میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
ہماری درخواست پر کہ یہ مہمان دنیا کے اس ملک سے آئے ہیں جہاں پاکستانیوں کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔
برادر ملک ترکی سے استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر حلیل توقار اپنے ایک ساتھی استاد کے ساتھ کچھ انٹرویوز لینے کے لیے آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے برادرم شوکت فہمی کے ساتھ ان کے ہوٹل پہنچے تو سکیورٹی کے انتظامات سخت اور متعدد مراحل سے گزرتے ہوئے بار بار یہ خیال آیا کہ ہمیں تو خیر اب ان کی عادت ہو گئی ہے لیکن باہر سے آنے والے مہمان کیا تاثر لے کر جاتے ہوں گے! ہوٹل کی لابی میں پنجاب یونیورسٹی میں حلیل توقار کے ہم منصب ڈاکٹر کامران بھی موجود تھے۔ طے پایا کہ کھانا فورٹریس اسٹیڈیم کے ایک ہوٹل میں کھایا جائے۔
میاں میر پُل سے اترتے ہی ہم بے شمار کاروں کے ہجوم میں پھنس گئے کہ سکیورٹی چیک پوسٹ کی وجہ سے گاڑیاں چل کم اور رینگ زیادہ رہی تھیں۔ سکیورٹی والے نے چھوٹتے ہی ایک مختلف انداز کا سوال کیا کہ آپ کی گاڑی میں کوئی فارنر یعنی غیر ملکی تو نہیں۔ وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ ایک حالیہ حکم کے مطابق کنٹونمنٹ میں داخل ہونے والے ہر غیر ملکی کو اپنا پاسپورٹ دکھانے کے ساتھ ساتھ کچھ لکھا پڑھی بھی کرنا ہو گی۔
ایک دفعہ جی میں آیا بھی کہ اس خوامخواہ کی ''کارروائی'' سے بچنے کے لیے ایک معصوم سا جھوٹ بول دیں (کہ بہرحال ہمیں اپنے مہمانوں کے بارے میں یہ تسلی تھی کہ وہ وطن عزیز کے لیے کسی قسم کا سکیورٹی رسک نہیں ہیں) اور نکل جائیں مگر طبیعت نہیں مانی۔ اس خصوصی کارروائی کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ اس کا تعلق گزشتہ دنوں کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے ہے۔ ہماری درخواست پر کہ یہ مہمان دنیا کے اس ملک سے آئے ہیں جہاں پاکستانیوں کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔
ان بھائیوں نے اپنی کارروائی کو کسی حد تک مختصر تو کر دیا مگر میرے ذہن میں ایک سوال بار بار گونجنے لگا کہ یہ عذاب کب ہمارے سروں سے ٹلے گا کہ گزشتہ چار دہائیوں سے صورتحال سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی چلی جا رہی ہے۔ فوجی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات میں ایک طرف سے تو واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے مگر اس کھیل کے کئی اور کردار اب بھی ہمارے درمیان دندناتے پھر رہے ہیں۔
بہت سے تجزیہ نگار ان حالیہ وارداتوں کا سلسلہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' سے جوڑ رہے ہیں کہ ماضی میں بھی جب کبھی پاکستان معاشی اعتبار سے سچ مچ کی ترقی کے راستے پر چلنے کے قابل ہوا ہے اس طرح کی وارداتوں میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب چونکہ چین نے حال ہی میں وطن عزیز کے مختلف شعبوں میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، دوسری طرف افغانستان کی حکومت سے بھی ہمارے تعلقات نہ صرف بہتر ہو رہے ہیں بلکہ گزشتہ چار دہائیوں میں پہلی بار دونوں ملکوں نے مشترکہ مفادات کے حوالے سے کچھ ٹھوس قدم بھی اٹھائے ہیں جب کہ روس سے تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے اور امریکی فوجوں کے مرحلہ وار انخلا سے بھی صورتحال ہمارے حق میں ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے میں صرف بھارت ہی ایک ایسا فریق رہ جاتا ہے جس کے کچھ تاریخی اور زیادہ تر خود ساختہ مفادات کو خطے میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس رویے کا تعلق وہاں کی حکومت کی پالیسیوں سے ہے عوام سے نہیں۔ 1981ء سے اب تک مختلف مشاعروں اور کانفرنسوں کے حوالے سے مجھے بھارت جانے اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کے متعدد مواقع ملے ہیں اور ہر بار میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہاں کی حکومت کے پالیسی سازوں اور میڈیا کے ایک حصے کے علاوہ وہ لوگ بھی بالکل ہمارے جیسے ہی ہیں بالخصوص جنوب کی ریاستوں کے لیے تو پاکستان بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے لیے لاطینی امریکا کے ممالک کہ جن سے ہمارا براہ راست کوئی واسطہ ہی نہیں۔
تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کی قتل و غارت، لوٹ مار اور ہجرتوں کے زخم اب تقریباً بھر چکے ہیں کہ اس دوران میں دونوں ملکوں میں تیسری نسل سامنے آ چکی ہے اور جہاں تک بھارتی حکومت کی پاکستان پالیسی کا تعلق ہے اس میں تین باتیں زیادہ اہم ہیں۔ (1) کشمیر کا مسئلہ۔ (2) علاقے کی تھانیداری کا خبط۔ (3) تجارتی مفادات۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں اٹل بہاری واجپائی کی بس یاترا کی وجہ سے حالات میں ایک دم بہتری آئی تھی لیکن اسے ''کارگل'' لے ڈوبا اس کے بعد کارگل ہی کے مرکزی کردار جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی کچھ عرصے تک ''دوستی'' کی لہر کا بہت چرچا رہا لیکن حالات میں مستقل سدھار نہیں آ سکا۔
بی جے پی اور اس کے مرکزی رہنما نریندر مودی کے بارے میں ایک بات طے ہے کہ یہ جماعت کچھ مخصوص تعصبات کی حامل ہے اور ملک کے اندر ہندو توا اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں ہندوستان کی برتری کو ہر شکل میں قائم رکھنا چاہتی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے عام لوگ اور ابھرتی ہوئی مڈل کلاس امن چین اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور انھیں پاکستان یا کسی دوسرے ہمسایہ ملک کی ترقی سے کوئی تکلیف نہیں ہے جب کہ ان کی اپر کلاس معاشی عتبار سے اس قدر مضبوط ہو چکی کہ اب اس کے لیے پاکستان جیسی کوئی چھوٹی معیشت کسی قسم کا خطرہ ہی نہیں رہی۔
اندریں صورتحال پاکستان میں ہونے والی بھارتی دہشت گردی اور تخریب کاری کے ڈانڈے گھوم پھر کے ان کے سیاسی پالیسی سازوں کے اس مختصر مگر مؤثر گروہ کے ساتھ ہی جا ملتے ہیں جس نے اپنی بقا کے لیے غیر ضروری طور پر پاکستان کو اپنا Target Enemy بنا رکھا ہے۔
جہاں تک ہماری مختلف حکومتوں اور ان کی پالیسیوں پر حاوی کچھ بیرونی طاقتوں کا تعلق ہے وہ معاملات اب بوجوہ بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ سو اب مسئلہ یا تو ملک کے اندر موجود مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کا ہے یا بھارت کے ساتھ ایسے رشتوں کی استواری کا کہ جن کے اثر سے دونوں ملکوں کے لوگ اپنی اپنی سرحدوں میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنے اپنے تصور حیات کے تحت زندگی بسر کر سکیں بلکہ مل جل کر اس خطے کو ایک ایسی مشترکہ معاشی اور تہذیبی طاقت بھی بنا پائیں کہ جس کی عالمی برادری میں ایک الگ اور باقاعدہ نوع کی پہچان ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کی آزادی کا احترام کریں اور مل کر برابر کی سطح پر جیو اور جینے دو کا اصول عمل میں لائیں۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا دھماکے ہوتے رہیں گے اور ان میں رزق خاک ہونے والے انسانی جسم اور ان کی یادوں کے ساتھ زندہ رہنے والے ان کے لواحقین ہر ہاتھ پر ان کا خون تلاش کرتے رہیں گے اور یوں دلوں میں محبتوں کو رستہ نہیں ملے گا اور جو دل محبت سے محروم ہو جائیں ان سے زیادہ بدنصیب اور خطرناک اور کوئی نہیں ہوتا۔