میرے پائے پک چکے

دنیا بدل رہی ہے اور یہ اب تک اسی دلدل میں ریت ڈال رہے ہیں۔۔۔


انیس منصوری May 06, 2015
[email protected]

یہاں گاؤں کے سارے لوگ بس تعزیت ہی کے لیے اس وقت جمع ہوتے ہیں جب بھیڑیا سارے مویشی کھا جاتا ہے۔ یہاں لوگ اس دن اجڑی ہو ئی زمین پر پہرا دیتے ہیں جب چڑیا سارا کھیت ختم کر چکی ہوتی ہے۔

یہاں لوگ اس وقت کفن ڈھونڈھنے کے لیے اجتماعی طور پر نکلتے ہیں جب جنازہ سڑک پر پڑا ہوا ہو۔ چوکیدار لاکھ لوگوں کو ہر روز ہوشیار کرتا ہو کہ بھیڑیا آنے والا ہے لیکن سب لوگ اپنے کانوں کے گرد موٹا کپڑا لپیٹ کر یہ سمجھتے ہیں کہ چوکیدار کی تو روز کی عادت ہے ۔ بھیڑ یے کو روکنے کے لیے کبھی سب ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے لیکن جب کسی کی ساری زندگی کی جمع پونجی ختم ہو جائے گی تو سب لوگ اکھٹے ہو کر بس تعزیت کے لیے آئیں گے۔

ان سب کو اگر کہہ دیا جائے کہ چڑیا کو بھگانے کے لیے آؤ سب مل کر پہرا دیں تو کوئی بھی اکٹھا نہیں ہوگا لیکن جب کھیت ویران ہو جائے گا تو سب اس کی رکھوالی کا عہد کریں گے۔ 10 روپے کی دوا نہ ملنے پر ایک جیتا ہوا انسان جب آخری سانس لے چکتا ہے تو یہ سارے گدھ فوراً اکھٹے ہو جائیں گے اور فخر سے کہتے ہیں کہ چلو یار کسی کے جنازے کو کاندھا دینا ہے۔ مگر اس کی زندگی میں اسے ایک گھونٹ پانی تک نہیں دیں گے۔ یہ ہی ہمارا سماج ہے اور ایسی ہی شاید ہماری حکومت ہے۔

دنیا بدل رہی ہے اور یہ اب تک اسی دلدل میں ریت ڈال رہے ہیں۔ نیپال کا زلزلہ آپ کی آنکھیں نہیں کھولے گا اور نا ہی پشاور میں حالیہ دنوں آنے والی بارشیں۔ یہ ایک دوسرے پر الزام لگا کر اپنا دامن جھاڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس عوام کا تو روز نیا دکھ ہوتا ہے کون ایک ہی طرح کے شور میں اپنا قیمتی وقت ضایع کرے۔ انھوں نے ٹھیک کہا کہ محکمہ موسمیات کو اپنا فرض ٹھیک طرح سے انجام دینا چاہیے۔ لیکن کوئی یہ بھی تو بتائے جس طرح بارشوں کے وقت ان کے وزیراعلیٰ غائب تھے اسی طرح پچھلے 9 مہینے سے محکمہ موسمیات کا کوئی سربراہ نہیں ہے۔

یعنی کون اہم فیصلے کرے گا جب اتنے اہم ادارے کا ڈائریکٹر جنرل ہی نہ ہو۔ اس حکومت کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ یہاں اگر کوئی ایک سیٹ خالی ہو جائے تو اس کے امیدوار اتنے ہوتے ہیں کہ اپنے ہی گھر کی کابینہ میں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو آپ صرف گورنر پنجاب کو ہی دیکھ لیجیے۔ لگتا ہے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ابھی تک حکومت اپنے ہاتھوں میں چراغ لے کر تلاش نہیں کر پائی۔

بڑی بڑی باتیں کرنے والے یہ تو بتائیں کہ موسم کی تبدیلی ہم پر اور کتنا ظلم کرے گی۔ لیکن یہ کہاں سے بتا سکتے ہیں کہ اس محکمہ کا سالانہ بجٹ 90 کروڑ روپے ہیں اور ہر سرکاری ادارے کی طرح ان کا بھی حال یہ ہے کہ اس میں سے 85 فیصد حصہ تنخواہ میں چلا جاتا ہے۔ یہ ہی حال تعلیم اور صحت کے شعبے کا ہے۔ جب ایک ادارے کا اتنا بڑا حصہ صرف تنخواہ میں چلا جاتا ہو تو وہ جدید آلات کہاں سے خریدے گا؟

ہم سب صرف الزام دیتے ہیں لیکن کوئی مسئلے کا حل نہیں دیتا۔ دنیا اس وقت تیزی سے بدلتے ہوئے موسم پر فکرمند ہے لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ہم صرف اس وقت ماتم کرنے میں مصروف ہوتے ہیں جب ہر گلی سے لاشیں اٹھ رہی ہوتی ہیں۔

اس موسم کی تبدیلی سے ہمیں سالانہ 3 کھرب 65 ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ مگر ہمیں کیا؟ ہم تو صرف اس وقت جوش میں آئیں گے جب ہمیں ایک اور بڑی آفت کے بعد قرضہ مانگنا ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق اس موسم کی تبدیلی کی وجہ سے فصلوں اور زمین کو 70 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ ہماری فصلوں کا زیادہ تر انحصار بارش پر ہوتا ہے۔ بغیر موسم کی بارشیں انھیں شدید نقصان پہنچاتی ہیں اور اس نقصان سے بچاؤ کا طریقہ پیشگی اطلاع ہے اور یہ اطلاع یقینی طور پر محکمہ موسمیات کو دینی ہے۔ لیکن وہ غریب کیسے دے سکتے ہیں جو خود لوڈشیڈنگ کے مارے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے 100 اسٹیشن ہیں۔ لیکن کمال کے اس ادارے کے پاس جنریٹر نہیں ہے اور نہ ہی یہ جنریٹر کا فیول برداشت کر سکتے ہیں۔

اب آپ خود بتائیں کہ جب بجلی نہیں ہو گی تو کسی بھی اسٹیشن یا موسمی ریڈار سے ان کے پاس معلومات کہاں سے پہنچے گی اور وہ کیسے پہنچائیں گے؟ لیکن آپ ہرگز فکرمند مت ہوں، ہمارے پاس تو ہر مسئلے کا ایک علاج موجود ہے اور وہ ہے بھیک۔ اس لیے ہم نے ابھی سے اس کے لیے بھیک کا بندوبست کرنا شروع کر دیا ہے، اور ہمیں پوری امید ہے کہ ہم جیسے غریبوں پر رحم کھا کر جاپان 4 ارب روپے کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔

اور ہم پر ہمیشہ شفقت کا ہاتھ رکھنے والے ورلڈ بینک سے بھی بڑی امیدیں باندھ کر رکھی ہوئی ہے کہ وہ بھی 4 کروڑ ڈالر دے گا۔ اب جب تک یہ امداد، بھیک یا قرضہ ہماری جھولی میں آ کر نہیں گرے گا تب تک آپ پر بن موسم کی برسات، طوفان، سیلاب وغیرہ وغیرہ اسی طرح آتے رہیں گے اور جب ہم لاشیں اٹھا رہے ہوں گے تب آپ ٹی وی چینلز پر ہمارے عظیم رہنماؤں کے درد بھرے پیغامات بھی سنتے رہیں گے۔

کوئی پاگل تو نہیں جو یہ کہتا رہتا ہے کہ احتیاط بہتر ہے۔ مگر ہم تو دو دن کے لیے جاگتے ہی اسی وقت ہیں جب پانی سر تک آ چکا ہوتا ہے۔ صرف محکمہ موسمیات کا ہی یہ حال نہیں ہے بلکہ جس پتھر کو اٹھائیں گے وہاں سے ایسے ہی کیڑے نکلیں گے۔ یہ کہتے کہتے رکتے نہیں ہیں کہ ہم معاشی انقلاب برپا کر دیں گے، سرمایہ ہمارے پیروں میں آ کر گر جائے گا۔ آئیے ان کی نااہلی کا ایک اور ثبوت دیکھیے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں اور نیچے آ گیا ہے جہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ پہلے پاکستان کا نمبر 110 تھا جہاں سے یہ ترقی کر کے 128 پر آ چکا ہے، اور کئی ملکوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے بہتر نہیں ہے۔

اس کی وجہ عبدالستار ایدھی ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ حکومت ہے۔ کوئی چونکا دینے والی بات نہیں لیکن ہمارے منہ پر سچ کا تھپڑ اس طرح مارا ہے کہ یہاں حکومت کی کوئی بھی واضح پالیسی نہیں ہے، کہیں پر بھی شفافیت کا عنصر موجود نہیں، اس لیے پاکستان میں کاروبار کرنا اور مشکل ہو گیا ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان کے کسی ادارے نے نہیں چھاپی ورنہ آپ کہہ دیتے کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے۔

جہاں تک میری ناقص معلومات ہے تو اس کا نوٹس لیتے ہوئے ایک مہینے پہلے اسحاق ڈار نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جو اس بات کا اندازہ لگاتی کہ کس طرح ایک آسان پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ اس کمیٹی کا اعلان بھی ہوا لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں آ سکا۔ اس میں ڈار صاحب کا کوئی قصور نہیں ہے۔

اکیلی ذات اور کام کا اتنا بوجھ۔ دبئی میں مذاکرات ہوں تو ڈار صاحب، تحریک انصاف کے گھوڑوں کی رفتار کو آہستہ کرنا ہو تو ڈار صاحب، ورلڈ بینک جیسی بہو کو سمجھانا ہو تو ڈار صاحب، ایم کیو ایم کو راضی کرنا ہو تو جناب، اسٹاک مارکیٹ کے گھپلے اور الجھانے ہو تو ڈار صاحب۔ اب ایسے میں اس کمیٹی کے لیے ایک مہینہ کیا ایک سال بھی لگ سکتا ہے۔

اس لیے کاروباری لوگ پریشان نہ ہوں، اس سال نہیں تو اگلے سال کمیٹی کام بھی کرے گی اور اس کے بعد کے سال میں کچھ سفارشات بھی دے گی اور پھر وہ وقت آ ہی جائے گا جب اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا لیکن اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اگلے پانچ سال کے لیے پھر منتخب ہو۔ دو سال میں ہمارے تو پائے پک چکے ہیں۔ میں پائے کے مزے لوں تب تک آپ اپنے پائے چولہے پر رکھ دیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔