پانی سے تنگ ہوں

یہاں اگر آپ کسی کو چاند دکھائیں تو وہ آپ کی انگلی پر تنقید شروع کر دے گا


انیس منصوری May 10, 2015
[email protected]

یہاں اگر آپ کسی کو چاند دکھائیں تو وہ آپ کی انگلی پر تنقید شروع کر دے گا ۔اُسے چاند کی خوبصورتی اوراُس سے پھیلتی چاندنی سے کوئی غرض نہیں ۔ دلکش موسم میں آپ کسی کو پھولوں کی بات کرے تو وہ آپ کی انگلی کوکانٹوں سے زخمی کر دے گا اور آپ کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کرے گا کہ اگر اس سرزمین پر رہنا ہے تو بس کانٹوں کو گلے سے لگا کر رکھو ۔

اس بستی کے لوگوں کو اگر صبح کی خبر دو تو وہ رات کا ذکر چھیڑ دیں گے ۔ انھیں ہر بات میں سازش اور ہر چہرے میں ایک دشمن نظر آئے گا ۔ امن اور محبت کا پھل میٹھا ہوتا ہے لیکن ہمارے منہ کے ذائقے ایسے کر دیے گئے ہیں کہ جب تک اُس میں مرچیں نہ ہو تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کچھ کھا رہے ہیں ۔ یہاں ٹھنڈا کرکے کھانے کی شاید عادت ہی نہیں رہی ۔ جب تک زبان جل نہ جائے تب تک کسی کا منہ بند نہیں ہوتا ۔کچھ لوگ جان بوجھ کر بس کڑوا کھلانا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہی نہیں ہے ہمارے منہ کے ذائقے ٹھیک ہوں ۔

مجھے بتائیے کہ ایک عوامی نمائندہ جسے ہر صورت میں لوگوں کے پاس جا کر ووٹ مانگنے ہیں وہ کبھی چاہے گا کہ اس کے ووٹروں میں یہ تاثر پیدا ہوکہ وہ ایک ظالم شخص ہے ؟ کیا ایسی جماعت جس کو ہر وقت عوام کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ برداشت کرے گی کہ عوام میں یہ تاثر پیدا ہو کہ وہ کرپٹ ہے ۔کیا اُسے صرف ایک مہینے ایک سال یا پھر ہمارے نظام کے مطابق بس ایک بار ہی حکومت میں آنا ہوتا ہے ۔کیا اس ملک میں تمام کے تمام لوگ کرپشن میں ملوث ہیں یا پھر ان کے بنائے ہوئے امیج سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔کیا پاکستان میں بہت ساری جماعتیں یا نظریات کے لوگ صرف تشدد چاہتے ہیں یا پھر ان کے ایک خاص وقت کے دور کو ہم بھول کر آگے نہیں بڑھنا چاہتے ۔

بات شاید مشکل ہو رہی ہے لیکن اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بہت سارے لوگ آج کل یہ ڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں کہ ان کے پاس ایک ایسی لسٹ ہے جس میں پیپلز پارٹی کے ان لوگوں کے نام ہیں جن کے خلاف کارروائی کے بعد پیپلز پارٹی کے گرد گھرا تنگ کیا جائے گا اور پھر وہ ساتھ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگ ملک سے فرار ہو گئے ہیں ۔

میں صرف چند سوالات کرنا چاہتا ہوں ۔ اول یہ کہ یہ لسٹ کس نے بنائی ہے ؟ اور اُس سے بڑھ کر اس لسٹ کو میڈیا کے اُن لوگوں کو کیوں دی گئی ہے، جو بار بار اپنے پروگرامز میں اس بات کا شور مچا رہے ہیں ۔ ہمیں کیونکہ مرچوں والے کھانے کا شوق ہے اسی طرح مصالحے والی خبروں کو بھی انجوائے کیا جاتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے متعلق آج سے نہیں بلکہ بھٹو دور میں بھی یہ کہا گیا کہ یہ کرپشن میں ملوث ہے اور ایک ایسا امیج بنایا گیا جس میں کبھی 10 فیصد تو کبھی سو فیصد کے نعرے لگائے گئے ۔ہم نے کس جماعت کو کرپشن سے پاک قرار دیا ہے؟ لیکن اُس کے باوجود بھی لوگوں نے انھیں کو ووٹ دیا ۔

میرا سوال آسان سا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اس امیج کو اس وقت دوبارہ کیوں اچھالا جارہا ہے اور اس لسٹ کو جاری کرا کر کس کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس سارے گیم میں اُن PPP کو کس حد تک دبائو میں رکھنا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے کچھ حلقوں میں یہ بات بھی ہے کہ ذوالفقار مرزا کا اپنا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ وہ کسی کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، وہی پیپلز پارٹی کا یہ بھی خیال ہے کہ اس طرح کی لسٹ کو میڈیا کے ذریعے اُچھالنے کا مقصد انھیں دبائو میں لینا ہے اور مرزا کے ساتھ اس لسٹ کا شور ایک ہی ہاتھ کا کھیل ہے ۔

یہ بات ڈھکی چھپی ہوئی بھی نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کے کئی رہنمائوں کی دولت دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں بڑھتی جارہی ہے ۔ لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ آخر انھیں دبائو میں لینے کی وجہ کیا ہے تو اس بات کا جواب ہمیشہ گول مول ہوتا ہے ۔اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی سندھ کے اندر اس بات کو شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے ووٹرز کو باور کرانے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے کہ مرزا اکیلے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے نادیدہ طاقت ہے ایسی صورت میں یاد رکھے کہ نتیجہ وہ ہی ہو گا جو NA246 کا ہوا ۔

مگر کیا جس طرف اشارہ کیا گیا وہ نادیدہ قوتیں بھی کوئی سازش کر رہی ہیں یا پھر ان کا مقصد کچھ اور ہے یا پھر اُن کا نام صرف استعمال کر کے سب لوگ اپنے اپنے الُو سیدھے کر رہے ہیں ؟ پیپلز پارٹی کے کئی اہم لوگوں سے گفتگو کر کے نیتجہ یہ نکلا ہے کہ انھیں بھی یہ یقین ہو رہا ہے کہ ان کے خلاف اس حوالے سے ایک محاذ تیار کیا جارہا ہے اور کچھ لوگ ذہنی طور پر تیار بھی ہو رہے ہیں ۔

ایسے میں آصف علی زرداری وقت پر اپنا کارڈ کھیلتے ہیں جیسے کہ انھوں نے سینیٹ میں کھیلا ۔مرزا صاحب کے بعد اب ایک صاحب جو نسبتا خود کو پڑھا لکھا مانتے ہیں وہ بھی میدان میں آنے والے ہیں جب کہ ایک سابق طاقت ور صوبائی وزیر کو بھی لپیٹے جانے کی خبریں آرہی ہے ۔ مگر پیپلز پارٹی ان نادیدہ ہاتھوں سے اس وقت کسی بھی طور پر براہ راست یا عوامی سطح پر ٹکرانے کے موڈ میں نہیں ہے اور شاید ان کا مشورہ متحدہ کے لیے بھی یہ ہی ہے ۔

متحدہ کی قیادت یہ بات سمجھتی ہے ہمیں ٹکرائو کی طرف نہیں جانا چاہیے ، لیکن کچھ لوگ جو شاید سیاست اور مزاج سے واقف نہیں وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ معاملے کو اور ہوا دی جائے،مگر ایک اچھی بات یہ ہے کہ دونوں طرف سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ پچھلی باتوں کو بھول کر آگے بڑھا جائے ۔ اس حوالے سے پریس ریلیز اوربیانات کا سلسلسہ کچھ حد تک رکا ہے اور امید یہ کی جارہی ہے گزشتہ دنوں میں ہونے والی کچھ ملاقاتیں رنگ لا رہی ہیں ۔ ایک اور دوسرا عنصر عدم اعتماد کا ہے ۔

اس کی وجہ سے جہاں دونوں طرف سے احتیاط برتی جارہی ہے تو دوسری طرف میڈیا کو بھی چھپ چھپ کر کچھ ایسی اطلاعات دی جارہی ہے جس کا روکا جانا ضروری ہے ۔ رائو انورکے معاملے میں کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر غلط فہمیاں پھیلائیں ۔متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے پریس کانفرنس کر کے اس معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی ۔ مگر پھر کچھ اپنوں نے معلومات کا تبادلہ اس طرح سے متحدہ کی اعلیٰ قیادت کے سامنے کیا کہ جس کے بعد ردعمل ایک خطرناک تقریر کی صورت میں سامنے آیا۔

ایک اچھا قدم اور بھی ہے دونوں اطراف سے ہر بات کا رد عمل فوری طور پر ظاہر نہیں کیا جارہا ۔ لیکن سوچ کا تبدیل ہونا بہت زیادہ ضروری ہے ۔کچھ لوگوں کے براہ راست نام آرہے ہیں جو اب کراچی سے ہٹ کر کسی اور اعلیٰ مقام تک پہنچ گئے ہیں ۔ متحدہ اور پیپلز پارٹی دونوں کو اس بات کا یقین دلانا ضروری ہے کہ ان کے خلاف کوئی جان بوجھ کر محاذ کھڑا نہیں کیا جا رہا ہے ۔

جو لوگ مصالحہ لگا کر اپنا مال بیچنا چاہتے ہیں وہ لوگ تھوڑی سی احتیاط کرے اور ان کا مسئلہ یہ ہے کہ پرائم ٹائم کم ہیں اور دانشور بہت سارے ہیں ۔ایسے میں ہر کسی کو اپنا چورن بیچنا ہے ۔کچھ لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے جانے والوں سے زیادہ سمجھ دار اور بہادر ہیں اور کچھ لوگ جلتی پر تیل کا کام کر کے اپنی پوزیشن کو قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔

میرا مشورہ وہ ہی ہے جو ایک اعلیٰ میٹنگ میں کہا گیا کہ اب غصے میں کی گئی چیزوں کو بھول کر آگے بڑھا جائے ۔ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کرے اور جب اب آپ سب ایک دوسرے کو تسلیم کر چکے ہیں تو پھر اپنے معاملات کو میڈیا میں لانے کی بجائے آپس میں بیٹھ کر حل کریں ۔کیونکہ اگر ایک تیلی لگائے گا تو دوسرا تیل ڈالے گا ۔ایسے میں دامن کسی کا نہیں بچے گا ۔ وقت بدل چکا ہے اب خود کو بدلیں۔ ایک دوسرے کے کپڑے پہننے کی کوشش مت کریں ورنہ دونوں تنگ ہوں گے جیسے کہ میں ابھی پانی سے تنگ ہوں لیکن شربت شوق سے پیتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں