جاسوسوں کا بھارتی گاؤں

بھارت میں جاسوسی کے حوالے سے سب سے زیادہ شہرت ’ددواں‘ نامی گاؤں کو ملی جو پاکستانی سرحدکا قریبی گاؤں ہے


سرجیت سنگھ کاکہناتھا کہ یہ بھارتی حکومت ہی تھی جس نے مجھے پاکستان بھیجا۔ میں وہاں اپنی مرضی سے نہیں گیاتھا۔ فوٹو : فائل

KARACHI: سرجیت سنگھ دسمبر1981ء کی ایک سرد رات کو اپنے گاؤںسے پاکستان میں جاسوسی کے لئے نکلا، تب اس کی عمر 42برس تھی۔ بیوی اور بچوں سے جدا ہوتے ہوئے کہنے لگاکہ وہ بہت جلدواپس لوٹ آئے گا۔

تب اس کی داڑھی مکمل سیاہ تھی۔ تاہم وہ جلد واپس نہ لوٹ سکا، گھروالوں کو اس کی کوئی خبر نہ تھی، پہلے وہ انتظارکرتے رہے لیکن پھر وہ مایوس ہوگئے، اور پھر انھوں نے سوچ لیاکہ سرجیت اب اس دنیا میں نہیں ہوگا۔ لیکن پھروہ 73برس کی عمر میں27 مئی2012ء کو بھارت کی سرزمین پر پہنچ گیا۔ اب اس کی داڑھی سفیدہوچکی تھی۔ جب وہ واپس اپنے گاؤں پہنچاتو کہنے لگا کہ پاکستانی جیلوںمیں بڑی تعدادمیں بھارتی قیدی موجود ہیں۔ان میں تنویر ٹھاکر، نمراتا بیجی، اہوجند راجنیش شرما بھی شامل ہیں۔ سب کے سب جاسوسی کے جرم میں قید ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔



سرجیت سنگھ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قیدتنہائی میں پڑا رہا، کسی کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ موت کا انتظار کرتارہا۔ اگرکسی چیز نے اسے موت سے پہلے مرنے سے بچایا، وہ اس کا مذہبی عقیدہ تھا۔'' واہ گورو کی وجہ سے ہی میں بچ گیاہوں۔ اس نے ان ساڑھے تیس برسوں میں میری مدد کی ''۔ وہ جیل میں تھا تو بھارت کی معیشت بڑھوتری کی طرف مائل رہی لیکن سرجیت سنگھ کے خاندان میں اس کے عزیزایک ایک کرکے مرتے چلے گئے۔ جب وہ واپس آیا تو اس کا بڑا بیٹا، چار بھائی، باپ اور دو بہنیں اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں۔

سرجیت سنگھ کاکہناتھا کہ یہ بھارتی حکومت ہی تھی جس نے مجھے پاکستان بھیجا۔ میں وہاں اپنی مرضی سے نہیں گیاتھا۔بھارتی حکومت نے سرجیت سنگھ پر الزام عائد کیا کہ اس نے سستی شہرت کے لئے یہ دعویٰ کیا۔ سرجیت سنگھ نے بتایا:''میری غیرموجودگی میں حکومت میرے گھروالوں کو ڈیڑھ سو روپے ماہانہ رقم فراہم کرتی رہی۔ اگرمیں ان کے لئے کام نہیں کرتاتھا تو وہ کس لئے میرے گھروالوں کو معاوضہ دیتی رہی۔ میرے پاس ڈاکومنٹری ثبوت موجود ہیں''۔ اس نے بتایا کہ اس نے پاکستان میں رہ کر متعدد پاکستانیوں کو بھارت کے لئے کام کرنے پر تیارکیا۔

وہ پہلے بارڈر سیکورٹی فورس( بی ایس ایف) میں کام کرتارہا، 1968ء میں کھیتی باڑی کرنے لگا، 70ء کی دہائی میں بھارتی فوج نے اسے جاسوسی کے لئے ریکروٹ کیا۔مجموعی طورپر85چکر لگائے۔ جب بھی پاکستان جاتا، واپسی پر اپنی فوج کے لئے مطلوبہ دستاویزات کا پلندہ لے کر آتاتھا۔ اس نے بتایا:'' میں ہمیشہ متعین دن سے اگلے روز واپس بھارت میں داخل ہوتاتھا۔ مجھے کبھی مشکل کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ تاہم جب آخری چکرلگایاتو سب کچھ خطرناک حد تک بدل گیاتھا۔دراصل میں ایک پاکستانی ایجنٹ کی ریکروٹمنٹ کے لئے پاکستان گیا تھا۔ جب اسے لے کر واپس آنے لگا، سرحد پر ایک بھارتی سیکورٹی اہلکار نے اس کی بے عزتی کردی۔

 



اس نے اسے تھپڑ بھی مارا اور بھارت میں داخلہ سے روک دیا۔ ایجنٹ بھی بہت مشتعل ہوگیا، چنانچہ میں اسے واپس لاہور لے گیا۔ وہاں جاکر اس نے پاکستانی سیکورٹی حکام کے سامنے میری شناخت ظاہر کردی۔ مجھے گرفتارکرلیاگیا، پاکستانی فوج مجھے انٹیروگیشن کے لئے اپنے ساتھ لے گئی۔ 1985ء میں فوجی عدالت نے سزائے موت سنادی۔ 1989ء میں صدرغلام اسحاق خان نے اس کی معافی کی درخواست قبول کرلی اور عمرقید کے لئے جیل بھیج دیاگیا''۔ وہ کہتاہے کہ کوٹ لکھپت میں کم ازکم 20 بھارتی قیدی موجود ہیں لیکن بھارتی حکومت کو ان کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ ان میں کرپال سنگھ بھی ہے۔ حکام بھول گئے ہیں کہ یہ قیدی بھی کسی کے شوہر، کسی کے بیٹے اور کسی کے بھائی ہیں۔

بھارت میں جاسوسی کے حوالے سے سب سے زیادہ شہرت 'ددواں' نامی گاؤں کو ملی جو پاکستانی سرحدکا قریبی گاؤں ہے، یہاں کا ہرباشندہ پاکستان میں جاسوسی کی خدمات سرانجام دے چکاہے۔ کسی کا شوہر، کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی اور کسی کا باپ۔ ہرکوئی پاکستان میں اپنا وقت گزار کے واپس آچکا البتہ بعض پاکستانی جیلوں میں موجود ہیں۔

بعض کو سرجیت سنگھ کی طرح عشروں تک قید میں رہنا پڑا اورپھر رہائی ملی اور اب وہ اپنے خاندان کا حصہ ہیں۔ امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع سے ہزاروں افراد بھارتی بڑی خفیہ ایجنسی 'را' اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سرجیت سنگھ نے بھارتی قومی ٹی وی چینل 'دور درشن' پر اعتراف کیا کہ اس نے 'را' کے لئے جاسوسی کی خدمات سرانجام دی تھیں۔ تاہم حکومت کی طرف سے فوری طورپر اس بیان کی تردید آگئی۔ یادرہے کہ مذکورہ بالا اضلاع کے جاسوس دیہاتوں میں ہر کوئی برسرعام اپنے جاسوس ہونے کا اعتراف کررہاہوتاہے۔

بہت سے لوگ سمجھتے ہوں گے کہ بھارتی جاسوس دیہاتیوں کو عظیم قومی خدمت سرانجام دینے کے عوض بھاری بھرکم معاوضہ اور بہترین سہولیات حاصل ہوں گی لیکن ایسا ہرگزنہیں ہے۔ انھیں پرکشش معاوضہ ملتاہے نہ ہی اہداف حاصل کرنے پر کوئی بڑا انعام، حالانکہ وہ جان پر کھیل کر یہ خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ یہ بات کہنے کی نہیں کہ یہ جاسوس ان خفیہ ایجنسیوں کے لئے آنکھیں اور کانوں کادرجہ رکھتے ہیں تاہم ان سارے جاسوسوں کے درمیان ایک ہی قدرمشترک ہے کہ یہ انتہائی غریب ہیں۔

اکثریت دلت ہیں، خاص طورپر ایسے دلت جو عیسائی بھی ہیں۔ ان کے پاس کوئی جائیداد نہیں۔ سرجیت سنگھ مجابی سکھ، دلت ہے۔ معاشی اور صنعتی اعتبار سے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اس لئے جب زندگی گزارنے کے لئے وسائل تلاش کرتے ہیں تو وہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ وہ برسرعام کہتے ہیں کہ جب ایجنسیوں کا مقصد حاصل ہوجاتاہے تو وہ انھیں ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں۔ بالخصوص اگر وہ پاکستان میں گرفتارہوجائیں، تو ان کی رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ ان سے مکمل طورپر لاتعلقی ظاہر کی جاتی ہے۔ اگروہ کسی بھی طرح سے رہائی پاکر واپس بھارت آجائیں تب بھی کوئی انھیں ''اپنا'' نہیں مانتا۔

' ددواں'گاؤں کا ایک باسی کرامت راہی کہتا ہے کہ 'را' ان سے معاہدہ کرتی ہے، اگر کوئی جاسوس پکڑا گیا تو وہ ہمارے لئے ایسا ہی ہوگاجیسے ہم اسے کبھی جانتے ہی نہ تھے۔ کرامت نے پاکستانی جیلوں میں17برس گزارے لیکن پھر اسے اپنے ہی ملک میں یہ ثابت کرنے کے لئے طویل عدالتی جنگ لڑناپڑی کہ اس نے ملک کے لئے خدمات سرانجام دی ہیں۔

اس نے بتایا:'' میں نے 1983ء میں 'را' کے لئے کام شروع کیا۔ پاکستان کے پانچ چکر لگائے۔ آخری بار گیاتو 1988ء میں گرفتار ہوگیا۔ پاکستانی ائیرفورس نے مجھ سے ایک خط برآمد کرلیا جو بھارت سے آیاتھا، انھوں نے شکنجہ لگاکر مجھے گرفتارکرلیا۔ مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے میرے جسم کو توڑپھوڑ کررکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب میں کسی قسم کا جسمانی کام نہیں کرسکتا۔ میں پاکستانی جیل میں مارچ2005ء تک رہا''۔ جب وہ یہ سب کچھ بیان کررہاتھا تو اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثرات سے عاری تھا۔



ماضی کا یہ جاسوس آج کل اپنے گاؤں میں چائے کا ایک کھوکھا چلارہا ہے۔ وہ کہتاہے:'' مجھ سے دھوکہ کیاگیا، مجھے کوئی معاوضہ نہیں ملا، اب میرے پاس اس قدر رقم بھی نہیں ہے کہ میں اپنے بچوں کو سکول سے آگے پڑھاسکوں۔جب تک میں 'را' کے لئے کام کرتا رہا، مجھے ماہانہ پندرہ سو روپے ملتے رہے۔ جب میں گرفتار ہوا، ' را' نے میرے گھر والوں کو معاوضہ دینابند کردیا۔ میں نے اپنے ملک کے لئے کام کیا لیکن میری خدمات کا اعتراف نہ کیاگیا''۔

کشمیر سنگھ 2008ء میں بھارت واپس آیا۔ وہ 35برس تک پاکستانی جیلوں میں رہا لیکن کبھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ جاسوسی کے مشن پر تھا لیکن جب وہ رہاہوکر بھارتی سرزمین میں داخل ہوا تو اس نے بارڈر پر کھڑے ہوکر ہی نعرہ لگادیا کہ وہ پاکستان میں بھارت کے لئے جاسوسی کرتارہا۔ بعدازاںجب بھارتی پنجاب حکومت نے کشمیر سنگھ کے لئے کچھ معاوضہ منظور کیاتو اس نے اپنا یہ بیان واپس لے لیا۔

گوپل داس جسے پاکستان نے 27برس بعد رہاکیا، کا کہناہے کہ پاکستان میں جتنے بھی بھارتی جاسوس گرفتار ہیں یا جو غلطی سے سرحد پار گئے ہیں، بھارتی حکومت ان کی رہائی کے لئے کچھ نہیں کررہی ہے۔ گوپل داس1984ء میں غلطی سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوگیاتھا ، وہاں اسے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا۔

ضلع گورداسپور کا یہ گاؤں'ددواں' کسی دورمیں 'جاسوسوں کا گاؤں' کہلاتاتھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ گاؤں کی نئی نسل اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اب اس گاؤں میں پرانے جاسوسوں میں ڈیوڈ اور ڈینیل ہی باقی رہ گئے ہیں۔ دونوں پاکستانی جیلیں کاٹ چکے ہیں۔ ڈیوڈ اب فالج کا شکار ہے، چارپائی سے لگاہواہے۔ اس کے دوبیٹے ہی خاندان کے لئے کماتے ہیں۔ جبکہ ڈینیل(دلت عیسائی) رکشہ چلاتاہے۔ اس کے بچے چھوٹے ہیں،کوئی مزدوری کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

ڈینیل اور ڈیوڈ جب جاسوس نہیں تھے، تو بھارت سے پاکستان میں شراب سمگل کرتے تھے۔ ڈینیل کہتاہے: '' شراب کی اسمگلنگ اپنا پیٹ پالنے کے لئے کرتے تھے۔ دوسری طرف پاکستان میں ہمارے 'سورس' ہمیں وہ سب کچھ فراہم کردیتے تھے، جو ہم مانگتے تھے۔ ہم کچھ تصاویر مانگتے تھے یاپھر پاکستانی اخبارات،میگزین، پاکستانی ریلوے کا ٹائم ٹیبل۔ بعض اوقات ہمیں کسی پاکستانی شہری کو بھی بھارت میں لاناہوتاتھا''۔

ڈینیل کہتاہے: '' اب ہمارے گاؤں میں زیادہ جاسوس نہیں ہیں۔ اشوک چند سال پہلے مرگیا۔ ستپال ایک پاکستانی جیل میں مرگیا۔ کوئی بھارتی ایجنسی ہمارے گھروالوں کی مدد کو نہیں آتی۔ اس لئے لوگ کمائی کے دیگرذرائع کی طرف مائل ہوچکے ہیں''۔'را' اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کے حکام بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ڈینیل جیسے جاسوسوں کی باتیں مکمل طورپر غلط نہیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔