑی سے بڑی ایمپائر کا استحکام اور توسیع برس ہا برس کی محنت شاقہ، اولوالعزمی، گلیڈی ایٹرز اور سپاہیوں کی بے محابا بہادری، لازوال قربانیوں اور انتظامیہ کی خلق خداکے لیے بے لوث جذبہ خدمت کا نتیجہ رہی ہے۔ مارکس ایلیئس کیا مدبر رومن بادشاہ تھا مگر اس کے نالائق بیٹے کموڈس نے اسی سلطنت کے سقوط و زوال کی گھنٹی بجائی ، ظلم ، زر پرستی، بد انتظامی اور کرپشن اور جعل سازی نے کیا گل نہیں کھلائے ۔ مطلب یہ ہے کہ نیت اور طریقہ واردات مجرمانہ ہو تو کھیل بگڑ جاتا ہے۔

محمود سپرا نے بھی کراچی آکر ایک بڑا اخبار نکالنے کا دعوی کیا ،انگریزی کے اس مجوزہ ڈیلی کے لیے کئی سینئر اخبار نویس ملازمتیں چھوڑ کر آئے لیکن سپرا نے پشاور سے ''خیبر پاس'' نامی جعلی انگریزی فلم بنانے کا اعلان کردیا اور پھر یہ جا وہ جا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک یونیورسٹی ،چینل اور اردو و انگریزی اخبار نکالنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ کوئی آسمان نہیں ٹوٹا ۔ اس لیے میڈیا وار کے پیدا شدہ اس قضیہ میں ایگزیکٹ کو تاریخی استشناء کیسے مل سکتا ہے۔ ٹارزن کا حوالہ اس لیے آیا ہے کہ اس کی شخصیت میں معاملات کی شفافیت کے ساتھ سوجھ بوجھ تھی، اس کی سلطنت فراڈ نہیں تھی۔

وہ جنگل کا چیف ایگزیکٹو ضرور تھا مگر باضمیر منتظم تھا۔ اس نے سینئر درندوں اور آدم خور قبیلوں کو ساتھ ملانے کے لیے ان کی خودی نہیں خریدی، اس لیے جن منتخب روزگار اہل صحافت کے بارے میں سنا گیا کہ ان کا ضمیر بیدار ہوا ہے تو ہمیں خاصی تشویش ہوئی کہ جو خوابیدہ ضمیر ایگزیکٹ کے میکناز گولڈ سے فیضیابی میں نام پاگیا ہو اسے خلش اور کسک سے کیا نسبت۔ چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک۔ چنانچہ یاد رکھنے کی چیز ہے کہ ٹارزن کی تمام کہانیوں میں کوئی مہم جوئی بے ضمیری ، میر جعفر و میر صادق جیسی یا بزدلی اور پسپائی پر ختم نہیں ہوئی۔ وہ Heroic adventurer تھا۔ اس کی کامکس بکس اور کہانیوں کی طلسماتی تاریخ پر مبنی اردو اور انگریزی اخبارات کی اشاعتوں میں ٹارزن نودولتیے صحافتی گیدڑوں جیسا ثابت نہیں ہوا۔ آپ ٹارزن کا ایگزیکٹ یا بول کی صحافتی مہم جوئی سے موازنہ نہیں کرسکتے۔

ٹارزن موت کی وحشت ناک راتوں میں امن وانصاف کے جگنو کی طرح شاخ در شاخ جھولتا چلاجاتا ،اور ان قوتوں سے لڑتا جو تاریکی کی علامت تھیں۔ قوم صحافیوں سے یہی توقع رکھتی ہے۔ ورنہ پیسہ تو گینگ وار مافیا ، اسمگلروں اور آج کی ماتا ہریوں کے پاس بھی بے پناہ ہے۔ عام پاکستانی کو بتائیے کہ یہ کون سے لوگ ہیں جو علمی بددیانتی ، سرقہ ، چربہ اور تعلیم کے اکیڈمک کلچر کے نام پر فرضی جامعات کی جعلی ڈگریاں بیچتے رہے، جب ملک کے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر عطا الرحمان اور معتبر شخصیات علمی حوالہ سے انتباہ کرتی رہیں کہ معاملہ کی چھان بین کی جائے، شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ پتا چلے کہ اصل صورتحال کیا ہے ۔ اگر یہ یونیورسٹیاں جعلی ہیں اور تمام ملحقہ جامعات کی اسناد و ڈپلومہ اور سرٹیفکیٹس فراڈ ہیں تو کسی کو یقین کیوں نہیں آتا؟

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں