گاہے گاہے باز خواں

وہ ان مانوس ناموں کو ان فرضی لیکن نمایندہ ٹیموں میں دیکھ کرایک تاریخی سفر کا سا لطف حاصل کریں گے


Amjad Islam Amjad October 11, 2012
[email protected]

یوں تو حال ہی میں گزرنے والا اکتوبر کا پہلا ہفتہ بھی خبروں کے عمومی مزاج کے حوالے سے گزشتہ تین چار سو ہفتوں سے مختلف نہیں تھا کہ نہ کسی پرانی ''بدخبری'' میں کوئی مثبت اور معیاری تبدیلی آئی اور نہ ہی کسی خیر کی خبر نے چہرہ نمائی کی البتہ کرکٹ کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی وجہ سے اتنا ضرور ہوا کہ عوام کو حقیقت سے نظریں چرا کر عارضی طور پر ہنسنے اور رونے کا ایک بہانہ مل گیا۔

بھارت سے ہار، آسٹریلیا سے جیت اور پھر سیمی فائنل میں سری لنکا سے ہار نے پوری قوم کو کچھ اس طرح سے اپنے حصار میں لیے رکھا کہ وقتی طور پر ہی سہی سوئس حکومت کو لکھے جانے والے خط، امریکا کے ڈرون حملے، عمران خان کا دورۂ وزیرستان، رحمن ملک کی امریکا یاترا، کراچی کی صورتحال، پٹرول کی مہنگائی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ایوان صدر سے رخصتی اور چند فصلی بٹیروں کی تحریک انصاف کے گلشن سے اپنے پرانے آشیانوں کی طرف واپسی وغیرہ کی خبریں اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلز کی Breaking News میں تو شامل رہیں لیکن لوگوں کا دھیان عام طور پر پالی کیلی اور پریما داسا کی کرکٹ گرائونڈز کی طرف ہی رہا جہاں پاکستانی ٹیم کبھی اوپر اور کبھی نیچے ہو رہی تھی، میں نے بھی اس رعایت سے ایک کالم لکھا کہ میرا حال ''گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں'' والا ہے۔

گزشتہ تین چار دن میں مجھے اپنے قارئین کی طرف سے بہت سی ای میلز ملی ہیں کہ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی وی سمیت مختلف چینلز نے جس طرح سے اس پورے ٹورنامنٹ پر خصوصی پروگرام کیے ہیں اور بہت سے سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی آرا، تبصرے اور تنقیدیں ناظرین تک پہنچائی ہیں ان کے بعد میرے جیسے ایک شخص کا جو محض اس کھیل سے دلچسپی رکھنے کا دعویدار ہوسکتا ہے کچھ کہنا کسی شمار قطار میں نہیں آسکتا کہ متعلقہ ماہرین (اپنے اپنے مخصوص تعصبات اور نقطہ نظر کے باوجود) اس کھیل کے بہتر اور جینوئن پارکھ ہیں۔

ذاتی طور پر مجھے پی ٹی وی کے دو مبصر عامر سہیل اور یونس خان اور اسی چینل کے دو اینکر ڈاکٹر نعمان نیاز اور محمد علی سانول زیادہ پسند آئے کہ ان کا انداز بیان دوسروں کی نسبت زیادہ معتدل اور گفتگو زیادہ گہری، دلچسپ اور فکر انگیز تھی۔ میری معلومات کے مطابق اس وقت ڈاکٹر نعمان نیاز کے پاس اس کھیل سے متعلق جو لائبریری، تصاویر اور متنوع معلومات کا ذخیرہ ہے اس کی مثال پاکستان تو کیا ایک فرد کی حد تک شائد پوری دنیا میں بھی کم کم ہی مل سکے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ میں داخلہ ملے ساٹھ سال پورے ہوگئے ہیں یوں تو اس کی پرفارمنس کے حوالے سے اس عرصے میں طرح طرح کی اچھی اور بری باتیں کی اور کہی گئی ہیں لیکن ایک بات جو اس کی پہچان بن گئی ہے وہ اس کا Un Predictable ہونا ہے۔ یعنی یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے، ایک دن ورلڈ چیمپئن کو ہراتی ہے اور اگلے ہی دن ایک ایسی ٹیم سے ہار جاتی ہے جسے مدتوں خود اپنی جیت پر یقین نہیں آتا۔ 1952ء سے 1958ء تک کے پہلے چھ برسوں میں اس ٹیم نے (فضل محمود کے استثنا سے قطع نظر) کسی بھی سپر اسٹار کے بغیر انڈیا، انگلستان، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کو یکے بعد دیگرے ٹیسٹ میچ میں شکست دی، اس کے بعد اگلے بارہ چودہ برس تک اکا دکا کامیابیوں سے قطع نظر یہ بس گزارہ ہی کرتی رہی۔

ستر کی دہائی میں انگلینڈ کی کاونٹی کرکٹ میں حصہ لینے کی وجہ سے ایک بار پھر یہ جیت کے رستے پر چلنا شروع ہوئی مگر اس زمانے میں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی ٹیمیں بے حد مضبوط تھیں اس لیے ان فتوحات کا دائرہ نسبتاً محدود رہا۔ اسّی کی دہائی میں حالات مزید بہتر ہوئے اور اگر اس وقت آج کل کی طرح Performance Based Ranking کا کوئی باقاعدہ نظام ہوتا تو یقینا ظہیر عباس، جاوید میانداد، ماجد جہانگیر، مشتاق محمد، آصف اقبال، سرفراز نواز، عمران خان، مدثر نذر، سلیم ملک، وسیم اکرم، عبدالقادر، وقار یونس اور وسیم راجہ سمیت کئی اور پاکستانی کھلاڑی بھی دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کی صف میں نمایاں جگہ حاصل کرتے۔مجھ سے یہ بھی فرمائش کی گئی ہے کہ میں آیندہ ایک برس کے لیے ان کھلاڑیوں کی نشاندہی کروں جنھیں ہر فارمیٹ میں پاکستان کی نمایندگی کرنی چاہیے۔

اب یہ کام چونکہ مستند ماہرین پر مشتمل سلیکشن کمیٹی کا ہے جس کا ہر ممبر بلاشبہ مجھ سے زیادہ کرکٹ کو جانتا اور سمجھتا ہے اس لیے میں صرف اس وضاحت کے ساتھ یہ فہرست بناسکتا ہوں کہ یہ سراسر میری ذاتی پسند اور کرکٹ سے متعلق محدود معلومات کی آئینہ داری تو کرسکتی ہے لیکن اس سے آگے مرزا غالب کے بقول صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے۔اب چونکہ ہمیں فوری طور پر بھارت سے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے ہیں اس لیے سب سے پہلے میں ان 20 کھلاڑیوں کے نام لکھتا ہوں جنھیں مختصر دورانیے کے میچوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پہلے گیارہ کھلاڑی میری آئیڈیل ٹیم اور باقی کے نو وہ ریزرو ہیں جن میں سے مطلوبہ پندرہ یا سولہ کھلاڑی منتخب کیے جاسکتے ہیں۔

احمد شہزاد، حفیظ، ناصر جمشید، عمر اکمل، کامران اکمل، اسد شفیق، آفریدی، عمر گل، جنید خان، سعید اجمل اور رضا حسن۔

ریزروز۔ وہاب ، انور علی، یاسر عرفات، عبدالرحمن، حماد اعظم، سہیل تنویر، شاہ زیب حسن، خالد لطیف، عبدالرزاق۔

ٹیسٹ ٹیم۔ حفیظ، ناصر جمشید، اظہر علی، یونس ، مصباح ' اسد شفیق، کامران اکمل، عمرگل، عبدالرحمن، جنید، سعید اجمل۔

ریزرو۔ عمر اکمل، فیصل اقبال، اعزاز چیمہ، رضا حسن، سہیل تنویر، شعیب ملک، وہاب ریاض، فواد عالم، محمد یوسف۔

اب آخر میں، میں نے اپنے شوق اور تحقیق کو ملا کر گزشتہ ساٹھ سال کے نمایاں ٹیسٹ کرکٹرز پر مشتمل پانچ ٹیمیں بنائی ہیں، ہر ٹیم میں پانچ بیٹسمین، چار بائولر، ایک آل رائونڈر اور وکٹ کیپر کو شامل کیا گیا۔ بارہویں کھلاڑی کی جگہ بھی رکھی گئی ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے پہلی ٹیم بہترین اور بعد کی اسی سلسلہ وار درجہ بندی کے تحت ہیں۔ جو لوگ پاکستان کی کرکٹ سے دلچسپی رکھتے ہیں امید کرتا ہوں کہ وہ ان مانوس ناموں کو ان فرضی لیکن نمایندہ ٹیموں میں دیکھ کرایک تاریخی سفر کا سا لطف حاصل کریں گے۔

(1) حنیف محمد، مدثر نذر، ظہیر عباس، جاوید میانداد، انضمام، آصف اقبال، عمران خان، معین خان، وسیم اکرم، عبدالقادر، ثقلین، وقار حسن۔

(2) سعید انور، ماجد ، یونس ، محمد یوسف، سلیم ملک، مشتاق محمد، وسیم راجہ، راشد لطیف، سرفراز نواز، وقار یونس، سعید اجمل، عبدالحفیظ کاردار۔

(3) عامر سہیل، رمیض ، سعید احمد، محسن، عمر اکمل، آفریدی، رزاق، امتیاز احمد، انتخاب عالم، فضل محمود، اقبال قاسم، باسط علی۔

(4) صادق محمد، نذر محمد، اعجاز احمد، مقصود احمد، مصباح ، اظہر محمود، نسیم الغنی، وسیم باری، عاقب ، توصیف احمد، خان محمد، جاوید برکی۔

(5) محمد حفیظ، علیم الدین، اظہر علی، ہارون رشید، شعیب ملک، وزیر محمد، عمر گل، کامران اکمل، نذیر جونیئر، محمود حسین، پرویز سجاد، اسد شفیق۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں