فاتح کون عوام کی نظریں این اے 246 پر لگ گئیں

لوگوں کی دلچسپی اس بات میں بھی ہےکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کےمجموعی ووٹ ایم کیوایم سے زیادہ ہوں گے یا نہیں


G M Jamali April 22, 2015
246 میں انتخابی معرکہ کے لیے میدان تیار ہے فوٹو : فائل

کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۔ 246 میں انتخابی معرکہ کے لیے میدان تیار ہے ۔ اس حلقہ کے ضمنی انتخابات میں صرف ایک دن رہ گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت کم ضمنی انتخابات ایسے ہوئے ہوں گے، جن میں لوگوں کی دلچسپی عام انتخابات سے بھی زیادہ ہو گی ۔

این اے 246 کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے جتنے تبصرے اور تجزیے کیے گئے ، اتنے شاید کسی حلقے کے بارے میں نہیں کیے گئے ہوں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کو میڈیا میں جتنی کوریج ملی، اس کی بھی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ متحرک سیاسی جماعتوں نے جس قدر بھرپور انتخابی سرگرمیاں جاری رکھیں ، وہ بھی حیران کن تھیں ۔

کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ سرگرمیاں صرف ایک حلقے کے لیے ہیں۔ تین سیاسی جماعتوں یعنی متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ان ضمنی انتخابات کی وجہ سے کراچی کا دو مرتبہ دورہ کیا اور حلقے کے مختلف علاقوں میں گئے۔

اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی دو مرتبہ کراچی کا دورہ کیا اور حلقے کے اندر جا کر جلوسوں کی قیادت کی ۔ تینوں جماعتوں نے بڑے بڑے جلسہ ہائے عام بھی منعقد کیے۔ ان کے علاوہ تینوں جماعتوں نے کئی چھوٹے چھوٹے جلسے اور کارنر میٹنگز بھی منعقد کیں اور ریلیاں بھی نکالیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کی بھرپور سرگرمیوں اور جوش و خروش کی وجہ سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ملک میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں ۔

عام طور پر ہر انتخابی حلقے میں لوگوں کی دلچسپی اس بات میں ہوتی ہے کہ کون سی سیاسی جماعت کا امیدوار کامیاب ہو گا لیکن این اے ۔ 246 میں لوگوں کی دلچسپی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کون جیتے گا ، کون ہارے گا بلکہ لوگوں کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ کس سیاسی جماعت کو کتنے ووٹ ملتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے مخالفین بھی یہ اندازے لگا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم اس نشست پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے لیکن وہ بھی صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ 23 اپریل کو ایم کیو ایم کے امیدوار کو ووٹ کتنے ملتے ہیں ۔

ایم کیو ایم گذشتہ کئی انتخابات میں اس نشست پر ایک لاکھ سے زائد ووٹ لیتی رہی ہے۔ مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار سردار نبیل احمد گبول نے 139386 ووٹ لیے تھے ۔ نبیل گبول کے استعفیٰ کی وجہ سے یہ نشست خالی ہوئی ہے اور اب ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار عامر شرجیل نے 32048 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم نے 10258 ووٹ لیے تھے ۔

راشد نسیم اس وقت بھی جماعت اسلامی کے امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں مجموعی طور پر 185350 ووٹ کاسٹ ہوئے تھے ۔ اس سے پہلے کے عام انتخابات میں اس حلقے میں دو لاکھ سے بھی زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے۔ لوگوں کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ 23 اپریل کے ضمنی انتخابات میں کتنے ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں اور لوگوں کا جوش و خروش عام انتخابات سے بھی زیادہ ہے ۔

کراچی سمیت پورے پاکستان کے لوگوں کی ان ضمنی انتخابات میں دلچسپی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے امیدوار کنور نوید جمیل کو کتنے ووٹ ملتے ہیں ۔ اس حلقے میں ایم کیو ایم کا مرکزی دفتر نائن زیرو بھی واقع ہے۔ مئی 2013ء میں نبیل گبول کو 139386 ووٹ ملے تھے ۔ 2008ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار کو 186933 ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔ اب اگر ایم کیو ایم کے امیدوار کے ووٹ ایک یا سوا لاکھ سے کم ہوئے تو ایم کیو ایم کے مخالفین کو تنقید کرنے کا بہت بڑا موقع مل جائے گا ۔

ضمنی انتخابات میں لوگوں کی دلچسپی کا تیسرا سبب یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے امیدوار کتنے ووٹ لیتے ہیں کیونکہ ان سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم میں اپنا پورا زور لگا دیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سربراہان نے یہ انتخابی مہم خود چلائی ہے۔ جماعت اسلامی کے راشد نسیم نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں 10258 ووٹ حاصل کیے تھے حالانکہ جماعت اسلامی نے دوپہر 12 بجے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا ۔

اگر جماعت اسلامی بائیکاٹ نہ کرتی تو شاید راشد نسیم کو زیادہ ووٹ ملتے۔ راشد نسیم نے 2002ء کے عام انتخابات میں 32879 ووٹ حاصل کیے تھے اور اب بھی یہی تصور کیا جا رہا ہے کہ جماعت اسلامی کا اس حلقے میں اپنا 30 ہزار سے زائد نظریاتی ووٹ موجود ہیں ۔ اگر یہی ووٹ جماعت اسلامی کو ضمنی انتخابات میں مل جاتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں ہو گی اور یہ تصور کر لیا جائے گا کہ جماعت اسلامی کو اس حلقے کے مزید لوگوں کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔

حالات تبدیل نہیں ہوئے ہیں اور اسے بھرپور انتخابی مہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اگر جماعت اسلامی 5 سے 10 ہزار زیادہ ووٹ لے لیتی ہے تو یہ بڑی کایا پلٹ تصور ہو گی ۔ اگر جماعت اسلامی 30 ہزار سے کم ووٹ لیتی ہے تو جماعت اسلامی کے لیے کراچی میں دوبارہ پاؤں جمانا بہت مشکل ہو جائے گا ۔ تحریک انصاف کے امیدوار عامر شرجیل نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں 32048 ووٹ لیے تھے۔اتنے زیادہ ووٹ ملنے کا ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا ۔ اگر جماعت اسلامی میدان میں رہتی تو شاید اتنے ووٹ نہ ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنا امیدوار دستبردار نہیں کرایا ۔ جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ اس کے اس حلقے میں ووٹ زیادہ ہیں جبکہ تحریک انصاف کا خیال یہ ہے کہ اس نے جو 32 ہزار سے زائد ووٹ لیے، وہ اس کے اپنے ہیں ۔ 23 اپریل کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو اتنے ہی ووٹ مل جائیں تو یہ اس کی انتخابی کامیابی کے لیے ناکافی ہوں گے لیکن اس کی سیاسی کامیابی تصور ہوں گے ۔

اگر تحریک انصاف نے 30 ہزار سے کم ووٹ لیے تو اس کو سیاسی طور پر بہت نقصان ہو گا اور کراچی میں اس کی سیاسی پیش قدمی کی رفتار تشویش ناک حد تک کم ہو جائے گی۔ ضمنی انتخابات میں لوگوں کی دلچسپی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کیا جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مجموعی ووٹ ایم کیو ایم کے ووٹوں سے زیادہ ہوں گے یا نہیں ؟ 23 اپریل کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے لوگوں کی بے چینی اپنے عروج پر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں