فضائے بدر پیدا کر

کاش میرا دوست، صداقت کی اس منزل کی جانب لوٹ جائے جس پر وہ پہلے کھڑا تھا۔ اللہ اس کی نصرت کرے اور اسے یقین آ جائے کہ۔


Orya Maqbool Jan May 01, 2015
[email protected]

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جو اس کی جانب ہدایت کے لیے رجوع کرتا ہے، اپنے گناہوں، گزشتہ خیالات اور نظریات پر نادم ہوتا ہے تو وہ اسے نور ہدایت سے بھی سرفراز کرتا ہے اور اس کی عزت و توقیر کی حفاظت بھی۔

ڈاکٹر غلام جیلانی برق بھی ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جو اپنی ابتدائی زندگی میں مادہ پرست افکار اور جدید علّت و معلول پر مبنی علوم کی چاہ میں اسلام کی بنیادی اساس سے ہٹ گئے اور انھوں نے اپنی کتاب ''دو اسلام'' تحریر کی، جس کی وکالت میرے دوست کالم نگار نے بار بار کی۔ موصوف کا دعویٰ تھا، بلکہ چیلنج تھا کہ برق صاحب آخری وقت تک اپنے ان ہی خیالات پر قائم رہے۔ میرا اللہ جب اپنے ہدایت یافتہ لوگوں کی عزت کی حفاظت کرنا چاہتا ہے تو ایسی پیش بندیاں ان لوگوں سے کروا دیتا ہے کہ بعد میں آنے والے دانشوروں کا منہ بند ہو جائے۔

برق صاحب کی اس کتاب کے جواب میں مولانا مسعود احمد بی ایس سی نے ایک کتاب ''تفہیم الاسلام'' لکھی جو 1967ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور مولانا مسعود احمد کے درمیان خط و کتابت کا آغاز ہوا۔ یہ خطوط ا ن کی کتاب ''تفہیم الاسلام'' کے دوسرے ایڈیشن کے صفحات 575 سے579 تک میں دیے گئے (یہ خطوط ڈاکٹر برق صاحب کی تحریر کے عکس کے طور پر شائع کیے گئے ہیں)۔ یہ دوسرا ایڈیشن1972ء میں شائع ہوا، اس وقت برق صاحب حیات تھے۔

برق صاحب کے تمام خطوط کو عبدالعزیز ساحر صاحب نے مرتب کیا ہے اِس کتاب کا عنوان ہے ''ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے خطوط ''یہ کتاب حسنین پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی ہے اور اس کے صفحات135، 136 اور 137 پر یہ خطوط موجود ہیں۔ میں خط یہاں نقل کر رہا ہوں۔ ان خطوط میں برق صاحب کی ''دو اسلام ''کے بارے میں ندامت کا اظہار بھی ہے اور اس کی اشاعت پر پابندی کا اعلان بھی۔

پہلا خط: کیمبل پور۔16 مئی1971ء ۔ آقائے محترم۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ! آج ہی آپ کی گراں قدر تصنیف تفہیم اسلام'' ملی اور ملتے ہی چند صفحات پڑھ ڈالے۔ دو اسلام کے بڑے بڑے عیوب تین ہیں۔ اول۔ اس کے پہلے ایڈیشن میں متعدد علمی اغلاط ہیں (مثلاً احادیث کا ترجمہ وغیرہ) جنھیں بڑی حد تک دوسرے ایڈیشن میں نکال دیا گیا، لیکن اب بھی باقی ہیں۔

دوم: میرا یہ موقف کہ احادیث کی تدوین و تسوید اڑھائی سو برس بعد ہوئی تھی سروپا غلط ہے۔ یہ غلطی دوسرے ایڈیشن میں بھی موجود ہے۔ میں نے تو اس کی تلافی کر دی ہے کہ ''تاریخ تدوین حدیث'' لکھ کر ثابت کیا ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ میں ہی تقریباً چالیس ہزار احادیث محفوظ ہو چکی تھیں۔ لیکن یہ کتاب شاید ہی کبھی چھپے۔

آج سے تین برس پہلے لاہور کا ایک بھوکا اور بے سروسامان طابع و ناشر یہ کتاب لے گیا اور میرے انتہائی اصرار کے باوجود نہ تو تا حال کتابت کروائی اور نہ مسودہ واپس کیا۔ تیسرا عیب یہ ہے کہ دو اسلام کی زبان غیر سنجیدہ، غیر علمی، اور سخت جانبدارانہ ہے۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ میں آپ کی زبان، اندازِ تحریر، اسلوب بیان اور متانت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ پوری کتاب پڑھنے کے بعد میں شاید پھر آپ کو خط لکھوں، سردست میں اس تخلیق پر آپ کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ والسلام۔ مخلص۔ برق

دوسرا خط: کیمبل پور26 نومبر1971ء، السلام و علیکم و رحمتہ اللہ، یاد آوری اور تہنیت عید کا شکریہ۔ آپ کی قابلِ قدر کتاب ''تفہیم اسلام'' کے متعلق میں کچھ عرصہ پہلے اپنے تاثرات کا اظہار کر چکا ہوں۔ اصل چیز وہ جذبہ ہے جو کسی کتاب کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کا مقصد ان اثرات کو مٹانا ہے جو میری کتاب سے پیدا ہوئے۔ اس للہیت پر پہلے بھی مبارک باد پیش کر چکا ہوں اور پھر پیش کرتا ہوں۔ میری آزردگی کا نہ تو سوال پیدا کرتا ہے اور نہ وہ قابلِ التفات ہے۔ والسلام۔ مخلص۔ برق۔

تیسرا خط: کیمبل پور۔14 نومبر1972ء۔ قابلِ صد احترام۔ السلام وعلیکم یاد آوری کا شکریہ: میں نے ناشرین ''دو اسلام'' کو تاکید کی ہے کہ وہ اس کا آئندہ کوئی ایڈیشن شائع نہ کریں۔ تاریخ تدوین حدیث گم ہو گئی تھی۔ ساری نہیں بلکہ تینتیس اوراق۔ وہ مجھے دوبارہ لکھنے پڑے۔ ماخذ کی دوبارہ تلاش کی اور مسودے کو مکمل کر کے پھر ارسال کیا۔ اب اس کی کتابت ہو رہی ہے۔ دعا فرمائیں اس کی اشاعت میں آئندہ کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ والسلام۔ مخلص۔ برق

غلام جیلانی برق صاحب کے ان خطوط میں ''دو اسلام'' کے لکھنے پر ندامت بھی ہے اور اللہ سے معافی کی طلب بھی اور اس کتاب کو نہ چھاپنے کا اعلان بھی۔ پھر اس کے بعد انھوں نے اپنی کتاب دو اسلام کے ردّ میں تاریخ تدوین حدیث لکھی اور اس کے دیباچے میں برملا اعتراف کیا ''جو لوگ اس موضوع پر میری پہلی تحریروں سے آشنا ہیں، وہ یقینا یہ اعتراض کریں گے کہ میرا موجودہ موقف پہلے موقف سے متصادم ہو رہا ہے۔

ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انسانی فکر ایک متحرک چیز ہے جو کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی اور سدا خوب سے خوب ترکی تلاش میں رہتی ہے۔ انسان صداقت تک پہنچتے پہنچتے سو بار گرتا ہے۔ میں بھی بار بار گرا اور ہر بار لطف ایزدی نے میری دستگیری کی، کہ اٹھا کر پھر ان راہوں پر ڈال دیا جو صحیح سمت جا رہی تھیں۔ یکم نومبر1969ء۔

ڈاکٹر غلام جیلانی برق کو تو اللہ نے ہدایت سے سرفراز کر دیا۔ انھوں نے اپنی غلطیوں کا ازالہ بھی کر دیا۔ لیکن دنیا کی طلب میں سرگرداں اور بنیادی اخلاقیات سے عاری پبلشرز آج بھی ان کی وہ کتاب ''دو اسلام'' چھاپے چلے جا رہے ہیں جس پر وہ انھیں خود منع کر گئے تھے۔ وہ لوگ جو گمراہی اور ظلمت کے شیدا ئی ہوتے ہیں وہ آج بھی برق صاحب کی ان کتابوں سے اپنے لیے جواز تلاش کرتے ہیں جو انھوں نے اپنے زمانۂ جاہلیت میں لکھی تھیں۔ لیکن میں کیا کروں کہ میں اپنے اس کالم نگار دوست سے اُس وقت سے محبت کرتا چلا آیا ہوں جب وہ اسلام کی سچی تصویر اپنے کالموں میں پیش کرتا تھا۔

اس کے قلم کی کاٹ میرے لیے جذبے کا باعث تھی۔ لیکن میرا دکھ اور المیہ یہ ہے کہ میرا یہ دوست ان دنیا پرست لوگوں سے متاثر ہو گیا ہے جو اگر رسولﷺ کی زمانے میں بھی ہوتے تو اعتراض کرتے کہ دیکھو دو گھوڑے، چھ زرہیں اور آٹھ شمشیریں لے کر آپ کافروں کے ایک ہزار کے لشکر کے سامنے میدانِ بدر میں جا رہے ہو، وہ کیل کانٹے سے لیس ہیں۔ یہ تو نعوذ بااللہ سراسر خود کشی ہے۔

وہ اگر عمر ابن خطاب کے زمانے میں ہوتے تو کہتے نہ تمہارے اسلحہ ہے، نہ افرادی قوت، گھروں میں تمہارے فاقے پڑے ہوئے ہیں اور تم ایران اور روم پر حملے کرنے جا رہے ہو، دیوانے تو نہیں ہو گئے، پہلے ترقی کر لو کم از کم اپنے زمانے کی سائنس اور ٹیکنالوجی ہی حاصل کر لو۔ تم تو ہر لحاظ سے پسماندہ ہو اور شکست تمہارا مقدر ہو گی۔ میرے اس کالم نگار دوست کو خوب علم ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر زوال آیا، ان پر دنیا کی قومیں بھیڑیوں کی طرح چڑھ دوڑیں اس وقت وہ دنیا کی امیر ترین اور مہذب ترین قوموں میں شمار ہوتے تھے۔ بغداد دولت، تہذیب، علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا گہوارہ تھا جب ہلاکو نے اسے تاراج کیا۔

ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، جب انگریز اس پر قابض ہوئے۔ اسپین پورے یورپ میں تہذیب کا سرچشمہ تھا جب ازابیلا اور فرڈیننڈ نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ وہ کون سی قوت تھی جو فاقہ کش بدر کے صحابہ اور عمر ابن خطاب کے مفلوک الحال سپاہیوں کو فتح نصیب کرتی تھی۔ وہ اللہ پر توکل اور اِس کی نصرت پر بھروسہ تھا۔ جنید بغدادی سے کسی سے سوال کیا۔ تصوف کیا ہے۔ فرمایا توکّل ہی تصوف ہے۔

جب بغداد، اسپین اور ہندوستان برباد ہوئے تو مسلمانوں سے یہ توکّل ختم ہو چکا تھا۔ ان کا بھروسہ اسبابِ دنیا پر تھا۔ ایسی قوم کو ہزار نیک لوگوں کی دعائیں بھی تباہی سے نہیں بچا سکتیں۔ اللہ اسی قوم کا بازو پکڑتا ہے جو صرف اور صرف اس پر توکل کرتی ہے۔ ہاں اور اسے بھروسہ ہوتا ہے تو مومن کی پامردی پر اور پامردی اسباب سے مختلف چیز ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔

اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

کاش میرا دوست، صداقت کی اس منزل کی جانب لوٹ جائے جس پر وہ پہلے کھڑا تھا۔ اللہ اس کی نصرت کرے اور اسے یقین آ جائے کہ۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

فضائے بدر اسباب کی محتاج نہیں ہوتی۔ اسباب تو تھوڑی سی متاع ہوتی ہے جو اللہ کے حضور لے جا کر عرض کیا جاتا ہے کہ اے اللہ ہم کمزور ہیں جو تھا جمع کر لیا اور یقین یہ ہے کہ صرف اور صرف تو ہی فتح دے سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں