رادھا کب ناچے گی

جھوٹ ان کی روح کے اندر بس چکا ہے اور دھوکا دینا ان کا کاروبار ہے۔ تعلیم سے لے کر سیاست یہاں بس ایک دھندہ ہے۔


انیس منصوری May 24, 2015
[email protected]

جھوٹ ان کی روح کے اندر بس چکا ہے اور دھوکا دینا ان کا کاروبار ہے۔ تعلیم سے لے کر سیاست یہاں بس ایک دھندہ ہے۔ وہ بھی کالا دھندہ۔ نئے نئے کپڑے بدل کر یہ لوگ ہمیشہ فریب دیتے ہیں۔ مگر ان کے جسموں سے بدبو اٹھتی رہتی ہے۔ مختلف بولیاں بولنے والے ان وحشیوں کے کالے دل آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں سب ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے اُلو سیدھے کرنے کے ماہر ہیں۔

بظاہر ان جیسا پارسا اور عوام کے درد میں مر جانے والا کوئی نہیں ہو گا لیکن پیچھے سے یہ قاتل کو چھری دے رہے ہونگے۔ سب کی کڑیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ یہ سب لوگ لاکھ اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کریں مگر یہاں سب پر وہ داغ لگے ہوئے ہیں جو نسلوں تک یاد رکھے جائیں گے۔ کسی ایک دھوکے اور فراڈ کی کہانی کو اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو سب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوئے ملیں گے۔ ایک چھوٹے سے ٹھیکے سے لے کر ایک حلقے کی سیٹ ہو یا پھر ایک ڈگری سے لے کر دم توڑتے ہوئے مریض۔ سب جگہ آپ کو بس چند چہرے ہی نظر آئیں گے جو اس دھرتی کے ہر پھول کو کچلنے میں مصروف ہیں۔

بہت دور کی کہانی نہیں سناتا بلکہ 20 سال پرانا قصہ ہے آپ کو نام اور جگہ بدل کر یوں لگے گا جیسے ہمارے یہاں بھی سب کا گٹھ جوڑ ایسا ہی ہے۔ جاپان دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹوٹ گیا تھا مگر جنگ کے اختتام پر وہ ایک نیا عزم لے کر اٹھا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ اور دس سال بعد وہاں عوامی سطح پر لبرل ڈیموکریٹک پارٹی LDP نے دھوم مچا دی۔ اور 1955ء میں اقتدار حاصل کر لیا جس نے جاپان کو دوبارہ مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یہی وجہ تھی کہ حالیہ جاپان کی تاریخ میں اُس نے مسلسل 38 سال حکومت کی۔ اُس کے زوال کی کہانی ہمارے لیے ایک سبق ہے۔

جیسے جیسے LDP کا اقتدار آگے بڑھ رہا تھا وہ سمجھ رہی تھی کہ اب اُسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ایسے میں لالچ اور ہوس نے اس کے لیڈروں کو کرپشن کے دلدل میں دھکیلنا شروع کر دیا۔ انھوں نے بعد میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مافیاز کی مدد لی تو دوسری طرف مال بنانے کیلیے بڑے بڑے ٹھیکے بھی بیچے۔ جیسا کہ ہمارے یہاں ہے۔ وہاں بھی مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اور آج تک وہاں بھی ہماری طرح کے لوگ نام بدل کر حکومت میں رہے۔

جاپان میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے 1980ء کی دہائی میں ایک مشہور کمپنی تھی جس کا نام تھا Sagwa Kyubin۔ یہ کمپنی مختلف اداروں کے علاوہ عام لوگوں کو بھی ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتی تھی۔ اپنے مدمقابل لوگوں کو شکست دینے کے بعد یہ کمپنی ٹوکیو میں ہر جگہ پھیل چکی تھی اور کہا جاتا ہے کہ 1980ء سے کر 1989ء تک یعنی بس نو سال میں اس کمپنی کا منافع چار سو گنا بڑھ چکا تھا۔ جس کی اہم وجہ طاقتور لوگوں کی پشت پناہی تھیِِ۔

اور ہر جگہ اُسی کے چرچے تھے۔ جیسے آج کل کچھ لوگ دن دگنی ترقیاں کر رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سے زیادہ پارسا کوئی بھی نہیں ہے۔ جب پیسے کی بارش ہونے لگی تو کمپنی کو خیال آیا کہ اب اپنے کاروبار کو بڑھانا چاہیے اور اسے ٹوکیو سے نکل کر پورے ملک میں پھیلا دینا چاہیے۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جاپان میں ٹرانسپورٹ کا نظام ایک منظم و شفاف انداز سے چلتا تھا اور وہاں اس بات کی اجازت قانون میں نہیں تھی کہ کمپنی کو اس طرح سے پورے ملک میں کام کرنے دیا جا سکے ۔کمپنی یہ چاہتی تھی کہ اسمبلی قانون میں رد و بدل کرے۔ جس کی سفارش محکمہ ٹرانسپورٹ سے جانی تھی اور جیسے ہمارے یہاں ہوتا ہے کہ جب کسی کو نوازنا ہو اور کام دینا ہو تو پہلے اس کی ضرورت بتائی جاتی ہے۔ اجازت کے ساتھ ساتھ کمپنی یہ بھی چاہتی تھی کہ قانون ایسا بنایا جائے کہ اُسے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو اور کوئی مدمقابل بھی نہ آ سکے۔ اس لیے اب انھیں دو جگہوں پر کام کرنا تھا اول محکمہ ٹرانسپورٹ میں اور دوسرا جاپان کی اسمبلی diet میں۔

حکومت LDP کی تھی اور اس میں ایک خاص گروپ تھا جیسے ٹرانسپورٹ قبیلہ کہا جاتا تھا۔ پاکستان میں بھی اس طرح کی مافیا ہے کوئی ٹرانسپورٹ کا، کوئی دوا کا تو کوئی تعلیم کا۔ کمپنی نے سب سے پہلے انھیں تحفے بھیجے اور پھر عالیشان پارٹیوں کا اہتمام کیا گیا۔ میں نہیں کہتا لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جس محکمے سے ٹھیکہ لینا ہو یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔

جس کے بعد حکومت کے اہم رہنماؤں کو پارٹی فنڈ کی مد میں خطیر رقم دی گئی۔ یہ ایک حربہ ہے جس کی باز گشت آج کل انڈیا میں بھی ہے کہ مودی کو کس کس نے پیسا دیا یہ بات بعد میں سامنے آئی کہ کمپنی نے اسمبلی کے اراکین، محکمہ ٹرانسپورٹ کے قبیلے اور مقامی سیاسی رہنماؤں کو ڈھائی ارب ین (جاپانی کرنسی) دیے۔ لیکن 1992ء میں چھپنے والی ایک تحقیقی خبر کے مطابق یہ رقم تقریبا 70 ارب ین تھی۔

اس سارے معاملے میں حکومتی جماعتLDP کے ایک اہم رہنما کا کردار بہت زیادہ زیر بحث رہا اور وہ تھا shin Kenmaru۔ جنھیں اُس زمانے میں جاپان کا کنگ میکر کہا جاتا تھا وہ جسے چاہتے وزیر اعظم بناتے اور جسے چاہتے تخت سے اتار دیتے۔ اور اس کی وجہ آسان تھی کہ پیسہ کیسے لینا ہے اور اس کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ کمپنی کے اہم عہدیدار کے بیان کے مطابق اُس وقت کے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے Shin نے کئی کروڑ ڈالر لیے۔ اس وقت کی ایک دائیں بازو کی جماعت نے ٹرک پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر LDP کے خلاف مہم شروع کی تھی۔

جس سے عوامی رائے عامہ تبدیل ہو رہی تھی۔ دشمن طاقتور ہوتا جا رہا تھا۔ اُس جماعت کے اہم رہنماؤں کو کمپنی کے ذریعے Shin نے بھاری رقم کی پیشکش کی جس کے انکار کے بعد کمپنی کے ایک عہدیدار سے رابطہ کیا گیا جس کے جاپان کے ایک بہت بڑے گینگ سے تعلقات تھے۔ جاپانی گینگ بہت زیادہ مضبوط ہیں اور ان کی بڑی تعداد ہے۔ یہ گینگ سیاسی لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور سیاسی لوگ ان کی۔ کچھ سال پہلے دو وزیروں کو اس لیے ہٹا دیا گیا تھا کہ ان کے گینگ سے تعلقات ہیں۔ جس طرح ہمارے یہاں مقامی بدمعاشوں کو پالا جاتا ہے اسی طرح وہاں ان کی سرپرستی رہتی ہے۔ اُس گینگ نے ڈرا نے اور دھمکانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ یہ تمام باتیں عوام کے سامنے آ گئیں۔

ایک شخص نے watanbe سے چار ارب ڈالر لیے۔ جاپانی میڈیا کے مطابق یہ شخص نہ صرف گینگ کے پیسے کو کاروبار میں استعمال کرتا تھا بلکہ گینگ، سیاست دانوں اور کاروباری لوگوں کے درمیان بھی رابطہ کار تھا۔اور آپ طاقت ور لوگوں کا نظام دیکھیے کہ یہ سب جب ثابت ہوا تو وہ بس 1600 ڈالر جرمانہ کی مد میں دے کر تمام سوالات سے آزاد ہو گئے۔ تاہم جب اُن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو 50 ارب ڈالر کے نوٹ ملے۔ سونے کے ا نبار الگ تھے۔ مگر پھر بھی رہائی ہو گئی۔

ان تمام الزامات کے بعد LDP 1993 ء کا الیکشن ہار گئی، قانون سازی کی گئی۔ سب کو گرفتار کرنے کی باتیں کی گئیں مگر پھر کیا ہوا، کچھ عرصے بعد جاپان میں ایک بار پھر LDP کی حکومت بن گئی۔ کہنے کی بات یہ کہ سب کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ کھانے کے دانت اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ جیسے سندھ میں وزارت داخلہ ملی ہے ویسے ہی پنجاب میں ملنے والی ہے۔ آپ مجھے بتا دیجیے کہ آج تک کب نومن تیل ہوا ہے اور کب رادھا ناچی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں