خاموش اکثریت

خاموش اکثریت، کس کے ساتھ؟ الیکشن ہوں تو اندازہ ہو


[email protected]

خاموش اکثریت، کس کے ساتھ؟ الیکشن ہوں تو اندازہ ہو، لیکن ماضی میں ایسی اکثریت کا فیصلہ کس کے حق میں رہا یہ جانا جا سکتا ہے اور وہ کوئی ایک جماعت نہیں، مختلف اوقات میں خاموش لوگوں نے کئی ایک Parties کو آزمایا۔ غالباً توقعات پوری نہ ہونے کے سبب فیصلے بدلتے رہے۔ آج بھی صاحبان اقتدار و انتشار کو دعوی حمایت ہے۔ ثابت بہرحال الیکشن میں ہو گا۔

جس کا متوقع وقت 2018ء ہے۔ لیکن امکانات ہمیشہ قابل قبول رہتے ہیں جیسے بقول عمران خان یہ سال انتخابات کا ہے۔ وہ جوڈیشل کمیشن سے توقع رکھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ الیکشن 2013ء کی شفافیت کے خلاف آئے گا اور کمیشن اسے دھاندلی زدہ کہہ کر دوبارہ انتخاب کا حکم دے گا۔ عمران خان کی اس امید کو ماننے یا مسترد کرنے کے بیچ ابھی چند روز حائل ہیں۔ کچھ اضافی وقت بھی لیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کمیشن کی تفتیش و تحقیق جاری ہے۔ جس کی رفتار، سمت اور انداز بہت مناسب اور بروقت ہے۔

میری رائے اس ضمن میں ہنوز نہیں بدلی۔ جب کہ الیکشن ٹریبونل کے ایک فیصلے نے جو حلقہ 125 میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے خلاف آیا مزید تقویت بخشی۔ ٹریبونل کے مختصر فیصلے سے جو چہ میگوئیاں سنائی دیں وہ اس کے تفصیلی فیصلے سے ختم ہو گئیں جس میں ٹریبونل جج نے بہت واضح طور پر خواجہ سعید رفیق کو کسی بھی قسم کی دھاندلی میں ملوث ہونے سے بری کرتے ہوئے پولنگ اسٹاف کی غلطیوں کی بنیاد پر حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم صادر فرمایا لیکن پولنگ اسٹاف کو بھی اس حد تک بری الذمہ قرار ضرور دیا کہ مذکورہ غلطیاں انھوں نے بھی دیدہ و دانستہ نہیں کیں البتہ مناسب تربیت نہ ہونے کے سبب نیز وقت کی قلت کے باعث ان سے حلقہ 125 کا انتظام ضرورت کے مطابق نہ ہو سکا۔

پھر اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے معطل بھی کر دیا ہے، لہٰذا میری اس رائے کو تقویت حاصل ہوئی کہ جوڈیشل کمیشن الیکشن 2013ء میں ایسی ہی غلطیاں جو پولنگ اسٹاف سے ہوئیں کا اعتراف کرتے ہوئے فاتح امیدواران کو ذاتی طور پر یا جماعتی طور پر دھاندلی میں ملوث قرار نہیں دے گا۔ لیکن میری یہ رائے محترم عمران خان کی رائے جیسی ہی ہے۔ اسے محض ایک خیال کے طور پر سوچا جا سکتا ہے۔

اس کا اظہار بھی سراسر ابہام کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کہ شاید ایسا ہو شاید ویسا ہو۔ حتمی طور پر تو فیصلہ وہی ہو گا جو کمیشن دے گا۔ وہی قابل قبول ہو گا۔ اور وہی وقت کا سچ۔ باقی سب کچھ اندازے ہیں اور ان سے زیادہ کچھ نہیں۔ بہرحال ماننا ہو گا کہ ایک تاریخ ہے جو بننے جا رہی ہے۔ وقت کا ایک حصہ جو اب واقعے میں بدلنے کو ہے۔ آنے والے دنوں سالوں یا صدیوں تک جسے سنایا جاتا رہے گا۔ بلکہ اگر میں کہوں کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ملکی معاملات کی ایک نئی سمت متعین کرے گا تو غلط نہ ہو گا۔ اس سے قبل یا تو ایسا نہیں ہوا۔ یا کم از کم اس سطح پر نہیں ہوا۔ ہم بجا طور پر اس کا ذمے دار عمران خان کو قرار دے سکتے ہیں۔

دونوں صورتوں میں یعنی نتیجہ ان کے حق میں آئے یا مخالفت میں۔ Election Transparency کا Credit انھیں جائے گا۔ کیونکہ الیکشن 2013ء کو چھوڑ کر جسے سردست کمیشن سن رہا ہے۔ سابقہ بہت سے انتخابات میں دھاندلی اظہر من الشمس ہے۔ لہٰذا آیندہ بھی یہ امکانات موجود تھے کہ کوئی صاحب حکومت ہاتھ دکھا جائے، لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ عمران خان اور ان کی جماعت نے الیکشن Rigging کے خلاف ایک بھرپور جنگ لڑی ہے بلکہ لڑ رہے ہیں۔ چنانچہ اس حوالے سے عمران خان خراج تحسین کے مستحق ہیں ایک ذرا تنبیہ کے ساتھ کہ دھاندلی کے خلاف لڑائی میں ہم سب بمعہ خاموش و بولتی ہوئی اکثریت کے آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن ذاتی اقتدار کی جنگ آپ کو خود یا اپنے حامیوں کے ہمراہ لڑنی ہو گی۔ جس کا کہیں کہیں شائبہ ہوتا ہے۔

قارئین کرام! ادھر سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ان دنوں مشکل کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ذوالفقار مرزا جو ماضی میں PPP سندھ حکومت کے وزیر داخلہ اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دست راست رہے ہیں۔ اب جماعت سے، بالخصوص زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بہت ناراض ہیں۔ اور ناراضگی اس قدر بڑھ گئی کہ مرزا صاحب کے ماضی قریب کے بیانات پارٹی قیادت کے لیے سخت ترین نوعیت کے رہے۔ جن میں انھوں نے زرداری صاحب پر سنگین الزامات عائد کیے۔ بلکہ شاید ہی کوئی الزام ہو جو ان کی جانب سے آصف زرداری پر نہ لگایا گیا ہو۔ جس کے بعد زرداری صاحب بھی حرکت میں آ گئے اور سندھ پولیس بھی۔

اب مرزا فارم ہاؤس بدین کے باہر و گرد و نواح میں یا تو فصلیں کھڑی ہیں یا پولیس۔ آخر کار ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو بیرون ملک اپنا دورہ مختصر کر کے لوٹنا پڑا۔ وہ اب تک ذوالفقار مرزا کی اہلیہ ہونے کی بنا پر دو پریس کانفرنسیں کر چکی ہیں۔ جن کا لب لباب حکومت سندھ کی زیادتی اور پارٹی قیادت کی بے وفائی رہا۔ فہمیدہ مرزا نے اپنی و اہل خانہ کی جماعت کے لیے دیرینہ قربانیوں کا ذکر بھی کیا اور مرکزی حکومت، سندھ و سپریم کورٹ سے یہ درخواست بھی کہ صوبہ سندھ میں غیر سیاسی، غیر جانبدار I.G پولیس و چیف سیکریٹری تعینات کیے جائیں۔ لیکن لگتا ہے کہ زرداری صاحب پر فہمیدہ مرزا کے بیانات جو نسبتاً نرم بھی رہے، کا کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا۔ اور وہ اب ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو مزید کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ابھی یہ معاملات جاری ہیں۔ اور حل طلب ہیں یا نہیں خدا جانے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں