مزدور کا بیٹا

صرف تعلیم مفت کر دینے سے میں پڑھ نہیں سکتا، حکومت میری تعلیم کا خرچ تو اُٹھا لے گی مگرمیرے گھر کا خرچ کون اُٹھائے گا؟


قیصر اعوان May 01, 2015
’’میری امّی کہتی ہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تمہیں پڑھانے کے لیے۔‘‘ بچے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ فوٹو: فائل

اپنے بیٹے کی پہلی کمائی وصول کرتے ہوئے کرم دین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ دن بھر فیکٹری میں کام کرنے کے بعد 300 روپے وصول کرنے والے کرم دین کی جیب میں آج 450 روپے تھے، اُسے اپنے بیٹے پر رشک آ رہا تھا۔

''کرم دین! تجھے اسے ابھی سے کام پر نہیں لانا چاہئے تھا، ابھی تو اس معصوم کے پڑھنے کی عمر ہے۔'' شوکت کرم دین کے فیصلے سے ہر گز متفق نہیں تھا جواپنے تیرہ سالہ بیٹے کو اپنے ساتھ کام پر لے آیا تھا۔

''آٹھویں کا امتحان پاس کر چکا ہے، حساب کتاب میرے سے اچھا کر لیتا ہے، کسی کو اپنی دہاڑی (ایک دن کی کمائی) نہیں مارنے دے گا۔ '' کرم دین نے ہنستے ہوئے کہا۔

''اب تو تعلیم بھی مفت کردی ہے گورنمنٹ نے ، پھر بھی تو نے اس بیچارے کو اسکول سے ہٹا لیا، کتنا ظلم کیا ہے تو نے اس کے ساتھ۔''

''پڑھ کر کیا کرلے گا یہ؟ مزدور کا بچہ ہے مزدوری ہی کرے گا ناں، ڈاکٹرتو بننے سے رہا۔'' کرم دین کے لہجے میں طنز تھا۔

''ڈاکٹر بھی تو انسان ہی بنتے ہیں، یہ محنت کرے تو یہ کیوں نہیں بن سکتا؟''

''مگر ہم انسان نہیں ہیں، ہم مزدور ہیں اور ہمارے بچے بھی مزدور ہی رہیں گے۔'' کرم دین اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو ہرگِز تیار نہیں تھا۔

''مزدور بھی تو انسان ہی ہوتا ہے۔ ''

''تو ایمانداری سے بتا کہ کیا ہمارے ساتھ انسانوں والا سلوک ہوتا ہے؟ ہم تپتی گرمی میں آگ کے سامنے بیٹھ کر جو ایک پُرزہ تیار کرتے ہیں، مالک اُس ایک پُرزے سے 130 روپے کماتا ہے اور ہمیں وہ پُرزہ بنانے پر صرف بیس روپے مزدوری دیتا ہے، اورتجھے پھر بھی لگتا ہے کہ ہم انسان ہیں؟ ''

''اس زندگی کا انتخاب بھی تو ہم نے خود ہی کیا ہے، اگر کچھ پڑھ لیتے تو آج کہیں بیٹھ کر عزت کی روٹی کما رہے ہوتے۔'' شوکت بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔

''تیرا بھی تو ایک بیٹا ہے، تواُسے پڑھا کر ڈاکٹر بنا لینا مگر آج ایسی باتیں کرکے میری خوشی خراب نہ کر۔''

''ابھی تو وہ تیسری کلاس میں ہے مگرمیں اُسے پڑھاؤں گا، وہ ڈاکٹری کرے نہ کرے مگرمیری طرح مزدوری نہیں کرے گا۔'' شوکت کا عزم پختہ تھا۔

*** *** ***

چوہدری صاحب شہر کی ایک معروف کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، مجبوروں اور بے سہاروں کی مدد کا جذبہ اُن میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا، سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ آج بھی اُن کی حویلی میں بیواؤں کے لیے حکومتی امداد کے چیک تقسیم کیے جا رہے تھے۔

''صاحب جی! آپ تو جانتے ہیں کہ میرا شوہر اب کام کے قابل نہیں رہا، اگر مجھے بھی تھوڑی امداد مل جائے تو۔۔۔''

''بی بی ۔۔۔ یہ امداد صرف بیوہ عورتوں کے لیے ہے۔ تیرا شوہر تو زندہ ہے، تجھے یہ امداد نہیں دی جا سکتی۔'' چوہدری صاحب کا مُنشی چوہدری صاحب سے پہلے بول پڑا۔

''مگر میری حالت تو بیوہ عورتوں سے بھی بدتر ہے، میرا شوہر بستر پر پڑا ہے جس کے علاج معالجے کا خرچہ اُٹھانا ہم غریبوں کے بس کی بات نہیں۔ میری تین بیٹیاں ہیں جو شادی کی عمر کو پہنچنے کو ہیں، میرا بیٹا ابھی بہت چھوٹا ہے، میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں جس سے کچھ پیسے مل جاتے ہیں مگر اس مہنگائی کے دور میں ان پیسوں سے گزارہ نہیں ہوتا۔ اللہ نے آپ کو بڑا دیا ہے، اگر مجھے یہ پیسے مل جائیں تو میں اپنے گھر میں ہی ایک چھوٹی سی دکان بناکر اپنے شوہر اور بچوں کی کفالت کرسکتی ہوں۔

''بی بی ۔۔۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس امداد کی اصل مستحق صرف بیوہ عورتیں ہیں، ہم اس طرح یہ رقم ہر ایک میں بانٹ کر ان مظلوموں کی بد دعا نہیں لے سکتے، آپ اس امداد کی مستحق نہیں ہیں۔''

*** *** ***

ایک دن چوہدری صاحب اپنی PRADO میں بیٹھے آفس جا رہے تھے کہ اُنہیں سڑک پر ایک آٹھ سال کا مزدور بچہ اینٹیں توڑتا ہوا نظر آیا۔ چوہدری صاحب کو اُس بچے پر بڑا ترس آیا، فوراََ گاڑی رکوائی، اُس بچے کے پاس پہنچے۔

''بیٹا! آپ اسکول نہیں جاتے؟'' چوہدری صاحب شفقت بھرے لہجے میں مخاطب تھے۔

''میری امّی کہتی ہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تمہیں پڑھانے کے لیے۔'' بچے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

''آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟''

''کچھ نہیں ۔۔۔ وہ بس گھر پر ہی رہتے ہیں۔'' بچے نے معصومیت سے جواب دیا۔

''کیسا بدبخت باپ ہے، چھوٹے سے معصوم بچے سے مزدوری کروا رہا ہے اور خود گھر میں بیٹھا مزے کر رہا ہے، یقیناً نشہ وغیرہ کرتا ہوگا۔'' چوہدری صاحب نے سوچا۔

''بیٹا آپ کی امّی کو نہیں معلوم کہ حکومت نے تعلیم مفت کردی ہے، یونیفارم اورکتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔''

چوہدری صاحب نے بچے کو ساتھ لیا اور اُس کا داخلہ اُس کے محلے کے ہی ایک سکول میں کروا دیا، یونیفارم اور کتابیں بھی فراہم کردی گئیں۔ اگلے دن چوہدری صاحب آفس جاتے ہوئے اُسی جگہہ سے گزرے تو اُنہیں وہ بچہ نظر نہ آیا، یقیناً وہ اس وقت اسکول میں ہوگا۔ چوہدری صاحب مطمئن تھے کہ اُن کی ذرا سی کوشش نے ایک بچے کا مستقبل تاریک ہونے سے بچا لیا تھا۔ مگر اگلے دن توقع کے برخلاف جب چوہدری صاحب نے اُس بچے کو دوبارہ اُسی جگہہ پر مزدوری کرتے دیکھا تو وہ آگ بگولہ ہوگئے، فوراََ گاڑی سے اُتر کر بچے کے پاس پہنچے۔

ُُ''تم آج اسکول کیوں نہیں گئے؟'' آج چوہدری صاحب کے لہجے میں سختی تھی۔

''میرے ابّو کہتے ہیں کہ صرف تعلیم مفت کردینے سے میں پڑھ نہیں سکتا، گھر کا چولہا جلانے کے لیے کمانا پڑتا ہے، اور کمانے کے لیے میرا مزدوری کرنا ضروری ہے۔ حکومت میری تعلیم کا خرچ تو اُٹھا لے گی مگرمیرے گھر کا خرچ کون اُٹھائے گا، جو چلتا ہی میری کمائی پر ہے۔'' بچے کے جواب نے چوہدری صاحب کو ہلا کر رکھ دیا ۔

''میرے ابّو کہتے ہیں کہ ہم مزدور ہیں اور مزدور کا بیٹا بھی مزدور ہی بنتا ہے، اب ڈاکٹر تو بننے سے رہا، تو پھر اتنا پڑھنے کا کیا فائدہ؟''

''چوہدری صاحب! شوکت کا بیٹا ہے جس کی بیوی پچھلے دنوں امداد مانگنے بھی آئی تھی۔۔۔ وہ ہی شوکت جو اپنی شہر والی فیکٹری میں دہکتا ہوا لوہا ٹانگوں پر گرجانے کی وجہ سے معذور ہو گیا تھا۔''

[poll id="388"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں