آم کا قبرستان

یہ لوگ بس قبروں پر پھول چڑھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے مرنے والے کو جنت میں پہنچا دیا


انیس منصوری May 18, 2015
[email protected]

یہ لوگ بس قبروں پر پھول چڑھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے مرنے والے کو جنت میں پہنچا دیا اور اُس کے بعد ہم اس دنیا کو جنت میں تبدیل کردیں گے۔ یہاں زندہ لوگوں کو پانی پلانے میں موت آتی ہے پر قبروں پر پانی ڈالنے سب آجاتے ہیں ۔ زخمی دلوں کا مرہم کسی کے پاس نہیں ہے پر جب وہ دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے تو سب کی آہ و بکا نہیں رکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک مردہ پرست قوم ہو چکے ہیں ۔ ہمیں یہاں کے زندہ لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں روزانہ لاشیں چاہیے کبھی ڈاکٹر کی ،کبھی بچوں کی،کبھی عورتوں کو اورکبھی نوجوانوں کی۔ ہم اُن لاشوں پر دو آنسو نہیں بہاتے بلکہ بھڑکتی ہوئی آگ کو ہوا دیتے ہیں ۔ ہم زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے اُسے کریدتے ہیں ۔ ایک قصہ سنتا ہوں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ جب کبھی بھی پشاور جیسا سانحہ ہو یا پھر صفورا گوٹھ جیسی بربریت ہم کیوں لاشوں کے بعد جاگتے ہیں۔

اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں نے جب اس علاقے کی تقدیر بنانے کا فیصلہ کیا تو ان کی نظر میںبس ایک قبرستان تھا ۔ان سرکار کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سکھر سے لے کر ملتان تک ایک موٹر وے بننا چاہیے ۔سارے کاغذی کام مکمل ہوگئے ۔ یہ سڑک رحیم یار خان سے بھی گزرے گی ۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس وقت جب آم کی فصل تیار ہے تو رحیم یار خان کے 4 ہزار ایکڑ پر موجود آم کی فصل کو ہٹا کر وہاں سے سڑک نکالی جارہی ہے ۔ ہمیں کیا لینا دینا آم سے ۔ اور ہم کون ہوتے ہیںآم کی فکر کرنے والے۔ جس حکومت کو خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارنی ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔ مجھ سے یہ مت پوچھیے گا کہ اب اس ٹھیکے کی کہانی کیا ہے۔

یہ بھی الگ بحث ہے کہ کھیتوں کے درمیان سے سڑک گزاری جائے گی تو پھر نہری پانی کا کیا ہوگا۔ لیکن ہماری آنکھوں میں کون سا پانی ہے جو ہم برساتی پانی کے نہروں کی فکر کریں۔ ہمارے پاس ویسے ہی موسمی آنکھوں سے نہریں بہانے والوں کی کمی تھوڑی ہے ۔ ابھی آپ نے دیکھا نہیں کہ یہ موسمی مذمتی آنسو کیسے باہر آئے تھے جب صفورہ گوٹھ کا واقعہ پیش آیا۔ اس لیے ان کاشت کاروں کو کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے بس موسم تو یہاں روز ہی آتا رہتا ہے ۔ چھوڑیں ...اصل معاملے پر آتے ہیں اور معاملہ یہ ہے کہ جناب سروے آف پاکستان کی جی ٹی شیٹ ہوتی ہے ۔ اُس میں ہمارے یہاں کے معزز ایک بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ کہیں درمیان میں کوئی قبرستان تو نہیں آتا ۔ ہمیں نہ تو آم کی فکر ہوتی ہے نہ معاش کی، نہ لوگوں کے گھروں کی ۔ ہم صرف قبروں کی فکرکرتے ہیں ۔

یہ ہی ہمارا رویہ ہے اور یہ ہی ہمارا سماج ہے ۔ یہ وقتی آنسو بہانے والے جو کبھی اپنوں کی موت پر نہ روئے وہ ایسی اداکاری کرتے ہیں کہ سارا دکھ انھی کے سینے میں ہے ۔ صفورہ گوٹھ میں جس بس میں یہ شرمناک حادثہ پیش آیا کیا اس سے پہلے اس بس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا ؟ اس بس کو پہلے تین بار لوٹا جاچکا ہے ۔اس بس پر دو بار پہلے فائرنگ ہوئی ہے ۔ اُس وقت کیا یہ آنکھیں بند کر کے کسی گمنام مقام پر سو رہے تھے ۔ یہ باتوں کے جادوگر ہمیں کیا بے وقوف سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ہمیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیتے لیکن جب سیاست کا وقت ہو تو ہماری قبروں پر آکر اُس وقت بھی ہمیں نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

یہ بیکار باتیں ہیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ استعفی دے یا پھر آئی جی سندھ مستعفی ہو جائے ۔ یہاں ہم بولنا نہیں چاہتے ہماری آنکھوں پر ہم نے جان بوجھ کر پٹیاں باندھ لی ہیں ۔ ہم سننا نہیں چاہتے کیوں کہ ہم نے اپنے کانوں کو بند کردیا ہے ۔ ہم کچھ بولنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ پھر ہماری زبانیں کبھی بول نہیں سکے گی ۔ آئیے مجھے بتائیے کہ اس سانحے سے پہلے کراچی میں پولیس کے ڈی ایس پی کو شہید کیا گیا ۔کیوں ہم سے کوئی بھی اُس وقت نہیں چونکا ۔ روز کی بنیاد پر یہاں دستی بم حملہ ہوتا ہے ۔کیوںہمارے ہاتھوں نے اُس وقت حرکت نہیں کی ۔ اور یہاں ہر تیسرے دن ایک طبقے کے فرد کا قتل ہوتا ہے مگر ہم خاموش رہتے ہیں ۔ ہم کسی سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔کیوں ہم نے چُپ کا تالا نہیں توڑا ہمیں نہیں معلوم کہ یہاں کچھ دن پہلے ایک ڈاکٹر کو قتل کیا گیا۔

ہمارے جسموں کو شاید اب ایک دو نہیں درجنوں لاشیں ایک ساتھ چاہیے ہوتی ہیں ۔اور اُس کے بعد دو دن کی پھرتی دیکھا کر ہم پھر اپنے بستروں میں گھس جاتے ہیں ۔عجیب وغریب بحثوں کا آغاز کردیتے ہیں ۔ سب سے زیادہ با خبر ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور ناجانے کہاں کہاں سے سازشی نظریات پیدا کردیتے ہیں ۔کیا ہمیں نہیں معلوم کہ یہاں پرکھلے عام نفرتوں کا پرچار کیا جاتاہے ۔ اس شہر کا کون سا آدمی ہے جسے نہیں معلوم کہ کون کون یہاں پر مذہب، فرقے،لسانیات کی بنیاد پر دیواریں کھڑی کرتا ہے ، لیکن میرا اور آپ سب کا بھلا اس میں ہی ہے کہ چُپ رہا جائے ۔ اور جوکچھ ٹی وی پر چل رہا ہے اُسے تسلیم کرلیا جائے ، مگر شاید یہ مجھ سے نہ ہوسکے ۔

آپ کو نہیں معلوم کہ اس وقت کراچی شہر میں کس کا سکہ چل رہا ہے ۔ دس سالوں میں یہاں کے امن کے لیے 30کھرب روپے خرچ کیے گئے ۔اُس سے کس کے گھر بنے؟کیا یہاں اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ سربراہ ہیں؟ معذرت کے ساتھ وہ بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ وہ تو خود وزیر داخلہ بھی ہے اور ان کا محکمہ ڈبل سواری پر پابندی لگاتا ہے اور انھیں معلوم نہیں ہوتا ۔کیا اس وقت کراچی میں پولیس طاقت ور ہے ۔ کیا کوئی سیاسی جماعت یا گروہ اپنی من مانی کر رہا ہے؟ نہیں تو پھرمیں یا آپ کیوں کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ مستعفی ہو جائیں، ہم کیوں کہتے ہیں کہ آئی جی سندھ چلے جائیں۔

اس وقت کراچی میں پانی سے لے کر تجاوزات تک کون ڈیل کر رہا ہے؟ ہم کیوں ان سے پوچھنا نہیں چاہتے جو یہاں الیکشن بھی کراتے ہیں ۔ طے کرلیجیے کہ اس وقت کراچی شہرکس کے پاس ہے ۔ جوچہرے منظر پر ہیں وہ منع کرتے ہیں کہ ہم ان فیصلوں میں ہیں ہی نہیں ۔ تو پھر کون کررہا ہے سب؟ جب تک یہاں یہ بات طے نہیں ہوگی کہ اصل طاقت کس کے پاس ہے اور ٹی وی والوں کو مُکے مارنے کے لیے کون ہیں تب تک انتظامیہ کا یہ مسئلہ رہے گا اس شہر میں ہم کسی کا گریبان نہیں پکڑ سکے گے ۔ چھپی ہوئی طاقتیں یا پھر منظر پر رہنے والی قوتیں ۔ آخر کون ہیںاس شہر کا حاکم ...؟

آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ جس نتیجے پر ہم پہنچ رہے ہیں جو لوگ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں جو یہاں نفرت کا کاروبار کررہے ہیں ان کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن وہ پکڑے نہیں جاتے ۔ جو بظاہر منظر پر نہیں لیکن سب انھیں جانتے ہیں ۔دوسری طرف ہماری انتظامیہ ہے جو سب کے سامنے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ہمارا اصل حاکم کون ہے ۔ ایسے میں کتنی چھوٹی بات ہے کہ ''را''۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس میں ''را'' ہو یا پھر موساد۔ اس کے پیچھے CIA ہو یا پھر روس کی جاسوسی آنکھیں۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو منتخب کیا ہے یا پھر آپ کو یہ عہدہ دیا ہے۔ ہمیں ان سے بچانے کے لیے ہم نے اپنا ووٹ اور ٹیکس آپ کو دیا ہے۔ آپ ہمارے خون پر کھڑے ہوکر اُن کی فتح کی خبریں مت سنائیں کہ وہ ہماری لاشیں سجا کر جیت گئے ہیں۔ ہمیں کام کر کے دکھائیں ۔ ہمیں اور قبرستان نہیں سجانے ۔کیونکہ پھر ایسا نہ ہو کہ کوئی نیا قبرستان بن جائے اور آپ وہاں سے سڑک بھی نہ گزار سکیں ۔ ویسے بھی ایک سڑک پر آپ آم کا قبرستان تو بنانے والے ہیں ۔ جلدی جلدی نیا آم کھا لیں پھر آپ کو کسی اور لاش پر بھی مذمتی بیان دینے جانا ہو گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں